تحریر : ذوالفقار علی مہتو تاریخ اشاعت     08-11-2025

حقیقی منزل نیا بلدیاتی ایکٹ یا ڈویژنل صوبے ؟

پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025ء صوبائی اسمبلی سے 13 اکتوبر کو منظوری کے بعد گورنر سلیم حیدر کے دستخط سے 20 اکتوبر کو نیا قانون بن گیا تھا‘ جس کے بعد یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اب الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکم کے مطابق پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہو جائیں گے۔ اس ایکٹ کے پہلے صفحے پر پنجاب اسمبلی سے منظوری کا جو بڑا مقصد درج کیا گیا‘ وہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 140 اے کو اس کی روح کے عین مطابق نافذ کرنا اور پھر پاکستان کے حکومتی ڈھانچے کے تیسرے درجے یعنی مقامی حکومتیں قائم کرکے گلی‘ محلے کی سطح پر گڈگورننس اور سرکاری فیصلوں میں عوامی شراکت داری کا ''کرشمہ‘‘ دکھانا ہے۔ نئے منظور کردہ ایکٹ میں لکھا ہے کہ اب اس قانون کے تحت صوبائی حکومت نو منتخب بلدیاتی اداروں کو سیاسی‘ انتظامی اور مالی ذمہ داری کے ساتھ پورا اختیار بھی منتقل کردے گی اور ڈی ویلیو ایشن (اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی) کا جو مشن پرویز مشرف نے اپنے دورِ آمریت میں شروع کیا تھا وہ موجودہ جمہوری حکومت کے دور میں مکمل ہو جائے گا۔ پنجاب حکومت کے اس نئے ایکٹ کی منظوری کے بعد مجھ جیسے شہری یہ خیال کر رہے تھے کہ ڈپٹی کمشنروں کی قیادت میں چل رہے یہ ادارے ایک بار پھر منتخب نمائندوں کے سربراہی میں چلنے لگیں گے تو بانیٔ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ کی پنجاب مسلم لیگ کا 1946ء کا وہ منشور نافذ ہو جائے گا جو قیام پاکستان کی بنیاد بنا۔ اس منشور کے 10ویں باب میں اُس وقت لکھا گیا تھا کہ لوکل حکومتوں میں میونسپلیٹیز کے منتخب نمائندے ہوں گے اور ڈسٹرکٹ بورڈز کے نان آفیشل چیئرمین یعنی آفیشل ڈپٹی کمشنروں یا دیگر سرکاری افسروں کے بجائے منتخب نمائندے ہوں گے۔ پنجاب اسمبلی سے منظور کردہ نئے ایکٹ میں سرکاری ڈھانچے کی تیسری سطح کو سیاسی اور مالی خود مختاری دینے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
یہ تو ہیں وہ باتیں جو لکھی پڑھی ہیں لیکن ایکٹ کی منظوری کے صرف آٹھ روز بعد پنجاب اسمبلی میں اس نئے بلدیاتی قانون پر ایک طرح سے عدم اعتماد جیسی قرار داد پیش کر دی گئی۔ یہ مشترکہ قرار داد وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے صاحبزادے احمد اقبال چودھری اور چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے اور پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر علی حیدر گیلانی نے پیش کی۔ احمد اقبال چودھری نے فلور آف دی ہاؤس پر قرار داد پڑھتے ہوئے بتایا کہ اس کو پی ٹی آئی‘ مسلم لیگ (ق) اور استحکام پاکستان پارٹی کی بھی حمایت حاصل ہے۔ اسی ایوان سے ایک ہفتہ قبل منظور ہونے والے ایکٹ‘ جس میں آئین کے آرٹیکل 140 اے پر عملدرآمد کی راہ ہموار بتائی جارہی تھی‘ اب ایسا کیا ہو گیا کہ پارلیمنٹ کے وفاقی ایوانوں کو قرار داد کے ذریعے اس آرٹیکل میں ترمیم کی درخواست بھیج دی گئی۔
پنجاب اسمبلی کی متفقہ قرارداد کا لب لباب یہ تھا کہ آرٹیکل 140اے مقامی حکومتوں کے بارے میں مبہم اور نامکمل ہے جس کے باعث ملک میں مقامی حکومتوں کا وجود صوبائی سرکار کے ہاتھوں ہر وقت خطرے میں رہتا ہے اور یہ کہ اس ایکٹ کے تحت ان کو صوبائی خزانے سے ملنے والے حصے کا نظام بھی مالی خودمختاری کی روح کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ احمد اقبال چودھری نے قرارداد کے دوران ایوان میں ایک پہاڑ سا گرا دیا کہ آئین کے آرٹیکل سات کے تحت ریاست کی جو تعریف کی گئی ہے‘ وہ آرٹیکل 140 اے کی موجودہ شکل کے باعث داؤ پر لگی ہوئی ہے کیونکہ ریاست کی آئینی تعریف میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں‘ سینیٹ‘ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ وہ منتخب لوکل حکومتیں اور اتھارٹیاں بھی شامل ہیں جو ٹیکس یا سیس (Cess) نافذ کرنے کا اختیار رکھتی ہوں‘ (گویا یونین کونسلیں جو پیدائش‘ اموات اور طلاق کے سرٹیفیکیٹس کے اجرا یا مقامی خدمت پر فیس یا ٹیکس نافذ کرنے کے اختیار کے باعث) ریاست کا حصہ ہیں۔ احمد اقبال نے کہا کہ ملکی تاریخ کے 78 برسوں میں 50 برس بلدیاتی اداروں کے بغیر گزر گئے اور 1973ء کے آئین میں 2010ء میں 18ویں ترمیم‘ جس میں آرٹیکل 140 اے شامل کیا گیا تھا‘ کے بعد بھی 16 سال میں صرف دو سال پنجاب میں مقامی حکومتیں رہی ہیں جبکہ سندھ میں آٹھ سال‘ خیبر پختونخوا میں چار سال‘ بلوچستان میں پانچ سال اور اسلام آباد میں تین سال مقامی حکومتوں کا وجود رہا ہے۔ اس قرارداد میں مجلس شوریٰ سے درخواست کی گئی کہ آئین میں لوکل حکومتوں کا نیا باب شامل کیا جائے جس میں مقامی حکومتوں کی مدت کو آئینی تحفظ کے علاوہ انکی مدتِ تکمیل کے بعد 90 روز میں نئے انتخابات اور نیشنل فنانس کمیشن کی طرح صوبائی فنانس کمیشن کے تقسیمی فارمولے کو بھی آئین کا تحفظ حاصل ہو اور یہ کہ اگر کوئی صوبائی حکومت اپنے لوکل گورنمنٹ قانون میں تبدیلی یا ترمیم کرنا چاہے تو اس کیلئے دو تہائی اکثریت لازمی ہو۔ سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کی آئین و قانون کے معاملات پر گرفت بہت مضبوط ہے۔ وہ اُس وقت ایوان میں موجود نہیں تھے جب زیر بحث قرارداد منظور کی گئی لیکن (نیوز رپورٹنگ کی اصطلاح میں) تگڑے فالو اَپ کے طور پر 31 اکتوبر کو ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے اس کو پنجاب اسمبلی کی پارلیمانی تاریخ کی اہم ترین قراردادوں میں شامل قرار دیا اور کہا کہ پنجاب اسمبلی کا ایکٹ لوکل گورنمنٹس کے وجود کو تحفظ نہیں دے سکتا‘ یہ کام صرف آئین کے نامکمل آرٹیکل 140 اے میں نیا باب شامل کرنے سے ہی ہوگا۔
اس پس منظر میں دیکھیں تو یہ مطالبات بڑی حد تک جائز ہیں کیونکہ بھارت میں اب تک ہونے والی 106 آئینی ترامیم میں 1993ء میں ہونے والی 73ویں ترمیم میں پنچایت راج کونسلوں کو پانچ سالہ مدت کا آئینی تحفظ دیا گیا تھا‘ اسکے برعکس پاکستان کی صورتحال تو بیان کر ہی چکے۔ اس مجوزہ ترمیم کا جواز مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور 2024ء میں بھی ملتا ہے جس میں کہا گیا کہ بلدیاتی اداروں کی مدت مکمل ہونے یا کسی بھی شکل میں تحلیل ہونے کے بعد 90 روز کے اندر نئے انتخابات کرانے کیلئے آئینی ترمیم کی جائے گی۔ یہ تمام جواز اپنی جگہ لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ پنجاب اسمبلی نے 13 اکتوبر کے قانون میں کیا خود بھی بلدیاتی اداروں کو سیاسی اور مالی اختیارات دینے میں فراخدلی دکھائی یا کوئی جھول رکھا ہے؟ یہی دیکھ لیں کہ صوبائی فنانس کمیشن کے 11 منتخب ارکان میں سے مقامی حکومتوں کے صرف تین نمائندے ہوں گے اور وہ بھی وزیراعلیٰ پنجاب کے نامزد کردہ‘ تو ایسی صورتحال میں نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کی طرز پر مقامی حکومتوں کے شیئرز کی منصفانہ تقسیم کی گارنٹی کون دے سکتا ہے؟ پنجاب فنانس کمیشن کے اس وقت لاگو عبوری ایوارڈ کو میرٹ کی کسوٹی بنا لیں تو شک کی بہت گنجائش نکل آتی ہے۔ فی الوقت نافذ فارمولے کے نام پر پنجاب حکومت نے بجٹ میں 934 ارب روپے مختص کر رکھے ہیں‘ اور یہ 5169 ارب روپے کے مجموعی صوبائی وسائل کا لگ بھگ صرف 18 فیصد ہیں۔ دوسری طرف اگر صوبوں کو دیکھیں تو وہ وفاقی ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو کا 42.5 فیصد وصول کر رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عبوری صوبائی ایوارڈ کے تحت نیٹ کنسالیڈیٹڈ رقوم سے یہ شیئر 1842 ارب روپے بنتا ہے‘ اس لحاظ سے پنجاب حکومت نے لوکل حکومتوں کو 934 ارب روپے دیے اور 908 ارب دبا لیے۔ اسی لیے جہاں مقامی حکومتوں کی مدت کو آئینی تحفظ دینے کی ضرورت ہے‘ وہیں کیا ہی اچھا ہوتا اگر پنجاب اسمبلی مجموعی صوبائی وسائل تقسیم کے مختلف انڈیکیٹرز کی شرح کیساتھ جامع فارمولے کو بھی قانونی تحفظ دیتی۔ بغور جائزے کے بعد یہ تاثر قائم کرنے میں دیر نہیں لگتی کہ اگر لوکل حکومتوں کے بجائے ڈویژنل صوبے بنا دیے جائیں تو نہ صرف انتظامی لحاظ سے گراس روٹ سطح پر آرٹیکل 140 اے کا حقیقی نفاذ ہو جائے گا بلکہ این ایف سی فارمولے کے تحت قومی وسائل کی تقسیم کا قابلِ رشک اور قابلِ اعتبار نظام بھی یقینی ہو گا۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ پاکستان میں بالآخر ڈویژنل سطح کے صوبے ہی بنانا پڑیں گے کیونکہ عوام قیام پاکستان سے اب تک لگ بھگ ایک درجن بلدیاتی قانون سازیوں کے تجربوں سے ''نکو نک‘‘ آ گئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved