تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     07-11-2025

ڈینگی پھر حملہ آور

پاکستان کے شہریوں کو رواں برس بھی بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔ سیلاب نے نہ صرف ان کے گھروں اور کھیتوں کو اجاڑا بلکہ صحت کے نظام پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ فطری طور پر یہ خدشہ تھا کہ سیلاب کے بعد متاثرہ علاقوں میں مختلف وبائی امراض سر اٹھائیں گے کیونکہ سیلابی پانی میں ایسے جراثیم اور مچھر پیدا ہو جاتے ہیں جو مہلک بیماریوں کا سبب بنتے ہیں؛ چنانچہ سیلاب کے بعد دو بڑی وبائیں تیزی سے پھیلیں‘ ایک آشوبِ چشم اور دوسری ڈینگی۔ یہ دونوں امراض صرف اُن علاقوں تک محدود نہیں رہے جہاں سیلاب آیا تھا بلکہ اُن علاقوں تک بھی پھیل گئے جو بظاہر محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی جیسے صاف ستھرے شہروں میں بھی ان بیماریوں نے پنجے گاڑ لیے۔ پہلے آشوبِ چشم نے شہریوں کو شدید اذیت میں مبتلا کیا اور اب ڈینگی عوام پر قہر بن کر ٹوٹ رہا ہے۔ آشوبِ چشم ایک نہایت تکلیف دہ مرض ہے۔ ماضی میں مجھے سیلاب کی کوریج کے بعد یہ مرض لاحق ہوا تھا۔ بخار‘ جسم درد اور آنکھوں سے گندا مواد نکلنے کی کیفیت ایسی تھی کہ نہ کچھ دیکھنے کی سکت رہتی تھی‘ نہ کچھ کرنے کی۔ بخار انسان کو مکمل نقاہت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ وبا تو شہر سے چند دنوں میں ختم ہو گئی مگر ڈینگی کے کیسز میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ جو بھی اس مرض میں مبتلا ہوتا ہے‘ وہ بتاتا ہے کہ یہ بیماری کتنی اذیت ناک اور تھکا دینے والی ہے۔
انتظامیہ اپنی جگہ کوشش کرتی ہے کہ جن علاقوں سے ڈینگی کا لاروا ملے یا کیسز رپورٹ ہوں‘ وہاں فوری مچھر مار سپرے کیا جائے مگر یہ کوششیں اکثر دیر سے ہوتی ہیں۔ ڈینگی ایسا وائرس ہے جو ایک انسان سے دوسرے انسان کو نہیں لگتا بلکہ صرف ایک مخصوص مچھر کے کاٹنے سے منتقل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق ان دنوں راولپنڈی اور اسلام آباد کے ہسپتالوں میں روزانہ ڈینگی سے متاثرہ بیسیوں مریض داخل ہو رہے ہیں۔ وزارتِ صحت کی حالیہ رپورٹ کے مطابق صرف ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں ڈینگی کے 12 ہزار سے زائد کیس ملک بھر میں رپورٹ ہوئے‘ جن میں سب سے زیادہ اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ لاہور اور کراچی سے رپورٹ ہوئے۔ یہ مرض اچانک تیز بخار‘ سر اور جوڑوں کے شدید درد‘ متلی‘ خارش‘ آنکھوں کے پیچھے درد اور بعض اوقات مسوڑھوں سے خون آنے کی علامات کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔ اگر اس کے علاج میں تاخیر ہو جائے تو یہ ہیمرجک (Hemorrhagic)یا شاک سینڈروم میں تبدیل ہو جاتا ہے‘ جو جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک جواں سال صحافی عروج‘ اس مہلک بیماری کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار گئی۔ ایک مچھر کسی انسان کی زندگی‘ اس کے خواب‘ اس کی امنگیں سب چھین سکتا ہے‘ یہ سوچ کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ عروج ایک ہونہار‘ باصلاحیت اور خوابوں سے بھری نوجوان خاتون تھی جو ڈیجیٹل میڈیا میں اپنی جگہ بنا رہی تھی‘ لیکن ڈینگی نے اس کے تمام خواب نگل لیے۔ ان کے اہلِ خانہ اور ساتھیوں کیلئے یہ ناقابلِ بیان صدمہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔
یہ افسوسناک خبر اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ڈینگی اب ایک عارضی وبا نہیں بلکہ ایک مسلسل خطرہ بن چکا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 40 کروڑ افراد ڈینگی وائرس سے متاثر ہوتے ہیں جن میں سے تقریباً دو کروڑ مریض شدید نوعیت کے بخار میں مبتلا ہوتے ہیں‘ اور لاکھوں اموات ریکارڈ کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں 2011ء‘ 2019ء اور 2022ء میں ڈینگی کا بڑے پیمانے پر پھیلاؤ دیکھا گیا۔ وزارتِ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق صرف 2022ء میں 60 ہزار سے زائد ڈینگی کیسز رپورٹ ہوئے۔ اس سال بھی صورتحال مختلف نہیں۔ ہسپتالوں میں ڈینگی وارڈز دوبارہ بھرنے لگے ہیں۔ ڈینگی پھیلانے والا مچھر‘ ایڈیز ایجپٹی (Aedes Aegypti) عام مچھروں سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ دن کے وقت کاٹتا ہے اور صاف پانی میں انڈے دیتا ہے۔ یہی مچھر زیکا وائرس‘ چکن گونیا اور زرد بخار کے پھیلاؤ کا بھی سبب بنتا ہے۔ زیکا وائرس حاملہ خواتین کیلئے خاص طور پر خطرناک ہے کیونکہ یہ بچے کے دماغی نشوونما کو متاثر کرتا ہے‘ جس کے نتیجے میں بچہ چھوٹے سر اور ذہنی معذوری کے ساتھ دنیا میں آتا ہے۔ ملیریا‘ زیکا وائرس‘ چکن گونیا اور ڈینگی‘ چاروں مچھروں سے پھیلنے والی بیماریاں ہیں جو ہر سال لاکھوں انسانوں کی جان لے لیتی ہیں۔ تاہم ڈینگی اس لیے زیادہ خطرناک ہے کہ اس کا وائرس چار مختلف اقسام میں پایا جاتا ہے‘ اور اگر کوئی شخص ایک بار ڈینگی سے متاثر ہو کر صحت یاب بھی ہو جائے تو دوسری قسم کا وائرس اسے دوبارہ بیمار کر سکتا ہے‘ وہ بھی پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ۔
اب سوال یہ ہے کہ اسلام آباد جیسے صاف ستھرے شہر میں مچھروں کی افزائش کیونکر ہو رہی ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ ڈینگی کا مچھر صاف پانی میں ہی نشوونما پاتا ہے۔ شہر کی ہریالی‘ پانی کی گزرگاہیں‘ کھلے نالے اور گھروں میں پانی جمع ہونے کی جگہیں اس کیلئے جنت ثابت ہوتی ہیں۔ بروقت صفائی اور لاروا کی تلفی نہ ہونے کے باعث یہ چھوٹا سا دشمن روز نئے شکار تلاش کرتا ہے۔ کل ہی ہماری گلی میں سی ڈی اے کے اہلکار ڈینگی سے بچاؤ کا سپرے کر رہے تھے۔ یہ خوش آئند بات ہے مگر سپرے سے پہلے اصل ضرورت مچھروں کی افزائش کے ذرائع کو ختم کرنے کی ہے۔ پانی میں موجود لاروا اگر مچھر بننے سے پہلے ہی تلف کر دیا جائے تو وبا کی صورت اختیار نہیں کرتا۔ سپرے مؤثر ضرور ہے‘ لیکن دیرپا حل نہیں۔ ہمیں پیش بندی کی طرف جانا ہوگا۔ عوام بھی اس مہم میں اپنا کردار ادا کریں۔ گھروں کے اندر اور باہر پانی جمع نہ ہونے دیں‘ گملوں میں جمی ہوئی مٹی کو خشک رکھیں‘ اور اے سی کے پانی کی نکاسی درست کریں۔ سپرے کرتے وقت احتیاط کریں‘ منہ ڈھانپیں اور بعد میں ہاتھ دھوئیں۔ جالی کا استعمال کریں‘ کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں‘ پرانے ٹائر گھر میں نہ رکھیں‘ اور صفائی کو معمول بنائیں۔ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے چند لمحے شیشے کھولنا بھی فائدہ مند ہے تاکہ چھپے ہوئے مچھر باہر نکل جائیں۔ پوری آستین والے کپڑے پہنیں‘ ریپیلنٹ استعمال کریں اور بچوں کو خاص طور پر محفوظ رکھیں۔
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ڈینگی کے مریض کو کبھی بھی خود سے علاج نہیں کرنا چاہیے۔ جسم درد یا بخار کی عام دوائیوں کا استعمال خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ بخار‘ متلی‘ جسم پر سرخ دھبے یا جوڑوں کے درد کی صورت میں فوراً ہسپتال جائیں اور NS1 یا PCR ٹیسٹ کرائیں۔ اس مرض کے علاج میں تاخیر جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ ڈینگی کے مریض کو صحت یاب ہونے کے بعد مکمل آرام‘ زیادہ پانی‘ تازہ پھلوں کا جوس اور او آر ایس دیا جانا چاہیے۔ پلیٹ لیٹس کم ہو جائیں تو صرف ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق علاج کیا جائے۔
عالمی ادارۂ صحت نے حال ہی میں چھ سے 16 سال کے بچوں کیلئے ڈینگی سے بچاؤ کی ایک نئی ویکسین کی منظوری دی ہے جسے Qdenga (کیو ڈینگا) کہا جاتا ہے۔ اس کی پاکستان میں بھی جلد دستیابی یقینی بنانی چاہیے تاکہ نئی نسل کو اس موذی مرض سے بچایا جا سکے۔ اس وقت اسلام آباد‘ راولپنڈی اور ملک کے دیگر حصوں میں جس تیزی سے ڈینگی کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں‘ یہ واضح اشارہ ہے کہ ہماری شہری حکومتوں اور صحت کے اداروں کو اپنی حکمتِ عملی پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ صرف سپرے یا چھاپوں سے بات نہیں بنے گی؛ مستقل نگرانی‘ عوامی آگاہی‘ سکولوں میں خصوصی مہمات اور گھروں کی سطح پر ہر روز صفائی کی عادت کو فروغ دینا ہو گا۔
آخر میں ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ڈینگی سے بچاؤ ممکن ہے مگر اس کیلئے اجتماعی شعور اور انفرادی ذمہ داری دونوں ضروری ہیں۔ اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو یہ ننھا سا مچھر ہر سال سینکڑوں‘ ہزاروں خواب‘ امیدیں اور زندگیاں نگلتا رہے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved