امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی محاذ پر کچھ برف پگھلی ہے‘ ان حالات میں پاکستان کے لیے بھی کئی مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ چین دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے لیکن ضرورت کی کئی اشیا وہ درآمد بھی کرتا ہے۔ چین تقریباً تین کھرب 58 ارب ڈالرز کی برآمدات کرتا ہے اور تقریباً دوکھرب 59 ارب ڈالرز کی درآمدات۔ چین کی اکانومی تقریباً 992 ارب ڈالر تجارتی سرپلس پر کھڑی ہے۔ چین امریکہ کو 492 ارب ڈالرز کی برآمدات کرتا ہے اور امریکہ سے درآمدات تقریباً 143 ارب ڈالر ہیں۔ صرف امریکہ سے چین کا تجارتی سرپلس تقریباً 295 ارب ڈالر ہے‘ جو اس کے ٹوٹل تجارتی سرپلس کا تقریباً 30 فیصد ہے۔ چین کی امریکہ سے سب سے بڑی درآمد سویابین ہے۔ چین تقریباً 13 ارب ڈالرز کی سویابین امریکہ سے درآمد کرتا ہے۔ جب سے چین نے امریکی سویابین خریدنے پر پابندی عائد کی ہے امریکی کسان پریشان ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن سویابین درآمد کرتا ہے جو تقریباً 80 فیصد پولٹری فیڈ میں استعمال ہوتی ہے۔ پاکستان سالانہ تقریباً دو ارب ڈالرز کی سویابین درآمد کرتا ہے۔ مقامی سطح پر سویابین کی پیداوار بڑھا کر پاکستان نہ صرف دو ارب ڈالرز امپورٹ کی مد میں بچا سکتا ہے بلکہ چین کی 13 ارب ڈالرز کی امپورٹ میں سے کچھ حصہ ضرور وصول کر سکتا ہے۔ امریکہ سات سمندر پار سے اپنا مال چین میں بیچنے کے لیے کوشش کر رہا ہے اور پاکستان ہمسایہ ملک اور باصلاحیت ہونے کے باوجود ایک آسان اور بڑی ایکسپورٹ سے محروم ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر کاشتکار چاول یا کپاس کے کم منافع والے علاقوں میں سویابین متعارف کرائیں تو پیداواری لاگت 30 فیصد کم اور منافع دُگنا ہو سکتا ہے۔ پاکستان چین کا ہمسایہ ملک ہے لیکن پاکستان کی چین کو برآمدات تقریباً دو ارب ڈالرز اور درآمدات تقریباً 15ارب ڈالر ہیں۔ تقریباً 13 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہے۔ جن ممالک کی سرحدیں آپس میں ملتی ہوں‘ زمینی‘ ہوائی اور بحری تجارت کے راستے ہموار ہوں اور دوستی سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے بلند ہونے کے دعوے ہوں‘ اس ملک کو برآمدات کل برآمدات کا صرف پانچ فیصد ہوں تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان امریکہ کو اگر پانچ ارب ڈالرز کی ایکسپورٹ کر سکتا ہے تو چین کو کیوں نہیں کر سکتا۔ اس حوالے سے حکومت کو پاکستانی سرمایہ کاروں کو چین میں سرمایہ کاری پر آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ چینی حکومت بھی پاکستانی اشیا کی درآمدات میں دلچسپی رکھتی ہے۔ چینی سرکار نے پانچ بزنس فسیلیٹشن سنٹرز قائم کیے ہیں جو دنیا بھر کے چیمبرز کے ساتھ منسلک ہیں۔ پاکستان چائنا جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری پچھلے ہفتے اس کی رکن بنی ہے۔ اب اگر کوئی سرمایہ کار چین سے تجارت کرنا چاہتا ہے اور اسے کوئی گائیڈ لائن نہیں مل رہی تو پاکستان چائنا جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اسے چینی حکومت سے جوڑ سکتی ہے۔ پاکستان چین کو ٹیکنالوجی تو برآمد کر نہیں سکتا‘ اگر کسی شعبے میں برآمدات کی جا سکتی ہیں تو وہ زراعت ہے لیکن اس کے لیے پاکستان کو کورنٹائن کے معیار کو بہتر کرنا پڑ سکتا ہے۔ چین میں درآمدی اشیا پر صفائی اور ہائی جین کے معیار یورپ‘ امریکہ اور خلیجی ممالک کی نسبت زیادہ سخت ہیں۔ پاکستانی سرمایہ کار اگر کچھ مال چین بھجوا بھی دیتے ہیں تو وہ صفائی‘ ہائی جین اور کورنٹائن کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ گلف ممالک میں بیف کی برآمد پر پاکستان کی اجارہ داری ہے‘ پاکستانی چاول کی یورپی مارکیٹ میں مانگ ہے اور ٹیکسٹائل امریکہ برآمد کی جاتی ہیں لیکن یہ اشیا چین کے معیار پر پورا نہیں اترتیں۔ چین پاکستان سے زیادہ تر منرلز اور پتھر امپورٹ کرتا ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی اور اس میں نرمی سے پاکستان فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان ٹیرف وار کی بڑی وجہ چینی ریئر ارتھ منرلز کی امریکہ کو سپلائی میں بندش ہے۔ چین نے امریکہ کو ریئر ارتھ منرلز کی برآمدات روک دی تھیں اور چین دنیا میں منرلز سپلائی کا تقریباً 90 فیصد کنٹرول کرتا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی ہے کیونکہ پاکستان کے پاس 17 میں سے 12ریئر ارتھ منرلز ہیں۔ چین نے ٹرمپ سے حالیہ ملاقات میں کچھ منرلز کی سپلائی بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن امریکہ جانتا ہے کہ اگر ٹیکنالوجی میں چین پر انحصار کم کرنا ہے اور جنگی محاذ پر چین سے آگے بڑھنا ہے تو ریئر ارتھ منرلز میں خودمختار ہونا ہو گا کیونکہ مستقبل میں جس کے پاس منرلز ہوں گے وہی دنیا کو لیڈ کر سکے گا۔ چین ان منرلز کے ذخائر بڑھا رہا ہے کیونکہ یہ ذخائر استعمال ہونے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں کیے جا سکتے۔ اس لیے وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور بڑے پیمانے پر اسے پھیلانے کا خواہاں ہے۔ ان حالات میں بہترین ڈیل کرنا پاکستانی حکومت اور بیورو کریسی کی مہارت پر منحصر ہے۔ یہاں بہترین ڈیل سے مراد وہ ڈیل ہے جس سے ملک کو فائدہ ہو نہ کہ ایسی ڈیل جس سے صرف چند عہدیداروں کو فائدہ پہنچے‘ جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ اس ملک کے ساتھ تجارت بڑھانے کو ترجیح دی جا سکتی ہے جو ان منرلز کو خام حالت میں لے جانے کی بجائے تیار کر کے لے جائے کیونکہ اس سے ملک میں روزگار پیدا ہو گا اور ویلیو ایڈیشن سے قیمت بھی چار گنا تک بڑھ جائے گی۔
امریکہ کے لیے بلوچستان آکر ایکسپلور کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے‘ ایک تو فاصلہ زیادہ ہے اور دوسرا بلوچستان کے ماحول میں امریکیوں کے لیے کام کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس چھ سے آٹھ ٹریلین ڈالرز کی معدنیات ہیں جبکہ سرمایہ کار ریکوڈک کی رپورٹ پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں جو 2028ء میں جاری کی جا سکے گی کیونکہ وہ ابھی تک تحقیق کر رہے ہیں کہ پاکستان کے پاس اصل منرلز کی مالیت کیا ہے؟ موجودہ حالات میں ایکسپلوریشن کی ضرورت ہے اور وہ شاید چین زیادہ بہتر طور پر کر سکتا ہے۔ ٹرمپ کی تعریفوں سے ملک نہیں چل سکتا‘ ان تعریفوں کو ڈالرز اور تجارت میں تبدیل کرنے سے ہی معاشی بہتری ممکن ہے جوابھی تک دکھائی نہیں دے رہی۔ پاک امریکہ بزنس کونسل کا دعویٰ ہے کہ پاک امریکہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹس چند ماہ میں مزید ایک ارب ڈالر بڑھ سکتی ہیں۔ یہ بالکل ممکن ہے! امریکہ کے ساتھ پاکستان کی ٹیکسٹائل ڈیل زیادہ آسانی سے آگے بڑھنے کے امکانات ہیں۔ اس لیے امریکہ کے ساتھ منرلز کے بجائے ٹیکسٹائل معاہدے زیادہ سودمند ثابت ہو سکتے ہیں۔
ادھر وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ خواجہ نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا کہ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی گوگل نے پاکستان میں اپنی رجسٹریشن مکمل کر لی ہے۔ گوگل کا پاکستان آنا نوجوان نسل کے لیے خوش آئند ہے جو اپنے کم وسائل کے باوجود دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی رہی کہ ہم بھی کچھ کر سکتے ہیں۔ ٹیک ویلی کمپنی‘ وزارتِ دفاعی پیداوار اور این آر ٹی سی کے اشتراک سے ہری پور میں گوگل کروم بکس کی تیاری شروع ہو چکی ہے۔ یہ درآمدات کے بوجھ سے نکل کر اپنی ٹیکنالوجی کی بنیاد خود رکھنے کا آغاز ہو سکتا ہے۔ گوگل کا دفتر صرف ایک عمارت نہیں بلکہ اعتماد کی علامت ہو گی۔ یہ وہ دروازہ ہے جو اگر کھل گیا تو اس کے پیچھے روزگار ہے‘ ترقی ہے اور وہ ڈیجیٹل خودمختاری ہے جس کا خواب ہر باشعور پاکستانی دیکھتا آیا ہے۔ اب امتحان حکمرانوں کا ہے کہ کیا ہم اس موقع کو پالیسی کے تسلسل‘ تعلیم اور ہنرمندی سے سنبھال پائیں گے؟ گوگل نے دروازہ کھول دیا ہے‘ اب قدم بڑھانے کی باری پاکستان کی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved