تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     07-11-2025

Welldone blue, yellow wins… (2)

شاید بہت سے لوگوں کیلئے خبر ہو۔ مصنوعی ذہانت کو امریکہ بہادرنے فائر پاور ٹیکنالوجی کے ساتھ ''Gel‘‘ کر کے اسے اسرائیل کے حوالے کیا۔ اس پہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بیان دیا‘ وہ ثابت کرتا ہے کہ مغرب کے ناجائز بچے اسرائیل کا وزیراعظم امریکی ''ڈیپ سٹیٹ‘‘ میں امریکی صدر سے بھی زیادہ گہری جڑیں رکھتا ہے۔ اسی لیے صدر ٹرمپ نے اسرائیل میں کھڑے ہو کر تاریخ کا سب سے بڑا اعتراف کیا۔ صدرِ امریکہ بولے: جس طرح کے ہتھیار نیتن یاہو غزہ کے لیے مجھ سے مانگ رہا تھا‘ ان کے بارے میں مجھے بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ ہتھیار بھی ہمارے پاس ہیں۔ جن ہتھیاروں کی بات ہو رہی ہے وہ انتہائی تباہ کن ہتھیار‘ صرف فضا سے زمین پر مار کرنے والے نہیں بلکہ ان ہتھیاروں کو فلسطینیوں کے زیر انتظام مغربی کنارے کے علاقے میں بھی نگرانی کرنے والی ہر گاڑی‘ ہر چوکی اور تمام چیک پوسٹوں سمیت داخلی اور خارجی راستوں پر نصب کیا گیا۔ اس اے آئی اسلحے کے ڈیزائن میں ایم این پی سسٹم پہلی بار متعارف ہوا جس کا سادہ مطلب ایسا انسان ہے جس کی شدت سے تلاش کی جارہی ہو‘ یعنی مین ہنٹ کیا جائے۔ اس اے آئی بردار ویپن سسٹم میں فلسطینیوں کی تصویریں اور ان کے بارے میں معلومات فیڈ کی گئی ہیں۔ اے آئی ڈیٹا میں شامل تمام اشخاص سے متعلق ایک خاص فاصلے پر مصنوعی ذہانت کے ذریعے ایم این پی کوڈ کا سگنل ہتھیار کو بھیجا جاتا ہے‘ جس کے بعد یہ ہتھیار خود بخود متحرک ہوکر مطلوبہ شخص یا گاڑی جس میں مطلوبہ شخص سوار ہو‘ اس کا نشانہ لے کر خودکار فائر سسٹم کے ذریعے گولیاں اور گولے برسانا شروع کر دیتا ہے۔ اے آئی میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کے تسکینِ شوق کیلئے معروف ترین اے آئی برانڈز کے نام شیئر کر دیتا ہوں جو اس وقت ساری دنیا میں ترقی کے تمام شعبوں میں استعمال ہو رہے ہیں:
ChatGPT, Gemini, Claude, Copy.ai, GPT4All, NotebookLM, Perplexity AI, Agenta, Character.ai, Chatsonic, Clipdrop, Copilot, Craiyon, DeepSeek R1, Elicit, Grok, Hyper- Write, Llama, MindsDB, Ai character for gpt, Loop AI, Consensus, Google AI Mode, Jasper.
درد بھری حقیقت یہ بھی ہے کہ مصنوعی ذہانت کے جتنے بھی گلوبل پلیٹ فارم ہیں وہ سب کے سب مغرب‘ چین اور روس کی ملکیت ہیں۔ بڑے بڑے کلب‘ محلات‘ وِلاز‘ یاٹ‘ سونے کے باتھ روم والے ڈریم جیٹ رکھنے والے مسلم امیر زادوں اور شاہ زادوں میں سے کسی کی ملکیت میں نہیں۔ سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے ہونے کے بعد آنے والے مسلم منیجرز کی بھاری اکثر یت ایک ہی خواہش لے کر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوتی رہی‘ ماسوائے ایک آدھ فیصد کے۔ یہ خواہش بڑی معصوم ہے۔ پاکستان بھی اس حوالے سے خاصا خود کفیل چلا آیا ہے۔ بس اتنی سی خواہش کہ میں تاحیات کرسی پہ رہوں۔ حیاتِ مستعار سے جانبِ فانی دار سفر بھی سرکاری خرچ پر ہو‘ یعنی سٹیٹ فیونرل۔ اس کی دو مثالیں عدلیہ میں سے سیاسی عہدوں پہ آنے والے سابق ججز کی ہیں۔ ایک سپریم کورٹ کا وہ مرحوم چیف جسٹس جس نے ہاؤس آف شریف کے حق میں فیصلوں کے انبار لگائے۔ پھر اس عادلانہ منصفی کے بدلے اسے گورنر شپ دی گئی۔ وہ بھی ایسے مرحلے پر کہ ہسپتال کے وینٹی لیٹر روم سے اٹھا کر گورنری کی شیروانی کی صورت میں ''محنتانہ‘‘ ادا کیا گیا۔ ایک بار پھر اسی خاندان کے دور میں سپریم کورٹ کے ایک لاہوری جج صاحب کو وینٹی لیٹر روم میں جا کر سیاسی انعامی سکیم میں سے عہدہ عطا ہوا۔ اللہ تعالیٰ دونوں کی مغفرت فرمائے‘ دونوں اقتدار کا بوجھ برداشت نہ کر سکے اور اپنی کرسیوں کو بہت جلد داغِ مفارقت دے گئے۔
بات ہو رہی تھی Blue اور Yellow ٹیموں کی۔ صدر ٹرمپ نے مسلم ممالک کی جو بلیو ٹیم تیار کی تھی‘ اس میں مڈل ایسٹ‘ فار ایسٹ اور برصغیر کے مسلم حکمران غزہ کے نام پر ویلڈن کی زبانی کلامی داد وصول کرتے رہے۔ لیکن آج تک ییلو ٹیم کی حیثیت سے اسرائیل امریکی ہتھیاروں سے غزہ پر آگ برسا رہا ہے۔ وہ معاہدہ جس پہ مسلم حکمرانوں نے ٹرمپ کو صدی کا سب سے بڑا انقلابی قرار دیا‘ ساتھ امن کے سب سے بڑے نوبیل انعام کا مستحق بھی‘ اس کے امن منصوبے کا حال دیکھیں۔ امریکی ہتھیاروں کا استعمال امن معاہدے کے بعد بھی جاری ہے۔ اسرائیل نے 400 سے زائد غزہ کے محصور فلسطینیوں کو یکطرفہ بمباری سے قتل کردیا۔
اب آئیے ذرا صدر ٹرمپ کے پاک بھارت ایڈونچر کی طرف‘ جہاں پاکستان کے منیجروں کو ویلڈن دے دے کر نہال کر دیا‘ وہیں دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ‘ مودی انتظامیہ کے ساتھ تاریخ کا سب سے لمبا ڈیفنس پیکٹ کرنے میں مصروف رہی۔ ہماری وزارتِ خارجہ کو خبر تب ملی جب امریکہ کے وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ اور بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے مابین معاہدے کی تصویر اور خبر منظرِ عام پر آئی۔ اب خود اندازہ لگائیے! کہ ہم نے چین اور روس جیسے قریبی‘ بہتر آپشن چھوڑ کر تاجِ ٹرمپ میں چاند ستارے سجا دیے۔ جس کے جواب میں کوئی عام معاہدہ نہیں بلکہ دس سالہ دفاعی فریم ورک معاہدہ امریکہ نے Yellow ٹیم کے نام کر دیا۔ ایسے میں ہماری قومی ترجیحات کا ایک زاویہ دیکھ لینا کافی رہے گا۔
عوامی فیصلوں کے خلاف انتظامی محاذآرائی: تاریخ کے سبق کو ایک طرف رکھ دیں‘ لیکن اپنے آج سے سبق نہ سیکھنا جہلِ مسلسل کے علاوہ اور کچھ نہیں کہلائے گا۔ پشاور سے نیویارک کا فاصلہ 10ہزار 300کلو میٹر ہے۔ جہاں ایک مہینے کے اندر اندر پاکستان کی 70 فیصد آبادی‘ جو جنریشن زی پر مشتمل ہے‘ انہوں نے دونوں کو ایک پیج پر لا کھڑ ا کیا۔ پشاور میں عام گھرانے کا کونسلر‘ عمر 36سال سارے طاقتوروں کو شکست دے کر قیدی نمبر 804کی نامزدگی کے بل بوتے پر ملک کے تیسرے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ بن گیا۔ سارے سمندروں کے اُس پار‘ دنیا کی دوسری جانب نیو یارک میں 34سال کا نوجوان جو ماشاء اللہ مسلمان بھی ہے‘ امریکہ ہجرت کرکے جانے والے ایک غیر گورے خاندان کا بیٹا‘ جس نے امریکی اشرافیہ کے سربراہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایت یافتہ امیدوار کو نیو یارک کی میئر شپ کے الیکشن میں چاروں شانے چت ہرا دیا۔ زہران ممدانی کی میئر شپ کا الیکشن جیتنے کے بعد تقریر کا کلپ نہ سننا سیاسی شعور رکھنے والوں کیلئے خود اپنے ساتھ زیادتی ہے۔ ان دونوں ینگ لیڈرز کے خواب‘ ان کے ووٹروں کی ضروریات اور مستقبل کی امید تینوں سانجھے ہیں۔ سبق یہ ہے کہ آج کا نوجوان اغوا کرنے‘ گمراہ کرنے‘ قید کرنے سے یا معذور و مجبور کر دینے سے اپنی سوچ سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ آج درباری سرکار کی ترجیح یہ ہے کہ ملک پہ بابوں کا راج ہو‘ غلام محمد کی طرح معذور ہوں تو اور اچھا۔ بابوں کی غلامی کرنے کا تقاضا‘ وہ بھی اقبال کے شاہینوں سے کیا جا رہا ہے جن کیلئے نہ عشق کے امتحاں پاس کرنا ناممکن‘ نہ ہی ستاروں سے آگے کسی اور جہاں کا خواب ان سے چھینا جا سکتا ہے۔ نوجوان آج کے پاکستان کی سب سے بڑی حقیقت ہیں۔ نوجوانوں کا ناقابلِ تردید انتخاب قیدی نمبر 804ہے۔ بات سادہ ہے جتنا زور لگاؤ گے قیدی اتنے ہی اونچے قد سے انکار کی للکار کی تکرار بلند کرتا رہے گا۔
پھر بڑھی دنیا کو سر کرنے حیاتِ نوجواں
بادہ بار و مشک ریز و مہر بیز و مہ چکاں
پرفشاں‘ جنباں‘ جہاں لرزاں‘ رواں‘ غلطاں‘ دواں
نغمہ خواں‘ شاداں‘ خراماں‘ وقت راں‘ جولاں‘ تپاں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved