تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     06-11-2025

مسجد کا انتظام کس کی ذمہ داری ہے؟

عبادت گاہوں کا انتظام و انصرام انتظامی مسئلہ ہے۔ بدیہی طور پر یہ حکومت کا کام ہے۔ اہلِ مذہب سے اس کا اساسی تعلق نہیں۔ حکومت مذہبی ہو یا غیرمذہبی‘ یہ اس کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے۔ میں اپنی بات کو مسلمانوں کی حکومت تک محدود رکھتا ہوں۔
مسلم روایت میں عبادت گاہوں کی حفاظت اور قیام کا اہتمام حکومت کرتی تھی۔ غیرمسلموں کو یہ حق حاصل تھا کہ حکومت کی اجازت سے اگر ضرورت سمجھیں تو اپنی عبادت گاہ بنا سکتے تھے۔ مسلمانوں کی مساجد دو طرح کی رہی ہیں۔ ایک وہ جنہیں جامع مسجد کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مسجد ہے جہاں جمعہ کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس کا قیام اور انتظام حکومت کا کام ہے۔ ہماری روایت میں جمعہ کا خطبہ دینا حکومتی عُمال کی ذمہ داری تھی۔ اس بات کا تو سوال ہی نہیں تھا کہ کوئی اپنی مرضی سے مسجد بنائے اور جمعہ کا خطبہ دینے لگے۔ اگر عُمال کسی وجہ سے خطبہ نہ دے سکے تو وہ یہ ذمہ داری کسی کو تفویض کر دیتا تھا۔ یہی سبب ہے کہ جہاں مسلمانوں کا اقتدار نہ ہوتا وہاں جمعے کا اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ مسجد کی دوسری قسم مصلیٰ ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں اہلِ محلہ یا کمیونٹی کے لوگ اپنے طور پر باجماعت نماز کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ صرف نماز کے لیے ہے۔
ہندوستان میں جب مسلم اقتدار ختم ہوا اور انگریزوں کی حکومت آئی تو یہ مسئلہ اٹھا کہ یہاں جمعہ کی نماز جائز ہے یا نہیں؟ جنہوں نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا‘ ان کی دلیل بھی یہ تھی کہ یہ عارضی بندوبست ہے۔ جیسے ہی مسلمانوں کا اقتدار قائم ہو گا‘ یہ ذمہ داری ریاست کی طرف لوٹ جائے گی۔ یہی سبب ہے کہ یہاں جمعہ کی دو رکعت فرض نماز کے ساتھ ظہر کی چار رکعتیں بھی پڑھی جاتی ہیں۔ اس پر بھی فقہ کی کتب میں مفصل بحث ہے کہ جمعہ کس بستی میں جائز ہے؟ اس کی شرائط کیا ہیں؟ مجھے اپنا بچپن یاد ہے اور یہ 1970ء کی دہائی کا قصہ ہے کہ قریب کی کئی بستیوں کے لوگ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے ہمارے گاؤں آیا کرتے تھے۔ یہ اتنی مستحکم بات ہے کہ اس میں دوسری رائے نہیں ہے۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد جب یہاں ایک بار پھر مسلمانوں کا اقتدار قائم ہو گیا‘ ریاست یہ ذمہ داری اٹھا لیتی۔ ایسا نہیں ہوا۔ علما نے اپنے طور پر اس روایت کو قائم رکھا۔ عُمال اس کے اہل تھے نہ خواہش مند کہ وہ خطبہ جمعہ کی ذمہ داری اٹھاتے۔ انہوں نے مذہبی سیاسی جماعتوں کے دباؤ پر قراردادِ مقاصد کو اپنا لیا مگر اس کے جوہر کو نہ پا سکے۔ مذہب کو جب سلامتی کے ریاستی بیانیے کا حصہ بنایا گیا تو نتیجے کے طور پر اہلِ مذہب کو پاور سٹرکچر یعنی اقتدار کا حصہ بنانا پڑا۔ مذہب کو سکیورٹی پیراڈائم کا حصہ بنانے کے بعد ریاست نے اس طبقے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ ایک مقصد قومی سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنا بھی تھا۔ اس سے اس طبقے میں اپنی قوت کا احساس پیدا ہوا کہ وہ اپنی طاقت کو ریاست سے اپنی شرائط منوانے کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ اس طرح ریاست نے جو قوت اپنے اور ریاستی اداروں کی مدد کے لیے پیدا کی تھی‘ وہ اس کے لیے خطرہ بن گئی۔ اس سارے عمل میں مسجد اس طبقے کی قوت کا مرکز بن گئی۔ تجربات کے بعد ریاست کو اندازہ ہوا کہ سماج میں ایک ایسی قوت مستحکم ہو گئی ہے جو ریاست کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور عوام کے مذہبی جذبات کو استعمال کر کے ریاستی نظام مفلوج کر سکتی ہے۔ اب اس نے سجدہ سہو کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔
مسجد اور مذہبی سرگرمیوں کو اگر انتظامی پہلو سے دیکھا جاتا تو ابتدا ہی سے ان کی تنظیم کی ذمہ داری ریاست کو اٹھانی چاہیے تھی۔ جیسے سارے عالمِ اسلام میں ریاستیں یہ کام کرتی ہیں اور جیسے مسلم تاریخ میں ہوا۔ بعد از خرابیٔ بسیار پنجاب حکومت نے اس کی طرف ایک قدم اٹھایا ہے جو خوش آئند ہے۔ لازم ہے کہ اس کام کو اب منظم انداز میں کیا جائے اور نتیجہ خیز بنایا جائے۔ پہلے مرحلے میں ان مساجد کی ذمہ داری حکومت اٹھائے جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہے۔ تنخواہ کے ساتھ خطیب کے تقرر کے لیے ایک معیار مقررکرے اور اس کے لیے کم ازکم کسی مذہبی تعلیمی بورڈ کی سند ضروری ہو۔ خطباتِ جمعہ کو سماج کی اخلاقی تربیت اور انذار کے لیے خاص کیا جائے۔ دوسرے مرحلے میں یہ سروے کرایا جائے کہ کہاں جامع مسجد کی ضرورت ہے اور کون سی مساجد محض مسلکی تعصب کی وجہ سے قائم ہیں۔ ایسی مساجد کو مصلیٰ میں بدل دیا جائے۔ اس سروے میں یہ دیکھا جائے کہ کس محلے میں کون سے مسلک کی تعداد زیادہ ہے۔ وہاں اسی مسلک کا خطیب مقرر کر دیا جائے۔ یہ میں اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ مسلکی تقسیم ایک حقیقت ہے‘ جس کا لحاظ رکھ کر ہی کوئی عملی قدم اٹھایا جائے گا۔ اصولاً ہونا یہ چاہیے کہ مساجد کو اس تقسیم سے پاک کر دیا جائے‘ تاہم یہ کام تدریجاً ہو گا اور اس کے لیے ایک مختلف لائحہ عمل کی ضرورت ہو گی۔ وہ بھی اس وقت جب ریاست اس باب میں سنجیدہ ہو گی۔
مسجد مسلم سماج میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ سماج کی اخلاقی تربیت کا ایک مؤثر ادارہ بن سکتی ہے اگر ہم اسے مسلکی اور گروہی تعصبات سے بلند کر سکیں۔ یہ کام ریاست ہی کر سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مساجد کا قیام و انتظام ریاست اپنے ہاتھ میں لے۔ تاہم سماج میں مختلف علمی و فقہی رجحانات ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اپنے دائرے میں باقی رہ سکتے ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ مسجد میں مختلف علما کے لیے ہفتے میں کوئی ایک دن مقررکر دیا جائے جب وہ لوگوں کی تعلیم کریں۔ جب کوئی ان کے حلقے میں بیٹھنا چاہے‘ اسے یہ آزادی میسر ہو۔ مثال کے طور پر عراق اور ایران میں حوزہ ہائے علمی قائم ہیں۔ یہ علما کے حلقے ہیں جہاں وہ اپنے اپنے فہم کے مطابق عوام کو تعلیم دیتے ہیں۔ ہماری روایت میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ جمعے کا فورم مگر کسی مسلک پرست کے ہاتھ میں نہیں دیا جا سکتا۔ اسے ریاست کے انتظام میں رہنا اور قومی و سماجی مفاد سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
قومی رحمۃ للعالمین وخاتم النبیین اتھارٹی احیائے مسجد کے تصور پر کام کر رہی ہے جس کا مقصد اس ادارے کو ان بنیادوں پر ایک بار پھر سے استوار کرنا ہے جن پر یہ عہدِ نبوی اور خلافتِ راشدہ کے دور میں تھی۔ اس کے لیے تاریخ کے ساتھ معاصر مسلمان معاشروں کے تجربات سے بھی استفادہ کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر ترکیہ میں دیانت کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے جو مسجد کے انتظامات کا ذمہ دار ہے۔ اسی طرح انڈونیشیا میں جکارتہ کی مسجد استقلال نے بھی ایک ملک گیر نظام بنایا ہے۔ مسجد کے سماجی کردار کے حوالے سے ہمیں اپنی روایت کی طرف لوٹنا چاہیے۔ اسی میں بہتری ہے۔
مسجد کے خطیب کی عزتِ نفس کا تحفظ ہونا چاہیے اور ریاست کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ وہ ایک پُروقار زندگی گزار سکے۔ اس کے ساتھ اس بات کو یقینی بنانا بھی ریاست کا کام ہے کہ مسجد اخلاق کی تعمیر اور تزکیہ نفس کا ادارہ بنے نہ کہ اہلِ فتنہ کی سرگرمیوں کا مرکز۔ اس کے ساتھ اہلِ علم کے لیے یہ مواقع موجود رہیں کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنی علمی اور فقہی آرا کو بیان کر سکیں۔ اس کے ساتھ عوام کے لیے بھی یہ راستہ کھلا رہے کہ وہ جس عالم سے استفادہ کرنا چاہیں‘ پوری آزادی کے ساتھ کر سکیں۔ پنجاب حکومت نے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔ اسے ایک مستقل ادارے کی صورت دی جانی چاہیے جس سے مسجد کی سماجی حیثیت بحال ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved