تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     10-11-2025

فکرِ اقبالؒ

قوموں کی تعمیر وترقی میں اہلِ قلم اور اہلِ فکر ونظر ہمیشہ اپنا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جن لوگوں کو قوتِ کلام سے بہرہ ور کیا ہوتا ہے ایسے لوگ یقینا کسی بھی قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ خطبا‘ علما‘ دانشور اور محققین اپنی اقوام کی تربیت میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اوسط درجے کی صلاحیتوں کے حامل ہوتے جبکہ بعض کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا ہوتا ہے۔ بعض لوگ نثر وادب کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں جبکہ کچھ افراد میں شعر وسخن کی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ اردو ادب نے اپنے دامن میں بہت سے قادر الکلام شعرا کو سمویا ہوا ہے۔ مرزا غالب‘ میر تقی میر‘ اکبر الہ آبادی‘ الطاف حسین حالی اور مولانا ظفر علی خان یقینا بے مثال شعرا تھے۔
علامہ محمد اقبالؒ کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی شعر وسخن کی صلاحیتوں سے بہرہ ور کیا تھا۔ انہوں نے اردو اور فارسی ادب میں ایسا مقام حاصل کیا جس کی مثال پیش کرنا نہایت مشکل ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی صلاحیتیوں کا صائب طریقے سے استعمال کرتے ہوئے شاعری کے ذریعے قوم کی تعمیر وترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ اقبال نے اُس دور میں مسلم قوم کے احساسِ کمتری کو دور کرنے کیلئے کردار ادا کیا‘ جب مسلمان سیاسی زوال کا شکار تھے۔ آپ نے پسماندگی کے شکار مسلمانوں میں قوتِ عمل کو بیدار کیا اور ان کو عروج کی سمت گامزن کیا۔ علامہ محمد اقبال جہاں ایک بلند پایہ شاعر تھے وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو سیاسی بصیرت سے بھی نواز رکھا تھا۔ انگریزوں کے غلبے کے بعد جب جمہوری نظام برصغیر میں متعارف ہوا تو علامہ محمد اقبال بھانپ گئے کہ مسلمانوں کی فلاح کیلئے ضروری ہے کہ ان کا ایک علیحدہ وطن ہو۔ اس علیحدہ وطن کے حصول کیلئے انہوں نے مسلمانانِ برصغیر کی ذہن سازی کی اور مسلمانوں کی آزاد ریاستوں کے تصور کو پیش کیا۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے جہاں مسلمانوں کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے کیلئے بے مثال کوشش کی‘ وہیں علامہ اقبال نے قوم کی فکری رہنمائی اس انداز سے کی کہ ان کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا۔
علامہ اقبال کو ہم سے جدا ہوئے طویل عرصہ بیت چکا ہے لیکن آپ کی فکر آج بھی مسلمانوں میں نیا ولولہ اور جوش بیدار کر دیتی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے اشعار کے ذریعے جس فکر کی آبیاری کی اس فکر سے وابستہ ہونے ہی میں آج کے مسلمانوں کا عروج پنہاں ہے۔ علامہ اقبال یورپی معاشرے کو بڑی قریب سے دیکھ چکے تھے لیکن آپ اس سے متاثر نہ ہوئے بلکہ وحی کی رہنمائی کو فوقیت دیتے رہے۔ آپ کے نزدیک فقط مادی اور سائنسی عروج مسلمانوں کی ترقی کا آئینہ دار نہیں تھا بلکہ آپ روحانی ترقی کو بھی انتہائی ضروری خیال کرتے تھے۔ ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
یہ علم‘ یہ حکمت‘ یہ تدبر‘ یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مَدنِیّت کی فتوحات
وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
علامہ اقبالؒ کو اللہ تعالیٰ نے بڑی دور اندیشی عطا کی تھی۔ جس انداز سے انہیں شرحِ صدر اور بلندیٔ فکر عطا کی گئی اسی سطح کی بلندی کو وہ امتِ مسلمہ کے ہر فرد میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس حوالے سے وہ فرماتے ہیں:
یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے
پھر وادیٔ فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے
پھر شوقِ تماشا دے پھر ذوقِ تقاضا دے
محرومِ تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے
آپ کے نزدیک کسی بھی قوم کی تعمیر وترقی میں اس قوم کے افراد کلیدی کردار ادا کرتے ہیں؛ چنانچہ اس بات کوکچھ یوں واضح فرمایا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر؍ ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارا
علامہ اقبال کے نزدیک کسی بھی قوم کی تعمیر وترقی میں جہاں قوم کے افراد کلیدی کردار ادا کرتے ہیں وہیں اس قوم کی خودداری بھی نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ 'بڈھے بلوچ کی نصیحت‘ نامی نظم میں اس بات کو بڑی وضاحت کے ساتھ یوں بیان فرماتے ہیں:
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
آپ کے نزدیک جو شخص غیرت‘ خودداری اور قوتِ عمل کے بدلے کو فراموش کرکے رزق کے پیچھے چل نکلتا ہے وہ غلط راستے کا چنائو کرتا ہے۔فرماتے ہیں :
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
علامہ اقبال اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ نبی کریمﷺ کی اتباع ہی عروج کا راستہ ہے اور اسی راستے پر چل کر مسلم امت ترقی کے مدارج طے کر سکتی ہے؛ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
خلفائے راشدین نے نبی کریمﷺ کی اتباع کیلئے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا۔ چنانچہ مختلف مقامات پر آپ خلافتِ راشدہ کے عظیم ستونوں کے ساتھ وابستگی اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی استقامت اور حضرت علی المرتضیٰؓ کی للہیت آپ کی نظروں میں خاصی حیثیت رکھتی ہے؛ چنانچہ فرمایا:
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے ‘ دلِ مرتضیٰؓ سوزِ صدیقؓ دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر‘ تمنا کو سینوں میں بیدار کر
علامہ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کی قوت اور ان کی اجتماعیت کی بنیاد نسل‘ رنگ اور قبائل نہیں بلکہ ان کے نزدیک مسلمانوں کی اصل قوت مذہب کے ساتھ وابستگی میں پنہاں ہے۔ آپ اس حوالے ارشاد فرماتے ہیں:
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اُن کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
علامہ اقبال نے دو قومی نظریہ کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا آپ نے امت مسلمہ کو بیدار کیا اور مسلمانوں میں اس چیز کا ذوق پیدا کیا کہ وہ غلامی کی زندگی سے باہر نکلنے کے لیے منظم اور مجتمع ہو جائیں۔ اس حوالے سے آپ فرماتے ہیں:
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
یہ علامہ اقبال کی جہدِ مسلسل کا اثر تھا کہ مسلم امت میں بیداری کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی اور بر صغیر کا مسلمان آزادی کے لیے متحد ہو گیا جس کے نتیجے میں جلد ہی مسلمان ایک آزاد وطن کی نعمت سے بہرہ ور ہو گئے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم ترقی کے راستے پر مضبوطی سے گامزن ہو جائیں تو اس کا طریقہ یہی ہے کہ ہم ایمان اور عمل صالح کو اپنا لیں۔ فکر اقبال آج بھی سوئی قوم کو جگانے کے لیے نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے اور اس پر عمل پیرا ہوکر مسلمان اپنے کھوئے ہوئے وقار کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو علامہ اقبال کی فکر سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق دے‘ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved