آج صبح سے ہی فرینک سناترا کا مشہور گانا 'نیویارک، نیویارک‘ ذہن میں گونجنے لگا جو یاد داشت کا حصہ رہا ہے۔ نیویارک دنیا کا عظیم ترین شہر ہے‘ اس کا کوئی ثانی نہیں‘ نہ ہی ہو سکتا ہے۔ صدیوں سے یہ امریکہ کا ثقافتی‘ سیاسی اور معاشرتی مرکز رہا ہے۔ کئی لحاظ سے ملک کے حکمران طبقے کا تعلق نیویارک سے ہوتا ہے۔ اگرچہ بڑے عہدوں پر دیگر ریاستوں سے بھی لوگ منتخب ہوتے آئے ہیں‘ مگر نیو یارک کی ابھی تک شناخت ایک منفرد اور اعلیٰ طبقات کے مرکز کے طور پر رہی ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ امریکہ میں صدیوں سے یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے امریکی شہریوں کا معاشی اور سیاسی غلبہ رہا ہے۔ پھر یہ منگل کی رات کے سائے گہرے ہوتے ہی پرچی کے زور پراتنا بڑا انقلاب کیسے رونما ہو گیا؟ اس سوال کے کئی پہلو ہیں۔ سب کا احاطہ تو ممکن نہیں مگر چیدہ چیدہ کچھ باتوں کا ذکر ضروری ہے۔
زہران ممدانی کا تمام دشواریوں کے باوجود واضح اکثریت سے نیو یارک سٹی کا میئر منتخب ہو جانا سیاسی بھونچال سے کم نہیں ۔ شہر کا بالا طبقہ‘ یہاں تک کہ ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کے کچھ اہم ترین لیڈر بھی مخالفین کی صفوں میں چھپے ہوئے تھے‘ اور صدرِ امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی ان کی برملا مخالفت کرتے رہے اور ان کی ریپبلکن پارٹی کے متمول گھرانے اور کمپنیاں دل کھول کر دونوں مخالف امیدوارں کو چندہ دے رہی تھیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قومی سطح کے اہم ترین رہنما بھی کچھ مایوس دکھائی دیتے تھے۔ چند دن پہلے ہی سابق صدارتی امیدوار اور سینیٹر برنی سینڈرز نے یہاں تک کہہ دیا کہ ڈیموکریٹک پارٹی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ تو پھر یہ سب کچھ کیسے ہو گیا؟ اس سے پہلے بھی ایک مضمون آپ کی نذ رکر چکا ہوں‘ تاریخ تو بن گئی۔ اب نتائج آنے کے بعد اس بارے میں شک کی کیا گنجائش رہ گئی ہے۔ 34 سالہ مسلم نوجوان اور تارکِ وطن کا دنیا کے اس بڑے اور اہم ترین شہر کا میئر منتخب ہو جانا نئی سیاسی تاریخ لکھنے کے مترادف ہے۔ سب مبصرین کہہ رہے ہیں کہ ایسے انتخابات صدیوں میں ہوتے ہیں اور اس کو صدیوں تک ہی یاد رکھا جائے گا۔
زہران ممدانی کے بارے میں مخالفین یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ان کا تجربہ نہیں‘ نووارد ہیں‘ وہ صرف نیو یارک ریاستی اسمبلی کے رکن رہے ہیں اور اُن امیدواروں کی صف میں نہیں آتے جو ماضی میں اس شہر سے منتخب ہوتے آئے ہیں۔ کئی اور بھی اعتراضات تھے جو شہر کے رائے دہندگان نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے۔ صدر ٹرمپ اور امیدوارانِ پارٹی اور دائیں بازو کی سیاست کے ساتھ جڑے میڈیا کی اکثریت نے ان کو سوشلسٹ‘ کمیونسٹ اور نہ جانے کیسے کیسے لقب دیے تاکہ عام لوگوں میں اشتراکیت کا ہوا کھڑا کرکے انہیں متنفر کیا جائے۔ لیکن زہران نے خود ہی ثابت قدمی سے اپنی نظریاتی شناخت جمہوری اشتراکیت اختیار کیے رکھی۔ جس طرح کی معیشت امریکہ کا غالب اقتصادی اور سیاسی طبقہ اس وقت اپنے ملک اور دنیا میں چلانا چاہ رہا ہے‘ ا س سے بے روزگاری‘ مہنگائی اور عدم مساوات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ زہران نے اپنی نامزدگی کے اولین مراحل ہی میں لوگوں سے قریبی میل جول رکھا تو انہیں معلوم ہو گیا کہ عام آدمی کا مسئلہ بے روزگاری‘ مہنگائی اور افراطِ زر ہے۔ لوگ امریکہ میں نظریات اور شخصیات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ان کیلئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو مسائل اس وقت ہمیں درپیش ہیں‘ ان کا عملی اور حقیقی حل کون سا امیدوار پیش کر رہا ہے‘ اور اس پر کس قدر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ امریکی معاشرے کی سیاست اس نوعیت کی نہیں کہ کوئی میدان میں کھڑا ہو کر سبز باغ دکھانا شروع کر دے اور امریکی عوام ہمارے لوگوں کی طرح ٹرک کی بتیوں کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیں۔ باشعور شہری ہیں اور ہر ایک منشور کو حقیقت پسندی کے زاویے پر پرکھتے ہیں۔
پہلے بات کر چکا ہوں کہ لوگ آسودہ حال زندگی گزارنا چاہتے ہیں‘ ہمیشہ معیشت کا اتار چڑھاؤ‘ جو وفاقی حکومتوں کی حکمت عملی کے علاوہ دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں‘ جنگوں‘ آفات اور آج کے زمانے میں کئی نوع کی کشیدگیوں کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے۔ لوگ ذمہ داروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں‘ ناکام ہو جائیں تو ان کا دوبارہ اقتدار میں آنے کا راستہ روکتے ہیں۔ زہران ممدانی کے مخالف امیدوار‘ جن کا تعلق پوری زندگی ڈیموکریٹک پارٹی سے ہی رہا ہے‘ جب نامزدگی کے انتخابات زہران سے ہار گئے تو بجائے اس کے کہ زہران‘ جو اُن کی اپنی پارٹی کے تھے‘ کی حمایت کرتے‘ وہ سیاسی روایت کے برعکس ان کے مقابلے پر بطور آزاد امیدوار میدان میں آ گئے۔ وہ تین بار نیویارک ریاست کے گورنر رہ چکے ہیں۔ آخری بار جنسی ہراسگی کے کیس نے انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا۔ آزمائے ہوئے تھے‘ اور لوگ انہیں ایک اور موقع دینے کیلئے تیار نہ تھے۔ اگرچہ ریپبلکن پارٹی کے حامیوں نے بھی انہیں ووٹ ڈالے تاکہ ممدانی منتخب نہ ہو سکیں‘ مگر وہ پھر بھی کامیاب نہ ہو سکے۔
زہران ممدانی کا ایجنڈا زندگی کی ضروری لوازمات جن میں ٹرانسپورٹ‘ مکانوں کا کرایہ‘ تعلیم اور روزگار کے علاوہ دیہاڑی داروں کو مناسب معاوضہ دلوانا ہے۔ یہ شہر ہو یا دیگر‘ بڑی بڑی کمپنیاں اور مالدار لوگوں نے رہائشی عمارات میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ شہر کے طاقتور سیاسی حلقوں کی حمایت سے کرایے بڑھاتے رہتے ہیں۔ ایسے عناصر کے خلاف لوگوں کے جذبات سب جانتے ہیں مگر جس انداز میں اس کی ترجمانی ممدانی نے کی ہے‘ اور جس زور و شور سے نچلے طبقات کے مسائل کو اجاگر کیا ہے‘ اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ یہی تو مغربی ممالک میں کامیاب سیاست ہوتی ہے کہ امیدوار جس عہدے کیلئے بھی ہو‘ اسے عوام کے مسائل کا ادراک ہو اور وہ ایک مخلصانہ اور قابلِ عمل حل پیش کرے اور لوگوں کو اس کی شخصیت پر اعتماد بھی ہو۔ ممدانی کی سیاسی کامیابی کا راز ان کے منشور کے ساتھ زمینی سطح پر لوگوں سے رابطہ اور ان کی باتوں کو غور سے سننے اور سب سے بات کرنے میں ہے۔
ممدانی کی کامیابی میں جہاں ذاتی اور شخصی نوعیت کے عوامل کارفرما ہیں‘ وہاں امریکی جمہوری سیاست کا کھلا دامن اورکھلا دل اور کھلا ذہن بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔ آپ کو کیسا لگا کہ اپنی فاتحانہ تقریر میں جب کہا کہ میں 34 سال کا مسلمان ہوں۔ کاش ہمارے ہاں بھی کسی مذہبی اقلیت کا کوئی شخص کبھی ایسے عہدے پر پہنچ سکے۔ یہاں مغرب اور مغربیت کے بارے میں اکثر وہ لوگ بات کرتے ہیں جنہیں وہاں کے معاشروں‘ تاریخ اور سیاست کی کوئی آگاہی نہیں۔ سب گھسی پٹی باتیں دہراتے رہتے ہیں اور اکثر بحث اور تبصرہ مذہبی تناظر میں ہوتا ہے۔ جہاں ایسا ہو‘ ہم کوئی بات نہیں کرتے۔ اتنی گزارش ہے کہ امریکہ اور یورپ کے لوگ بھی مذہبی ہیں‘ وہاں بھی آپ کو شاید ادھر ادھر کوئی انتہا پسندآدمی مل جائے‘ لیکن اکثریت‘ اور بڑی واضح اکثریت اپنے کام سے کام رکھتی ہے۔ وہاں مذہبی امتیاز اجاگر نہیں کیا جاتا۔ زہران کی جیت میں مسیحی‘ یہودی‘ ہندو‘ سکھ اور مسلمان‘ سب مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ مقصد ان کے سامنے اس شہر کے مفاد کی سیاست ہے جو کسی بھی بڑے شہر یا ملک کے لوگوں کو جوڑتی ہے۔ وہ خواتین و حضرات جو ہمارے موروثی سیاسی خاندانوں کی گماشتہ گیری میں جمہوریت کو مردہ نظریہ قرار دیتے ہیں ‘ انہیں خبر ہو کہ جمہوریت نہ کبھی مری ہے اور نہ مر سکتی ہے۔ اس کا جذبہ اور سمت ہمیشہ ہر نئی آنے والی نسل متعین کرتی ہے۔ ممدانی نے کہا تھا کہ یہ الیکشن ٹرمپ کے خلاف ریفرنڈم ہو گا‘ اور دیکھیں کس طرح دو ڈیمو کریٹک پارٹی کی خواتین‘ نیو جرسی اور ورجینیا کی گورنر منتخب ہو گئیں‘ اور پھر کیلیفورنیا‘ جسے میں اپنی ریاست کہتا ہوں‘ نے کیا کر دکھایا ہے۔ ہم بھی آج اور کل کی بنتی تاریخ سے کچھ سبق سیکھ سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved