آج کل ہمارے تھل میں‘ لیہ سے مظفرگڑھ تک رونق لگی ہوئی ہے۔ تھل جیپ ریلی کا ایونٹ کچھ برس سے کافی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے اور اب ایک بڑا کلچرل ایونٹ بن گیا ہے ‘جو ہر سال دور دراز علاقوں سے ہزاروں لوگوں کو کھینچ لاتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر مظفرگڑھ سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن ان کے اس واٹس ایپ میسیج پر خوشگوار حیرت ضرور ہوئی کہ ہم جیپ ریلی کا انعقاد کرا رہے ہیں‘ آپ کا تعلق اس علاقے سے ہے‘ آپ تشریف لائیں تو خوشی ہو گی۔ ان کا بہت شکریہ کہ اس اہم اور خوبصورت موقع پر یاد رکھا‘ ورنہ اتنے ہجوم اور مصروفیات میں کون کسی کو یاد رکھتا ہے۔ ہمارے لیہ کے ایک نوجوان رپورٹر نے اس جیپ ریلی کی چند وڈیوز مجھے بھیجی ہیں جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کس بڑے پیمانے پر انتظامات کیے گئے ہیں۔ لیہ کی ڈپٹی کمشنر اور ان کی ٹیم کو بھی داد ملنی چاہیے کہ انہوں نے اس بڑے پیمانے پر جیپ ریلی کے انتظامات کیے اور علاقے کے لوگوں کو اتنی بڑی تفریح ملی ہے۔ ایسے میلے جہاں تفریح لاتے ہیں وہیں معاشی سرگرمیاں کو بھی فروغ ملتا ہے جس سے علاقہ ترقی کرتا ہے۔ جتنی بڑی تعداد میں علاقے کے نوجوانوں کی تعداد جیپ ریلی میں موجود تھی اسے دیکھ کر عجیب سی خوشی کا احساس ہوا کہ چلیں ہماری نئی نسل کو کچھ سانس لینے کا موقع مل رہا ہے۔ صحرائے تھل میں جس طرح راتوں رات ایک میلہ سج گیا‘ وہ اپنی جگہ ایک خوبصورت تجربہ ہے‘ جو اُن علاقوں میں کیا گیا ہے جہاں تفریح کے نام پر اب صرف ٹک ٹاک ہی بچ گیا تھا۔ جیپ ریلی کی وڈیوز اور ان میں خوشی سے جھومتے نوجوانوں کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ کیسے ہمارے اس معاشرے سے خوشی‘ گیت اور نارمل زندگی چھین لی گئی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے تک ہمارے دیہات یا گاؤں کا ماحول بڑا نارمل تھا‘ جہاں بچے‘ بڑے اور خواتین سب ایک بڑے گھر کا حصہ تھے۔ پورا گاؤں ایک ہی گھر ہوا کرتا تھا۔ ہمارے گاؤں کی زراعت کا خواتین پر بڑا دارومدار تھا کہ وہ کھیتوں میں جا کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی تھیں۔ جانوروں کیلئے چارہ کاٹنا ‘ ان کا خیال رکھنا‘ بھینس‘ گائے یا بکری کا دودھ نکالنا بھی ان کی ذمہ داری تھی۔ خواتین کے بغیر کپاس کی چنائی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ ہمارے شہر بھی لبرل‘ پروگریسو اور ماڈرن ماحول کے حامل تھے۔ لیکن پھر جنرل ضیا الحق کا مارشل لاء لگ گیا جو اپنے ساتھ سب کچھ سمیٹ کر لے گیا۔ میری نسل کی بدقسمتی کہ ہم اُسی دور میں اپنے لڑکپن اور جوانی میں قدم رکھ رہے تھے۔ جنرل ضیا کے ان دس برسوں میں مذہبی روایات کے نام پر جو گھٹن پھیلائی گئی اس کے اثرات آج تک ہمارے معاشرے پر موجود ہیں۔ وقت بھی ان اثرات کو ختم نہیں کر سکا۔ ہم نے ہر روایت‘ کلچر یا جگہ کو حلال حرام میں بدل دیا۔ آج بھی جب میں اس جیپ ریلی کی وڈیوز اَپ لوڈ کرتا ہوں تو فیس بک پر بیٹھے کچھ نوجوانوں کو یہ سب کچھ حرام لگتا ہے۔ ان کو فیس بک پر بیٹھ کر ہر قسمی چہرے دیکھنا یا ٹک ٹاک پر ریلیں دیکھنا حرام نہیں لگتا لیکن انہیں اس طرح کی سرگرمیاں یا میلے ٹھیلے حرام لگتے ہیں کیونکہ ان کے ذہن میں یہ باتیں بٹھا دی گئی ہیں کہ ہر وہ چیز جو انسانی فطرت کا حصہ ہے یا جس سے اسے خوشی ملتی ہے‘ وہ سب حرام ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جنرل ضیاالحق کے دور میں وی سی آر پر فلمیں دیکھنا اتنا بڑا جرم سمجھا جاتا تھا جس کا اندازہ آج کی ٹک ٹاک کی نسل نہیں کر سکتی۔ جنرل ضیا کے نزدیک بھارتی فلمیں یا اداکار پاکستان میں فحاشی پھیلانے کا سبب بن رہے تھے لہٰذا ہر پولیس سٹیشن کی ڈیوٹی لگا دی گئی کہ وہ رات کو اپنے علاقے کے گاؤں دیہات میں چھاپے مارے اور اگر کہیں نوجوان اکٹھے ہو کر وی سی آر پر کوئی فلم دیکھ رہے ہوں تو انہیں گرفتار کر کے تھانے ڈال دیا جائے۔ ان کا کرائے پر لایا گیا وی سی آر اور فلمیں بھی قبضے میں لے لی جاتیں اور یوں ہر گاؤں میں ایک خوف اور دہشت کی فضا قائم تھی۔ حالانکہ انہی دنوں بھارتی اداکار شترو گھن سنہا جنرل ضیاالحق کے گھر کے مستقل مہمان ہوتے تھے‘ لیکن ان کی فلمیں دیکھنا حرام بلکہ جرم تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نوجوان دھیرے دھیرے چرس اور ہیروئن کی طرف متوجہ ہوئے۔ انسانی فطرت ہے کہ اسے ہر صورت تفریح درکار ہے۔ جب ریاست نے تفریح کے راستے بند کیے تو نوجوانوں نے منشیات میں پناہ ڈھونڈ لی۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہمارے بچپن میں کئی میلے ٹھیلے ہوتے تھے جن میں بیلوں کی دوڑیں اور کبڈی ٹائپ مقابلے ہوتے تھے‘ پہلوانوں کی کشتیاں ہوتی تھیں‘ ڈھول بجتے تھے۔ شادیوں پر جاگے کرائے جاتے تھے۔ سرائیکی علاقوں میں جاگے کا مطلب گانا بجانا اور رقص ہے۔ پورے علاقے میں منادی ہوتی تھی اور بات ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک پہنچ جاتی تھی کہ فلاں گاؤں میں فلاں زمیندار کے ہاں آج رات موسیقی کا پروگرام ہے۔ ان پروگراموں میں معروف گلوکار بلوائے جاتے تھے۔ ہمارے علاقے پیر جگی سے تعلق رکھنے والے فرید گشکوری کا بڑا نام تھا جو علاقے کی ہر اہم شادی میں چمٹے کے ساتھ سرائیکی گانے گاتے اور ڈھول یا طبلے پر ان کا سواد ہی کچھ اور ہوتا۔ منصور ملنگی بھی بڑا نام تھے جو جھنگ سے لیہ‘ مظفرگڑھ اور میانوالی یا بھکر تک عزت سے بلائے جاتے تھے۔ لالہ عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی یقینا سرائیکی علاقے میں بڑا نام ہیں‘ انہوں نے نہ صرف سرائیکی خطے بلکہ پورے پاکستان میں فوک موسیقی کا نیا رنگ دیا۔ افضل عاجز‘ فاروق روکھڑی جیسے بڑے سرائیکی شاعروں کی شاعری نے چار سُو نئے رنگ بکھیرے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ لالہ عطا اللہ کو پی ٹی وی پر ابھی گانے کی اجازت نہ تھی بلکہ شروع میں ریڈیو پاکستان پر بھی ان کے گانے نہیں چلتے تھے۔ انہیں یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے جنرل ضیا‘ اور ٹیپ ریکارڈر اور کیسٹ کے دور میں اپنا نام بنایا۔ آج کی نسل میری اس بات پر بھی ہنسے گی کہ کسی دور میں ٹیپ ریکارڈر بھی ایک سٹیٹس سمبل تھا‘ جس کے پاس ٹیپ ریکارڈ ہوتا اس کا اپنا ایک الگ مقام تھا۔ اگرچہ 1988ء میں بینظیر بھٹو کے اٹھارہ ماہ کے دورِ حکومت میں معاشرے سے کچھ گھٹن کم ہونا شروع ہوئی۔ پی ٹی وی پر کچھ آزادی ملنے لگی‘ کچھ گانے ڈرامے دیکھنے اور سننے کو ملے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ملک میں ضیا دور کے اثرات ختم نہ ہوئے اور آج بھی آپ کو ہر جگہ یہ اثرات ملتے ہیں۔ لہٰذا جیپ ریلی جیسے ایونٹس کو ہضم کرنا آسان نہیں ہے۔ تھل جیپ ریلی اب ایک عالمی ایونٹ بنتی جا رہی ہے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ اب مڈل ایسٹ سے شہزادے بھی اس جیپ ریلی میں آئے ہیں اور وہاں مختلف رنگوں میں وہ بھی رنگے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں ایسے ایونٹس کی مشہوری اسی علاقے تک محدود نہیں رہتی جہاں یہ منعقد ہو رہے ہوں بلکہ اس کی دھوم پوری دنیا تک جاتی ہے۔
پنجاب میں پچھلے کچھ برسوں سے چند جتھوں نے مذہب کے نام پرکنٹرول سنبھال رکھا تھا‘ اس کے بعد حکومتیں‘ مقتدرہ اور ادارے تک ان کے اثر میں چلے گئے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2017ء میں ملک کا وزیر داخلہ احسن اقبال اور ڈی جی سی جنرل فیض حمید جیسے بڑے لوگ بھی ان جتھوں کے سامنے سرینڈر کر کے تحریری معاہدے پر دستخط کر کے اپنے ہی وفاقی وزیر کو برطرف کر رہے تھے۔ اس کا کریڈٹ مریم نواز صاحبہ کی حکومت اور مقتدرہ کو جاتا ہے کہ انہوں نے اس دفعہ ان جتھوں سے بلیک میل ہونے کے بجائے سخت کارروائی کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب معاشرے میں کچھ نارمل سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔ دہشت اور خوف کی فضا کم ہورہی ہے۔ ہمارے گاؤں‘ دیہات اور نوجوان اب دھیرے دھیرے نارمل رویوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو تھل ریلی میں جا کر‘ صحرا کے خوبصورت ماحول میں ہر طرف ڈھول ڈھمکے اور جھومر تاڑیاں دیکھیں اور ایک آزاد فضا میں پھیلے ان سروں کو محسوس کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved