پی ٹی آئی کے طرزِ سیاست میں بصیرت کا چراغ مدھم اور تصادم کا شعلہ تیز نظر آتا ہے۔ 31 جولائی 2025ء کو فیصل آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے نو مئی کے پُرتشدد واقعات میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا کو دس‘ دس سال قید کی سزا سنائی۔ کچھ ماہ گزرنے کے بعد سزا پر عملدرآمد کرتے ہوئے صاحبزادہ حامد رضا کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور انہیں فیصل آباد سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی کا یہ مؤقف ہے کہ وہ خود سرینڈر کرنے جا رہے تھے اور انہیں راستے میں حراست میں لیا گیا۔ نو مئی کے مقدمات میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی یہ گرفتاریاں مستقبل کے سیاسی نقشے کا خاکہ کھینچتی ہیں۔ بانی پی ٹی آئی پہلے ہی قید میں ہیں‘ پی ٹی آئی کی متبادل قیادت بھی جیل میں چلی جاتی ہے تو پی ٹی آئی کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اس موقع پر متبادل قیادت ہی پارٹی کا سہارا ہے جو کارکنوں کو پارٹی کے نظریے کے ساتھ جوڑنے کا سبب ہے۔ ایسے حالات کا تقاضا تھا کہ پی ٹی آئی تصادم کی راہ سے گریز کرتی اور معاملات کو مفاہمت کی طرف موڑتی مگر یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت الجھاؤ پیدا کرنے اور محاذ آرائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی۔
ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کا منصب آئینی طور پر نہ صرف طاقت بلکہ اہم ذمہ داریوں سے بھی عبارت ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کے قومی اداروں سے متعلق الزامات پر مبنی بیانات کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بیانات اداروں کے وقار کو مجروح کرتے اور ملک میں انتشار اور عدم اعتماد کی فضا کو پروان چڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں۔ حیرت کا مقام ہے کہ وزیر اعلیٰ منشیات کے ناسور کو پشتون معاشرے کی شناخت سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ قابلِ مذمت امر ہے۔ کسی قوم کے بعض افراد کے انفرادی فعل اور جرائم کو پوری قوم یا معاشرے کی پہچان بنا دینا تاریخی بددیانتی اور تعصب کے زمرے میں آتا ہے۔ پشتون معاشرے سے منشیات کو منسوب کرنے کے بجائے مناسب یہ تھا کہ وزیراعلیٰ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے۔ انہیں عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں تھے تاکہ معاشرے میں پھیلتے منشیات کے زہر کا قلع قمع کیا جا سکے۔ خیبر پختونخوا منشیات کے ناسور کی زد میں ہے جس نے صوبے کی سماجی اور انتظامی جڑیں کمزور کر دی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان سے بڑے پیمانے پر منشیات جیساکہ ہیروئن‘ چرس اور دیگر نشہ آور مواد خیبرپختونخوا اور خاص طور پر وادیٔ تیراہ میں سمگل کیا جاتا ہے۔ یہ عمل صوبے میں منشیات کی وبا کو فروغ دے رہا ہے جس سے ہزاروں نوجوان تباہ ہو رہے ہیں۔ انہی علاقوں‘ خاص طور پر خیبر اور تیراہ میں تقریباً 12 ہزار ایکڑ رقبے پر منشیات کی غیر قانونی کاشت کی جا رہی ہے۔ یہ کاشت نہ صرف مقامی آبادی کو متاثر کر رہی ہے بلکہ صوبے کے امن و امان کیلئے بھی سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ اس صورتحال میں صوبائی حکومت کی ناکامی باعثِ تشویش ہے۔ مناسب ہوتا کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا اس صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے اس کے سدباب کیلئے عملی اقدامات کرتے‘ چہ جائیکہ وہ منشیات کو پشتون معاشرے کی پہچان بتا کر ذمہ داری سے فرار اختیار کریں۔
وادیٔ تیراہ اور خیبر کے علاقوں میں دہشت گردی کی بنیادی وجہ پولیٹیکل ٹیرر کرائم نیکسس ہے جو تین خطرناک عناصر کا گٹھ جوڑ ہے۔ منشیات کے کاروبار سے حاصل ہونے والا بھاری منافع دہشت گردوں اور مبینہ طور پر بعض سیاسی گروہوں کو بھی جاتا ہے۔ منشیات سے حاصل ہونے والا کالا دھن دہشت گرد تنظیموں کے مالی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے جس سے وہ اپنی عسکری سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ منشیات کا یہ کاروبار سیاسی سرپرستی بھی حاصل کر چکا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب سکیورٹی فورسز کی طرف سے دہشت گردی کی جڑوں کو کاٹنے کیلئے فوجی آپریشن کی ضرورت پیش آتی ہے تو پولیٹیکل ٹیرر نیکسس کے دباؤ پر اس کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہ مخالفت دہشت گردی کے مالیاتی ذرائع کی حفاظت کے مترادف ہے جو ملکی سلامتی کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس صورتحال کی تشویش اس وقت انتہائی بڑھ جاتی ہے جب صوبے کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے درپردہ منشیات کی گنجائش نکالنے یا اس کے سماجی پہلوؤں کی غلط توجیہ کرنے کا رویہ سامنے آتا ہے۔ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کا یہ عمل نہ صرف منشیات فروشوں اور خوارج کے گٹھ جوڑ کو نرم تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ ریاستی اداروں کی جانب سے منشیات کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی راہ میں بھی سیاسی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ یہ اخلاقی و انتظامی ذمہ داریوں سے فرار ہے جو مجرموں کے حوصلے بلند کرتا ہے اور یوں یہ نیکسس صوبے کی سلامتی کی بنیادوں کو مزید تیزی سے کھوکھلا کرنے لگتا ہے‘ کیونکہ حکومتی سطح پر ہی جرائم کے جواز کا تاثر پیدا ہو جاتا ہے۔
وادیٔ تیراہ اور خیبر پاکستان کا حصہ ہیں مگر جغرافیائی اعتبار سے افغان سرحد کے قریب واقع ہیں‘ مطلب یہ کہ افغانستان میں موجود گروہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنی مرضی کا نظام نافذ کرنے کیلئے سرگرم ہیں۔ ایسی صورتحال میں صوبائی حکومت پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کیونکہ ان عناصر کا راستہ نہ روکا گیا تو یہ عناصر صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی اپنی مرضی چلانے کی کوشش کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان صدیوں سے افیون کی پیداوار کا مرکز رہا ہے۔ 90 ء کی دہائی میں مُلا عمر کے دور میں جب طالبان پہلی بار اقتدار میں آئے تو افیون کی کاشت پر مکمل پابندی عائد تھی جس کا دنیا نے بھی اعتراف کیا‘ اس کے برعکس حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور میں افیون کی کاشت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا جس میں بھارت پوری طرح ملوث تھا کیونکہ افغانستان سے منشیات کی بڑی کھیپ بھارت کے ذریعے ہی دنیا تک پہنچ رہی تھی۔ افغان طالبان کا دوسرا دور پہلے دور سے کئی حوالوں سے مختلف ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ افغانستان ایک بار پھر افیون کا مرکز بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسدادِ منشیات و جرائم کی رپورٹ کے مطابق 2025ء میں افغانستان میں 10 ہزار 200 ہیکڑز پر افیون کی کاشت کی گئی۔ 2024 ء میں12800 ہیکٹرز پر افیون کاشت کی گئی تھی۔ زابل‘ کنڑ اور تخار میں افیون کی کاشت میں اضافہ ہوا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ افغانستان میں افیون سٹاک 2026 ء تک کی عالمی طلب پوری کرنے کیلئے کافی ہے۔ افغانستان میں 2025 ء میں افیون کی پیداوار 296 ٹن رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسدادِ منشیات و جرائم کے مطابق پلانٹ بیسڈ پوست کے بجائے اب سنتھیٹک منشیات منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ آئس کی پیداوار افغانستان میں تیزی سے بڑھ رہی ہے‘ جرائم پیشہ گروہ پیداوار اور سمگلنگ میں آسانی کی وجہ سے آئس کی پیداوار کو ترجیح دے رہے ہیں۔ افغانستان کا شمار افیون پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ اب خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں بھی منشیات کی کاشت کے شواہد سامنے آئے ہیں تو یہ تشویشناک ہے۔ اس پر سب سے زیادہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو فکر مند ہونا چاہیے مگر وہ منشیات کو پشتون روایات سے جوڑتے نظر آتے ہیں۔ ایسی سوچ کے حامل لوگ صوبے میں منشیات کے پھیلاؤ کو ہرگز کنٹرول نہیں کر سکیں گے۔ دراصل یہی پولیٹیکل ٹیرر کرائم نیکسس ہے جس کے خلاف کھڑا ہونے کی ضرورت ہے تاکہ خیبرپختونخوا کو منشیات کا گڑھ بنانے سے بچایا جا سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved