امریکہ میں گزشتہ روز ایک نئی تاریخ رقم ہوئی جب 34سالہ ڈیموکریٹک سوشلسٹ زہران ممدانی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ارب پتی بزنس مین ایلون مسک کی مخالفت کے باوجود نیویارک سٹی کے میئر کا انتخاب جیت لیا۔ امریکہ کی دو طاقتور شخصیات کی مخالفت کے باوجود زہران ممدانی نے دس لاکھ 36 ہزار 51 ووٹ جبکہ ان کے مد مقابل آزاد امیدوار اینڈریو کومو نے آٹھ لاکھ 54 ہزار 995 ووٹ لیے۔ ریپبلکن کے کرٹس سلیوا صرف ایک لاکھ 46 ہزار 137 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے نیو یارک کے میئر کے لیے ہونے والے انتخابات کے غیر سرکاری نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ ڈیموکریٹک امیدوار زہران ممدانی نے 50.5 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے قریب ترین حریف سابق گورنر اور آزاد امیدوار اینڈریو کومو کو 41.6 فیصد ووٹوں ملے۔ ایک اور تاریخ یہ رقم ہوئی کہ 2001ء کے بعد میئر کے انتخابات میں سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ ریکارڈ کیا گیا۔
میئر نیو یارک بننے والے زہران کا پورا نام زہران کوامے ممدانی (Zohran Kwame Mamdani) ہے۔ وہ 1991ء میں یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمود ممدانی ایک بھارتی یوگنڈا نژاد سیاسیات کے پروفیسر ہیں جبکہ ان کی والدہ میرا نائر بالی وُڈ اور ہالی وڈ میں متعدد فیچر فلمیں‘ درجنوں ڈاکومنٹریز اور دسیوں ٹیلی ویژن سیریز بنا چکی ہیں۔ انہوں نے مون سون ویڈنگ اور دی نیم سیک جیسی اہم فلمیں بنائی ہیں۔ زہران ممدانی اپنے خاندان کے ساتھ جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں قیام پذیر رہے لیکن جب وہ سات سال کے تھے تو ان کا خاندان نیو یارک آ گیا اور خاندان کے ساتھ وہ بھی نیو یارک میں رہائش پذیر ہو گئے اور وہیں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ انہوں نے نیویارک کے علاقے برونکس میں پرورش پائی جو ایک ملازمت پیشہ آبادی کا علاقہ ہے۔ انہوں نے Africana studies میں گریجویشن کر رکھی ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد زہران نے بطور فورکلوزر پریوینشن کونسلر (Foreclosure Prevention Counselor) کام کیا جس کا مطلب ایک ایسا مشیر ہے جو غریب خاندانوں کو قرض کی وجہ سے گھروں سے جبری بے دخلی سے بچانے میں مدد دیتا ہے۔ شاید ان کی یہی کوششیں اور اقدامات ہیں جن کی وجہ سے اہلِ نیو یارک نے انہیں اپنا میئر منتخب کیا ہے۔ ممدانی خود کو جمہوری سوشلسٹ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ بڑی کمپنیوں کے بجائے کارکنوں کی آواز سنی جائے اور ان کے مسائل حل کیے جائیں۔ ٹرمپ اور ایلون مسک کی مخالفت اور 'فنڈز میں کٹوتی‘ کی دھمکیوں کے باوجود زہران ممدانی نیو یارک کے میئر منتخب ہوئے ہیں تو اس کی غالباً یہی بڑی وجہ ہے کہ وہ غریب اور متوسط طبقے کیلئے دن رات کام کرتے رہے ہیں۔
زہران ممدانی کے علاوہ بھی کئی مسلم ایسے ہیں جنہوں نے دوسرے ممالک میں جا کر اسلام اور اپنے ملکوں کا نام روشن کیا۔ ایک بھارتی نیوز ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈیٹرائٹ امریکی ریاست مشی گن کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ اس شہر سے کچھ فاصلے پر ہیمٹریمک (Hamtramck) نام کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ اس شہر نے 2021ء میں تاریخ رقم کی جب اس کی پوری شہری حکومت یعنی میئر سے لے کر سٹی کونسل تک‘ مسلمان اراکین پر مشتمل تھی۔ یہ امریکہ کا پہلا شہر بن گیا جس کی حکومت مکمل طور پر مسلمانوں کی قیادت میں ہے۔ پاکستانی نژاد صادق خان 2016ء سے لندن کے براہِ راست منتخب قائم مقام میئر ہیں۔ وہ تین بار منتخب ہو چکے ہیں اور لندن کی پبلک ٹرانسپورٹ اور موسمیاتی پالیسی میں بڑی تبدیلیوں کیلئے جانے جاتے ہیں۔ مراکش میں پیدا ہونے والے احمد ابو طالب 2009ء سے 2024ء تک نیدرلینڈز کے شہر روٹرڈم کے میئر رہے۔ عبداللہ حسین حمود 2021ء سے امریکی شہر ڈیئر بورن کے پہلے عرب امریکی مسلم میئر ہیں۔ یاد رہے کہ ڈیئر بورن ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا وہ شہر ہے جہاں سب سے زیادہ عرب نژاد امریکی آبادی ہے۔ وہ دوبارہ الیکشن جیت چکے ہیں۔ لطف الرحمان نے 2010ء سے 2015ء تک مشرقی لندن بورو (Borough)کے براہِ راست منتخب میئر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ محمد اسدالزماں کو حال ہی میں متفقہ طور پر برائٹن اینڈ ہوو (Brighton and Hove) کا میئر منتخب کیا گیا ہے۔ وہ شہر کے پہلے مسلم میئر بنے ہیں۔ اس کے علاوہ برمنگھم‘ لیڈز‘ آکسفورڈ‘ لیوٹن‘ بلیک برن اور اولڈہم سمیت برطانیہ کے کئی شہروں میں مسلم لیڈر رسمی میئر (Ceremonial Mayor) کا کردار ادا کر چکے ہیں۔ چودھری محمد سرور کا نام شامل کیے بغیر یہ فہرست نامکمل رہے گی۔ وہ تین بار گلاسگو سے برطانوی پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے اور 13سال گلاسگو مرکز کی لیبر پارٹی کی طرف سے نمائندگی کی۔ وہ برطانوی پارلیمان کے پہلے مسلم رکن بنے۔ ان کے بعد ان کے بیٹے انس سرور اس نشست پر منتخب ہوئے۔ چودھری سرور برطانیہ میں تھوک کریانہ کا کاروبار چلاتے ہیں جس سے انہوں نے لاکھوں کمائے۔ چودھری سرور دو بار گورنر پنجاب بھی منتخب ہوئے۔ دوسرے ممالک کے اہم عہدوں تک پہنچنے والے مسلمانوں اور پاکستانیوں کی فہرست خاصی طویل ہے۔ معاملہ وہی ہے کہ مسلمان اور پاکستانی کسی بھی حوالے سے دوسرے ممالک کے افراد سے پیچھے نہیں ہیں۔ بس تھوڑی سی توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ جن کو توجہ ملی اور جنہوں نے تگ و دو کی وہ کامیاب ٹھہرے۔ مسلمانوں کی دوسرے ممالک میں یہ فتوحات اور کامیابیاں یقینا خوش آئند اور سراہے جانے کے قابل ہیں۔
میرے لیے زہران ممدانی کے میئر نیو یارک منتخب ہونے میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ انتخابی عمل کے دوران الیکشن کی ہنگامہ آرائی تو ہوتی رہی لیکن کہیں بھی جلاؤ گھیراؤ والا معاملہ نظر نہیں آیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ کی دو بڑی شخصیات زہران کی مخالف تھیں‘ اس کے باوجود زہران کا جیت جانا فیئر اینڈ فری الیکشن کا غماز ہے۔ کیا پاکستان میں اتنے ہموار انداز میں انتخابات کے انعقاد کی کوئی مثال دی جا سکتی ہے؟ کیا دوسرے ممالک میں عوام کی رائے کو ہی اصل رائے سمجھا جاتا اور قبول کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں اور جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک میں ہار اور جیت کو انا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے اور پھر جیت کیلئے ہر جائز ناجائز طریقہ اختیار کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ ہمیں کبھی تو سوچنا پڑے گا کہ ہمارے ہاں انتخابات اتنے ہنگامہ خیز اور بعض اوقات پُرتشدد کیوں ہو جاتے ہیں؟ ہمارے ہاں سیاسی اختلافات کو ذاتی اختلافات کیوں سمجھ لیا جاتا ہے؟ آخر کوئی تو وجہ ہو گی کہ آزادی کے 78 سال گزارنے کے باوجود ہم حقیقی آزادیوں سے دور ہیں؟ کب ہم اپنے ہاں حقیقی جمہوری ریاست کو رواج دے سکیں گے؟ چلیں ان باتوں کو فی الحال ایک طرف رکھ کر زہران ممدانی‘ ایک مسلم کے میئر نیو یارک بننے کا جشن مناتے ہیں۔ یاد آیا زہران ممدانی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران 29جون 2025ء کو کہا تھا کہ اگر وہ میئر بنے اور نیتن یاہو نیو یارک آئے تو انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ اب زہران ممدانی میئر بن چکے ہیں تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حالات میں نیتن یاہو کا نیویارک آنا ناممکن ہو چکا ہے۔ امریکی صدر سے ملاقات کرنے اور فلسطینیوں کے خلاف استعمال کیلئے مزید مالی امداد اور اسلحے کے حصول کے لیے نیتن یاہو کو اب امریکہ کا کوئی دوسرا ہوائی اڈا استعمال کرنا پڑے گا؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved