تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     09-11-2025

حکیم الامت

آج جب حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کا 148واں یوم پیدائش منایا جا رہا ہے تو میرے ذہن میں بار بار یہ سوال اُبھر رہا ہے کہ علامہ کو ایسا کیا نام دیا جائے جو اُن کی ہمہ جہت شخصیت کے سارے پہلوؤں کا احاطہ کر سکے۔ وہ یقینا حکیم الامت تو ہیں لیکن کیا اس سے بھی زیادہ جامع نام ان کا ہو سکتا ہے؟ ان کے سارے کلام پر ایک نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ عمرانیات کا غالباً کوئی بھی پہلو ایسا نہیں جو اُن کے کلام کا موضوع بننے سے رہ گیا ہو۔ مختلف زبانوں پر عبور اور عربی‘ فارسی‘ اُردو اور پنجابی کی شعری روایات سے روشناس ہونے کی خوبی نے ان کے ادبی افق اور ذہنی اپج کو وسیع کیا۔ فکری وسعت‘ سمجھ بوجھ اور نئے خیالات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی انہی عوامل کے سبب ان میں در آئی۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اقبال کی مغربی تعلیم اور فلسفے کی پیچیدگیوں پر غور و فکر نے ان کے نقطہ نظر کو وسیع تر کیا اور ان کی سوچ کو نہایت متاثر۔ علامہ نے کانٹ اور ہیگل جیسے نامور فلسفیوں کے کاموں کا مطالعہ کیا اور رومی‘ مجدد الف ثانی‘ نطشے‘ گوئٹے‘ ٹالسٹائی‘ ہنری برگساں‘ ابوالاعلیٰ مودودی‘ ارسطو کے نظریات سے اپنے لیے استعارے کشید کیے۔ سب سے بڑھ کر پیغمبر اسلامﷺ کے ساتھ دلی و روحانی وابستگی نے ان کی سوچ‘ نظر‘ فکر اور بیان کو گہرائی کے ساتھ ساتھ ہمہ گیری بھی عطا کی۔ اقبال کی شاعرانہ عظمت تو مسلّم ہے لیکن ان کی فکر اس قدر بلند اور پختہ ہے کہ بعض اوقات یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اقبال بڑے مفکر ہیں یا بڑے شاعر۔ علامہ اقبال کی منفرد شاعری میں خودی‘ خود اعتمادی اور کامیابی کا پیغام سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔ ارمغانِ حجاز میں درج ان کا یہ شعر کس قدر وسیع معنی رکھتا ہے:
گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو
تھرتھراتا ہے جہانِ چار سوے و رنگ و بو
معنی: جب غلام قوم غلامی کی بدحالی کی اخیر کو پہنچ جاتی ہے اور ایسی زندگی سے تنگ آ جاتی ہے تو اس میں آزاد ہونے کا جذبہ انگڑائی لینے لگتا ہے۔ اس کے لہو میں آزادی کی حرارت پیدا ہو جاتی ہے اور پھر وہ جان پر کھیل کر بھی اپنے آقاؤں کے مقابلے پر آ جاتی ہے۔
ذرا تاریخ عالم پر ایک نظر تو دوڑائیے‘ یہ دیکھیے اور پرکھیے کہ قوموں نے آزادی کیسے حاصل کی تو سارا منظر واضح ہو جائے گا کہ علامہ نے ایک شعر میں کتنی بڑی بات کہہ دی ہے۔ ہو سکتا ہے علامہ اقبال نے یہ شعر برصغیر کے مسلمانوں کی تحریک آزادی‘ جس کے خدوخال علامہ کی وفات کے وقت خاصے نمایاں ہو چکے تھے‘ کے تناظر میں کہی ہو لیکن یہ دیکھیے کہ اس میں کتنا بڑا آفاقی پیغام مضمر ہے۔ اسی نظم کا ایک شعر یوں ہے:
ضربتِ پیہم سے ہو جاتا ہے آخر پاش پاش
حاکمیت کا بتِ سنگیں دل و آئینہ رو
معنی: حاکمیت کے بت کا چہرہ حسین لیکن دل پتھر کا ہوتا ہے‘ مگر غلام قوم کے افراد کی ضربِ مسلسل سے بالآخر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ غلاموں کو اپنے آقاؤں کی جفا کیشی بری نہیں لگتی حالانکہ وہ پتھر دل طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں لیکن جونہی ان میں آزادی کی آرزو مچلنے لگتی ہے اور آزادی کے حصول کیلئے ان کا خون گرمی پکڑتا ہے تو اس گرمی کے سامنے سخت گیر آقاؤں کا ہر ظلم ناکام ہو جاتا ہے۔
اور بتائیے کہ علامہ اقبال کی اس نظم کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک شعر روح کو تڑپاتا اور جسم کو گرماتا ہے کہ نہیں؟
خودی کا سر نہاں لا الٰہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الٰہ الا اللہ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الٰہ الا اللہ
یہ مال و دولتِ دنیا‘ یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ
اور پھر علامہ کے تصورِ شاہین کے بارے میں کیا خیال ہے؟
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
شاہین آشیانہ نہیں بناتا وہ بلند پرواز رہتا ہے‘ اس کی نگاہ تیز ہوتی ہے‘ اس میں فقر و استغنا ہوتا ہے‘ شاہین توانائی‘ جہدِ مسلسل‘ حریت‘ تجسس‘ محنت‘ پہل کرنے کی خوبی اور خلوت پسندی کی خوبیوں سے مزین ہے۔ تو پھر سوچنا پڑے گا کہ حضرت اقبال مسلم نوجوانوں کو شاہین جیسا بننے کی ترغیب کیوں دیتے رہے۔ پھر یہ دیکھیے کہ اقبال کے مردِ مومن میں کون سی خصوصیات ہیں۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
یہ وہی مردِ مومن ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت کی اور تربیت کے تینوں مراحل ضبطِ نفس‘ اطاعتِ الٰہی اور نیابتِ الٰہی طے کرنے کے بعد اشرف المخلوقات اور خلیفۃ اللہ فی الارض ہونے کا مرتبہ حاصل کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال انسان اور انسانیت کے فروغ کی بات کرتے رہے۔ امتِ مسلمہ کو زوال اور غلامی سے نکل کر نشاۃ ثانیہ کے حصول کیلئے تگ و دو کی ترغیب دیتے رہے۔ یوں وہ ایک پکے اور سچے مسلمان تھے جن کے پیشِ نظر صرف اور صرف مسلمانوں کا فروغ تھا۔
عروجِ آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
آج جب ہم اس عظیم شاعر کا یوم پیدائش منا رہے ہیں تو ضروری ہے کہ اس کو محض ایک دن منانے تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ علامہ کے افکار اور اشعار کے ذریعے دی گئی تعلیم کو سمجھنے اور انہیں اپنی زندگیوں میں رائج کرنے پر بھی توجہ دی جائے۔ تبھی ہم یہ کہنے کے قابل ہوں گے کہ ہاں ہم نے اس عظیم صوفی اور شاعر کو اس کی شان کے مطابق عزت دی ہے۔ میں تو یہ کہوں گا کہ علامہ نے دنیا بھر کے نظریات سے دانش کشیدہ کرکے اپنے اشعار میں سمو دی اور ایک ایسا پیغام جاری کیا جو ایک انسان کیلئے ہے‘ جو ایک معاشرے کیلئے ہے اور جو پوری نسلِ انسانی کیلئے بھی ہے۔ ایک بچہ ان کے کلام سے اپنی زندگی کی راہیں متعین کر سکتا ہے اور ایک نوجوان یہ سیکھ سکتا ہے کہ کیسے آگے بڑھنا اور ترقی کرنا ہے۔ ایک بوڑھا یہ سیکھ سکتا ہے کہ ایک باوقار بڑھاپا کیا ہوتا ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved