جب تک آپ آج کا وکالت نامہ پڑھنا مکمل کریں گے تب تک 27ویں آئینی ترمیم کی بلٹ ٹرین پارلیمانی پٹڑی کو بلڈوزکرتے ہوئے پارلیمنٹ کا سٹاپ کراس کر چکی ہوگی۔ ادھار کی سرکار کے عجائب خانے میں یہ بھی ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ ریپبلک کہلانے والے ملک کے25 کروڑ عوام کی تقدیر اور مستقبل کا فیصلہ اقلیتی پارٹیاں اُدھاریہ سیٹوں پرکریں۔ مثال کے طور پر پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) کو جنرل الیکشن کے دوران کے پی صوبے میں صرف ایک سیٹ ملی تھی لیکن آج اسی صوبے میں اس کے پاس آدھ درجن سے زیادہ سیٹیں موجود ہیں۔ اسے آپ سیٹوں کی شہباز سپیڈ کہہ لیں یا مردِ سکندر کی جادوگری۔ اس نظام کا دوسرا عالمی ریکارڈ یہ کہ انتہائی متنازع اسمبلی کے کان پکڑ کر رات کو اُٹھک بیٹھک کی ترمیمی ایکسرسائز کروائی جاتی ہے۔ تیسرا ریکارڈ یہ کہ کالے لفافے میں پارلیمان کے اندر پہنچنے والا فولڈر کھلتا ہے تو تب جا کر فارم 47کے وزیروں کو پتا چلتا ہے اُنہوں نے آئین میں کس چیز کی ترمیم کرنی ہے۔ اس بارے میں 26ویں ترمیم میں آئینی بل لیڈ کرنے والے وزیر کا بیان ریکارڈ پر ہے۔ جبکہ اسی حوالے سے اب کی بار وفاقی حکومت کے وزیر امورِ کشمیر کا ٹی وی انٹرویو بھی نشر ہوا۔ موصوف نے علم الیقین کی ساری طاقت لگا کر فرمایا: 27ویں ترمیم نہیں آ رہی‘ نہ ہی 27ویں ترمیم پر کابینہ میں کہیں کوئی گفتگو ہوئی ہے۔ ان unbreakable ریکارڈز سے ظاہر ہوتا ہے‘ ہم ووٹ کو کس قدر عزت دیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ کہ یہاں پارلیمانی جمہوریت کا مطلب کیا ہے۔ کسی کو ہرگز شک نہیں ہونا چاہیے کہ مجلسِ شوریٰ سپریم ہے‘ اس لیے کسی سے ڈرتی ورتی نہیں ہے۔ کسی زمانے میں ووٹ کو عزت دینے والوں کا نعرہ تھا: پارلیمنٹ سب سے سپریم ہے۔ اب شہباز شریف کا تاریخی کردار سرکاری ڈاکیے والا رہ گیا جسے پارلیمانی زبان میں ڈسپیچ رائیڈر کہتے ہیں۔ کالا لفافہ پارلیمنٹ تک پہنچانا‘ راستے میں کھولنے کی ہمت مت کرنا اور بس۔ آئین‘ قوم کے اتحاد کی شہ رگ ہے۔ اس روزِ روشن جیسی حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ پاکستان میں ہر طرح کے معاملات پر مختلف گروہوں کی اپنی اپنی رائے اور اختلافی مؤقف ہے لیکن 1973ء کے آئین پر قوم سو فیصد متفق ہے۔ اس اتفاقِ رائے کو چند لوگوں کی خوشنودی کے لیے توڑنا فیڈریشن کی بنیاد اور اساس پر حملہ نہیں تو اور کیا ہے۔
آئیے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہیں۔ یادش بخیر! ان دنوں بُری طرح زیر عتاب 18ویں آئینی ترمیم کا بل بنانے سے پہلے وفاقی کابینہ میں وزارتِ پارلیمانی امور میرے پاس تھی۔ ہم نے مشورہ کیا چونکہ 1973ء کا دستور متفقہ ہے اس لیے اس میں لائی جانے والی اٹھارہویں ترمیم بھی متفقہ ہونی چاہیے جس کے نتیجے میں پرائم منسٹر ہائوس میں آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی۔ APC میں پارلیمنٹ کے اندر نمائندگی رکھنے والی ساری پارٹیوں کے سربراہان بشمول عمران خان پوری لیڈرشپ نے شرکت کی۔ قومی مشاور ت کا یہ سلسلہ کئی سطحوں پر ایک سال کے عرصے تک چلتا رہا۔ مشاورت کے اس عمل کے دوران درجنوں کی تعداد میں تحریری تجاویز مختلف الخیال پارٹیوں سے جمع کی گئیں۔ اس ایکسرسائز کے دوران وزارتِ پارلیمانی امور کو منسٹری آف لاء اینڈ جسٹس میں ضم کر کے دونوں وزارتوں کا چارج میرے حوالے کر دیا گیا؛ چنانچہ میرے سمیت پانچ وفاقی وزرائے قانون‘ فاروق ایچ نائیک‘ ڈاکٹر خالد رانجھا‘ ایس ایم ظفر (مرحوم) اور وسیم سجاد‘ تمام پارٹیوں کے پارلیمانی لیڈرز اور دوسرے سینئر وکلا سمیت نو مہینے کی بھرپور اور شدید بحث وتمحیص کے بعد آئینی ترمیم کا بل 2010ء میں متفقہ طور پہ منظور کیا گیا۔ یہاں ایک تاریخی بات کہنا قارئینِ وکالت نامہ کی دلچسپی کا باعث ہوگا؛ یہ کہ 1972ء کے عبوری دستور پر پارلیمنٹ میں موجود سب پارٹیوں اور گرہووں نے دستخط کیے لیکن 12 اپریل 1973ء کے روز لاگو کیے گئے آئینِ پاکستان کے مسودے اور بل پر تین ارکانِ اسمبلی نے دستخط کرنے سے انکار کیا‘ جن میں بلوچستان کی ایک خاتون ممبر‘ ایک بلوچ قوم پرست رہنما اور PPP کا پنجاب سے ایک منحرف رکن اسمبلی شامل تھے۔
18ویں ترمیم جس کے ذریعے سے دورِ آمریت کی تمام یادگاریں حرفِ غلط کی طرح نکال کر ردّی کی ٹوکری میں پھینک دی گئیں‘ اس ترمیم کے وقت کچھ ایسی علاقائی اور مذہبی سیاست کرنے والی پارٹیوں سے بھی مشاور ت کی گئی جن کی نمائندگی پارلیمان کے اندر موجود نہیں تھی۔ آج سپریم بننے کے لیے طاقت کے ٹَگ آف وار نے سوالات کے انبار کھڑے کر دیے ہیں جن میں سے دو بنیادی سوال یہ ہیں؛ پہلا سوال‘ 1973ء کے دستور کے آرٹیکل227 سے پیدا ہوتا ہے‘ جس میں یہ گارنٹی دی گئی ہے کہ پاکستان میں کوئی قانون شریعت اور قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا ۔ دنیاکے عظیم ترین جرنیلوں میں سے ایک عظیم تر نام سیدنا عمر ابن الخطابؓ کا ہے ۔ حرب وضرب کے میدان میں آپؓ کی طاقت اور ہیبت کا عالم کا اندازہ سرنڈر آف القدس شریف سے لگایا جا سکتا ہے۔ سیدنا عمرؓ وہ واحد جرنیل ہیں جن کی خدمت میں اُس وقت کے فلسطین بشمول القدس شریف کی چابیاں سرنڈر کی گئیں۔ آپؓ نے قوم کے مال کے حوالے سے احتساب کی لازوال مثال قائم کی۔ بھرے مجمعے میں آپؓ سے چادر کے حوالے سے سوال کیا گیا جس کے جواب میں نہ آپؓ نے تلوار سونتی اور نہ حکمرانی کا دبدبہ استعمال کیا بلکہ احتساب کے عمل کو اسلامی تاریخ کا حصہ بناتے ہوئے اپنا دفاع پیش کیا۔ آخر کیا وجہ ہے اسلام کے نام پر بننے والے ملک اسلامک ریپبلک میں ہر بڑا عہدہ احتساب یا سوال سے بچنے کے لیے دستورکی دیوار کے پیچھے پناہ چاہ رہا ہے؟ شہباز شریف نے ہزاروں میل دور بیٹھ کر گزشتہ ہفتے کے دن کابینہ کے اُس اجلاس کی صدارت کی جس میں ملک کے بڑے عہدوں کو استثنا دینے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا۔ شہرِ اقتدار کے ثقہ راوی بتاتے ہیں کہ شہباز شریف کی پاکستان واپسی پر یہ کہہ کر اُنہیں لاجواب کر دیا گیا کہ استثنا والی اس ترمیم کے ذریعے سے کیا سابق وزیراعظم عمران خان کو فائدہ پہنچے گا کہ نہیں۔ پھر جواب کی صورت میں شہباز شریف کی ٹویٹ آ گئی۔ پٹواریوں‘ کلرکوں‘ صحافیوں اور چھوٹے اہلکاروں کا احتساب کرنے والے گڈ گورننس کے دعویدار‘ ایک دھیلے اور ایک قصیرے کی کرپشن نہ کرنے کے ماہر آخر کس خوف سے لرزہ براندام ہیں۔ دوسرا سوال‘ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیا چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ خدا کی زمین پر سدا بادشاہی اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ہم پاکستان کو سیاہ فام افریقی حکمرانوں کی صف میں کیوں کھڑا کر رہے ہیں؟ عمران خان پر 300 مقدمے بنائے گئے احتساب سے ڈر کر نہ وہ ہسپتال لیٹا‘ نہ سودے بازی پر راضی ہوا اور نہ ہی آلِ شریف اور دوسرے سیاست کاروں کی طرح خوش خرید جلاوطنی قبول کی۔ جن کے پاس اختیار ہے‘ اقتدار ہے‘ طاقت ہے وہ قیدی نمبر 804 جتنا حوصلہ تو دکھائیں۔
کون بنے گا سپریم ‘اس کا فیصلہ صرف ووٹ سے ہو سکتا ہے۔ کسی کاغذی ترمیم سے نہیں۔ ایسی ترامیم ہمیشہ نو عمری میں آئین توڑنے والوں کو داغِ مفارقت دے جاتی ہیں۔
اول اول آندھیوں میں سنسناتا ہے قلم
پھر انہیں اپنے چراغوں پر نچاتا ہے قلم
کشور وقت جہاں کو فتح کرتے ہیں حروف
قبر میں شاعر اترتا ہے ابھرتے ہیں حروف
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved