گزشتہ ہفتے 'روزنامہ دنیا‘ میں شائع ہونے والی ایک خبر نے‘ جو بظاہر ایک شادی شدہ جوڑے کے درمیان 25 سالہ ازدواجی رفاقت کے نہایت معمولی سی بات کے باعث ختم ہونے کے بارے میں تھی‘ میری توجہ کھینچ لی۔ امریکہ میں ہونے والی اس طلاق میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ وہاں تو اس سے بھی کہیں معمولی بات پر طلاق کی نوبت آ جاتی ہے‘ تاہم اس خبر نے جو امریکہ کے معاشرتی حوالے سے شاید معمول کی بات تھی‘ میرے لیے ذرا مختلف قسم کا تاثر چھوڑا ہے۔ پہلے اس خبر کی تفصیل ہو جائے۔
خبر یوں ہے کہ ایک خاتون نے شادی کے 25 سال بعد اپنے شوہر سے اس بنا پر طلاق لے لی کہ اس نے شادی کی پچیسویں سالگرہ پر منگوائے جانے والے کیک میں سے اپنی اہلیہ کے حصے کا بچ جانے والا کیک کا آخری ٹکڑا کھا لیا تھا۔ ہوا یوں کہ جوڑے نے اپنی شادی کی پچیسویں سالگرہ پر کسی ریستوران میں ڈنر کرنے کا پروگرام بنایا۔ 46 سالہ خاتون نے بتایا کہ اس کا اپنے 48 سالہ شوہر کے ساتھ اکثر جھگڑا رہتا تھا۔ اس کے شوہر نے شادی کی سالگرہ پر باہمی جھگڑے کو ختم کرنے کی خاطر ڈنر پلان کیا‘ تاہم اس نے جانتے بوجھتے ہوئے اسی ہوٹل کا انتخاب کیا جس کے حوالے سے ہم نے سوچا ہوا تھا کہ ہم یہاں کبھی نہیں جائیں گے۔ خاتون نے بتایا کہ اس ناپسندیدہ اور نامعقول انتخاب کے باوجود اس نے اپنا موڈ ٹھیک رکھا لیکن جیسے ہی وہ ہوٹل پہنچے اس کے شوہر کا موڈ بگڑ گیا‘ اس نے مجھے رات کے کھانے کا آرڈر دینے کا کہا تو میں نے تین ڈشز منتخب کر کے اسے بتائیں اور میٹھے میں ان دونوں نے چیز کیک آرڈر کیا۔
خاتون کا کہنا تھا کہ چونکہ کھانا کھانے کے بعد مزید کھانے کی گنجائش نہیں تھی لہٰذا وہ اپنے کیک کا ٹکڑا اپنے ساتھ گھر لے آئی جبکہ اس کے شوہر نے اپنے حصے کا کیک وہیں ریستوران میں کھا لیا۔ گھر آ کر اس نے اپنا کیک اس خیال سے فریج میں رکھ دیا کہ وہ صبح اٹھ کر اپنا کیک کھا لے گی مگر جب اگلی صبح اٹھ کر اس نے رات کا بچا ہوا کیک کھانے کا سوچ کر فریج کھولا تو اس نے دیکھا کہ اس کا رکھا ہوا کیک ختم ہو چکا ہے اور فریج میں محض اس کی باقیات بچی ہوئی ہیں۔ اس نے جب اپنے شوہر سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے پہلے تو یہ ماننے سے ہی انکار کر دیا کہ اس نے اس کا بچا ہوا کیک کھایا ہے مگر بعد میں تسلیم کر لیا کہ اس نے میرا کیک کھا لیا۔
خاتون کے مطابق اس وقت اسے احساس ہوا کہ اس 25 سالہ ازدواجی زندگی میں اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ اس کے حصے کا کیک ہمیشہ اس کا شوہر کھا لیتا ہے۔ یہ صرف کیک کی بات نہیں ہے بلکہ زندگی کی چھوٹی بڑی چیزوں میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ اس کو لگا کہ وہ صرف اس کا گھر سنبھالنے کیلئے ہے‘ اس کا کام محض اپنے شوہر کی خاطر مدارت کرنا‘ اس کا دھیان رکھنا اور اس کے کام وقت پر سرانجام دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں جبکہ بدلے میں اسے اپنے شوہر کا بچا کھچا کھانا ملتا ہے۔
ممکن ہے قارئین کیلئے اس خبر میں بظاہر کوئی خاص بات نہ ہو اور وہ اس خبر پر میری خصوصی توجہ کو اپنے وقت اور اس ساری تفصیل کو کالم کیلئے مخصوص صفحے کا ضیاع سمجھیں۔ لیکن میرے پیشِ نظر اس خبر میں پوشیدہ ایک مسلسل استحصالی رویے سے تنگ آئی ہوئی ایک خاتون کی بغاوت کے تناظر میں اس سے کہیں وسیع تر منظر نامے کا خیال ہے۔ مجھے اس خاتون کی شخصی آزادی پر‘ بھلے وہ اسے پچیس سال بعد ہی کیوں نہ نصیب ہوئی‘ حسرت ہوئی۔ ہم نے گزشتہ 78 سال رہزنوں کو اپنا رہنما بناتے ہوئے‘ صاحبانِ اقتدار کے نخرے برداشت کرتے ہوئے‘ خود پر مسلط اشرافیہ کے چاؤ چونچلے اٹھاتے ہوئے‘ زور آوروں کی ہدایات پر چلتے ہوئے‘ بیوروکریسی کو پالتے پوستے ہوئے‘ آمروں کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے‘ جمہوریت پر شب خون مارنے والوں سے ڈرتے ہوئے‘ اپنے جائز حق کے حصول کیلئے ذلیل ہوتے ہوئے‘ لٹیروں کو اپنے سروں پر بٹھاتے ہوئے‘ اپنے سیاسی لیڈروں کو خطاکاروں سے دیوتا بناتے ہوئے‘ اپنے لیڈروں کے گمراہ کن سیاسی نظریات کو ایمان کا درجہ دیتے ہوئے‘ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتتے ہوئے‘ آئین میں حاصل حقوق کیلئے حسرت کرتے ہوئے‘ مافیاؤں سے لٹتے پٹتے ہوئے‘ انصاف کی آرزو میں عدالتوں سے ناکام و نامراد لوٹتے ہوئے‘ ظالموں سے تحفظ کی تگ و دو میں تھانوں میں ذلیل و خوار ہوتے ہوئے‘ مراعات یافتہ طبقوں کو اپنے حصے کا کیک کھلاتے ہوئے اور طاقتوروں کیلئے غلامی کرتے ہوئے گزار دیے ہیں۔
ہمارا یہ حال ہے کہ گزشتہ 78 سال سے ہم روزانہ صبح اٹھ کر اپنا رات کو بمشکل بچا کر رکھا ہوا کیک فریج سے نکال کر کھانے کی کوشش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رات کو ہمارے کیک کا میسر آخری ٹکڑا وہی لوگ فریج سے نکال کر کھا گئے ہیں جنہوں نے رات اپنے حصے سے کہیں بڑھ کر کیک ہضم کر لیا تھا۔ امریکہ میں اپنے کیک کا حصہ ہڑپ کرنے پر 25 سال بعد ہی سہی‘ طلاق لینے والی وہ خاتون بہرحال ہماری نسبت کہیں خوش قسمت تھی کہ چوتھائی صدی میں ہی اس کی اس نظامِ جبر سے خلاصی ہو گئی مگر ہمیں پون صدی سے بھی تین زائد سال اس استحصالِ مسلسل کی چکی میں پسنے کے بعد بھی یہ حق نہیں ملا کہ ہم بھی کسی کو طلاق دے سکتے یا خلع کے حصول میں کامیاب ہو جاتے۔ ہمارے پاس اس نظام کے بارے میں مزید دو بری خبریں ہیں۔ پہلی یہ کہ ہمار ے پاس فی الوقت اس تعفن زدہ سے نظام چھٹکارے کی کوئی سبیل ممکن نہیں اور دوسری خبر جو پہلی خبر سے بھی بدتر ہے وہ یہ کہ اس میں دور دور تک کسی قسم کی جوہری تبدیلی کا امکان بھی دکھائی نہیں دے رہا۔
تبدیلی کے کچھ Indicators یعنی اشارے ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا اشارہ تو یہ ہوتا ہے کہ ہمارا آج ہمارے گزرے ہوئے کل سے بہتر ہو۔ امام بیہقی ایک حدیث مبارکہ روایت کرتے ہیں کہ ''جس شخص کے دو دن برابر ہوں وہ گھاٹے میں ہے‘ اور جس کا آج اس کے گزشتہ کل سے بدتر ہو وہ محروم (یا برباد) ہے‘‘۔ ادھر صورتحال یہ ہے کہ ہمارا آج ہمارے گزشتہ کل سے بہتر ہونا تو دور رہا‘ یہ گزشتہ کل کے برابر بھی نہیں جس میں گھاٹے کی بدخبری سنائی گئی ہے۔ ہمارا ہر گزرتا دن پہلے گزرے ہوئے دن سے خراب تر گزر رہا ہے تو بھلا ایسے میں بہتری کا امکان کیسے دکھائی دے سکتا ہے؟
میں اپنے بچپن والے ملتان کا موازنہ لڑکپن والے ملتان سے اور جوانی والے ملتان کا موازنہ اس بڑھاپے کی طرف تیزی سے گامزن عمر والے آج کے ملتان سے کرتا ہوں تو کئی گنا آبادی اور اس کے نتیجے میں بے طرح پھیلے ہوئے اس شہر کی تقریباً ہر چیز مائل بہ زوال ہے۔ ٹریفک کی صورتحال‘ سرکاری اداروں کی کارکردگی‘ کام کروانے کیلئے اوپر والے خرچے کی شرح‘ قانون کی حاکمیت‘ تھانہ کچہری اور پٹوار کا حال‘ ملک میں جمہوری اقدار اور اخلاقیات کی صورتحال‘ غرض ہر میدان میں پہلے سے زیادہ گند مچا ہوا ہے اور زیادہ دھول اڑ رہی ہے۔ ملتان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دراصل پاکستان کے ہر شہر کی کہانی ہے اور میری آہ و زاری ہر پاکستان کے دل کی آواز ہے۔
ہم مجبور اور مقہور لوگ کیا کریں؟ کس سے طلاق لے کر اپنے گلے کے طوق سے نجات حاصل کریں؟ کس سے اپنے حقوق کا تقاضا کریں؟ ہمیں بیک وقت کئی قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ ہمیں فی الوقت اس جبر مسلسل سے چھٹکارے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ ہم اُس امریکی خاتون کی طرح طلاق جیسی نعمت سے بھی محروم ہیں اور گھر چھوڑ کر بھاگنا بھی نہیں ہے۔ ہم ایک بے نتیجہ جنگ کے سپاہی ہیں مگر مایوس نہیں۔ بقول فیض:
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved