19مئی 1914ء کو جہلم کے ایک دور افتادہ گائوں‘ ملوٹ کے ایک راجپوت گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام محمد خان رکھا گیا۔ وہ اپنے خاندان کا پہلا بچہ تھا اس لیے سب کا لاڈلا بن گیا۔ محمد خان کے والد انگریز فوج کے پہاڑی توپ خانہ سے وابستہ تھے۔ جو نہ صرف بہترین توپچی تھے بلکہ اُنہیں آٹھ زبانوں پر عبور بھی حاصل تھا۔ انہوں نے ہندوستان کے ضابطہ فوجداری کا ماہرانہ علم بھی سیکھا۔ مقامِ حیرت ہے کہ ایک توپچی اپنی علمیت سے ایک مصنف‘ شاعر‘ ڈرامہ نویس‘ موسیقار اور اداکار بننے میں کامیاب رہا۔ وہ فوج میں ترقی کرتے کرتے کیپٹن کے عہدے تک پہنچے اورملٹری کراس بھی پایا۔ ان کے بیٹے محمد خان کو 1932ء میں پبلک سروس کمیشن نے برٹش آرمی میں کمیشنڈ افسر چنا۔ وہ فروری 1933ء میں دہرہ دون ملٹری اکیڈمی میں داخل ہوئے اور ستمبر 1938ء میں رائل انڈین ایئر فورس سے وابستہ ہو کر جہاز اڑانے کی تربیت لینے لگے۔ دوسری عالمی جنگ میں وہ وِنگ کمانڈر کے عہدے پر تھے۔ محمد خان ہندوستان کے جنگی اثاثوں کی پاکستان اور بھارت میں تقسیم کی کمیٹی کے سینئر رکن بھی تھے اور اس حیثیت میں انہیں قائداعظم‘ لیاقت علی خان‘ سردار عبدالرب نشتر‘ راجہ غضنفر علی خان اور دوسرے چوٹی کے سیاستدانوں سے بار بار ملنے اور تبادلۂ خیال کرنے کے مواقع ملے۔ فوج میں بھرتی کے وقت محمد خان نے اپنے نام کے ساتھ اپنے قبائلی نام‘ جنجوعہ کابھی اضافہ کر لیا تھا۔
ستمبر 1947ء میں میجر (ر) خورشید انور نے ان سے نہ صرف گولہ بارود اور اسلحہ بلکہ ذرائع نقل وحمل کیلئے بھی مدد مانگی تاکہ پٹھان قبائلی رضا کاروں کو محاذِ جنگ تک پہنچایا جا سکے۔ وہ یہ کام (صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ) عبدالقیوم خان اور مسلم لیگی رہنما (پیر صاحب مانکی شریف) کی نگرانی اور بھرپور حمایت سے کر رہے تھے۔ افواجِ پاکستان کے انگریز کمانڈر انچیف کو اس کارروائی سے یکسر لاعلم رکھا گیا۔ سرینگرمیں بھارتی افواج کی آمد کے بعد پاکستانی فوج کو بھی کشمیر کی جنگ میں حصہ لینا پڑا۔ ایم کے جنجوعہ صاحب نے ایئر فورس کو گلگت اور سکردو میں خوراک‘ دوائیاں اور گرم کپڑے پہنچانے کیلئے استعمال کیا ۔ مئی 1948ء میں جنجوعہ صاحب (جو اَب ایئر کموڈور کے عہدے پر فائز تھے) چھ ماہ کیلئے پاک فضائیہ کے سربراہ بھی رہے۔ جنجوعہ صاحب نے (اپنے انگریز افسران کی خواہشات کے برعکس) پرانے جنگی طیارے Spitfire 50 خریدنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ بھارت کے نئے Tempes طیارے خریدنے کے راستے میں بھی سب سے بڑی مزاحمتی دیوار بن گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں فضائیہ کے ایئر کموڈور کے عہدے سے ہٹا کر 1949ء میں اعلیٰ تربیت کی آڑ میں برطانیہ بھیج دیا گیا۔ جنوری 1951ء میں وہ پاکستان واپس آئے اور محض سات ہفتوں کے بعد فوجی بغاوت سے آئینی حکومت کا تختہ اُلٹ دینے کے الزام میں گرفتار کر لیے گئے۔ یہی تھا راولپنڈی سازش کیس! 1953ء میں ایم کے جنجوعہ صاحب کو سات سال قید کے ساتھ فوج سے برخاستگی کی سزا سنائی گئی تاہم تین سال قید بھگتنے کے بعد اپریل 1955ء میں وہ رہا ہو گئے۔
میں نے پہلی بار اُنہیں 1954ء میں سینٹرل جیل لاہور میں دیکھا‘ جہاں میرے فیصل آباد والے دوست اعجاز چشتی کے بھائی کی ضمانت کے بعد ہم اسے لینے گئے تھے۔ ہم لوگ جیل میں کاغذی کارروائی کا انتظار کر رہے تھے کہ ایک چست‘ تنومند شخص کمرے میں داخل ہوا اور بڑے افسرانہ انداز میں جیل حکام سے گفتگو کرنے لگا۔ جب وہ شخص دفتر سے چلا گیا تو ہم سب نے بیک زبان جیل حکام سے پوچھا کہ یہ کون صاحب تھے؟ بتایا گیا کہ یہ صاحب ایک قیدی ہیں اور وہ بھی راولپنڈی سازش کیس کے سزا یافتہ ۔ یہ پاک فضائیہ کے بڑے افسر رہ چکے ہیں اور قیدی ہونے کے باوجود نہ افسرانہ انداز بدلا ہے اور نہ ہی رویہ۔ یہ باتیں سن کر ان کا نام اور عکس ہمارے ذہنوں میں ہمیشہ کیلئے نقش ہو گیا۔
15 برس گزر گئے۔ 1968ء میں کسی کام سے میں لنکاشائر سے لندن گیا تو میزبان دوستوں نے لندن میں مقیم نمایاں سیاسی افراد کے بارے میں بتایا۔ اس وقت جنجوعہ صاحب پی آئی اے برطانیہ کی سربراہی سے ریٹائر ہو کر وسطی لندن میں ایک بڑی ٹریول ایجنسی میں کام کر رہے تھے۔ میں اگلے دن انہیں ملنے چلا گیا۔ آدھ گھنٹے ملاقات کا مجوزہ شیڈول آدھے دن پر محیط ہو گیا۔ تعارف‘ دوستی‘ گہری دوستی اور پدرانہ شفقت کا تعلق‘ جب میں نے رخصت لی تو اس ایک ملاقات میں یہ چاروں مراحل طے ہو چکے تھے۔
ایم کے جنجوعہ صاحب کے میرے اوپر اَن گنت احسانات ہیں۔ انہوں نے ہی لندن میں میری سید سجاد ظہیر سے ملاقات کرائی۔ میر علی احمد خان تالپور اور عبدالولی خان کی لنکاشائر میں میزبانی کا شرف بخشا۔ وہ خود بھی کئی بار خصوصی سفر کر کے ہمارے گھر آئے اور کئی دن تک مقیم رہے۔ 1975ء کے بعد میں لندن کے مضافات Slough میں شفٹ ہوا تو جنجوعہ صاحب سے ملاقات میں مزید آسانی ہو گئی۔ 13 برس بعد میرے سر پر سے ان کا مبارک سایہ اُٹھ گیا۔ انہوں نے 350 صفحات پر مشتمل اپنی خود نوشت سے بڑی تفصیل سے ہمیں وہ واقعات اور مسائل سمجھائے کہ جن کے سبب انہیں انگریز افسروں‘ (انگریز نواز) سیاسی قیادت اور اعلیٰ عہدیداروں کی مستقل مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ (اور ان کے ہم خیال افسران) پاکستان کو خود مختار اور مغربی بالادستی سے آزاد مملکت بنتا دیکھنا چاہتے تھے مگر اس فکر کے لوگ اقلیت میں تھے۔ مغرب نواز عناصر ان پرغالب آگئے اور پھر یہ غلبہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ آج 78 برسوں کے بعد قومی سفر کا حاصل کیا ہے‘ یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ محتاجی‘ زرعی عدم کفالت‘ افراطِ زر‘ بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ غربت اور بیروزگاری‘ آئی ایم ایف اور دوست ممالک کے قرضوں اور امداد پر چلتے چلتے ہم معاشی دیوالیہ پن کی سرخ لکیر کو عبور کرنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ جنجوعہ صاحب کی رائے میں 1948ء میں کشمیر کا مسئلہ اس وجہ سے تشنہ تکمیل رہا کہ اس کی حکمت عملی مغرب نواز قیادت مرتب کر رہی تھی۔ جنجوعہ صاحب کے پاس سیٹو اور سینٹو سمیت بہت سی ایسی مثالیں تھیں جو یہ ثابت کرتی تھیں کہ پاکستان کو مغرب کی نام نہاد دوستی کا فائدہ بہت تھوڑا ہوا جبکہ نقصانات پہاڑ جتنے بڑے تھے۔ جنجوعہ صاحب کے علاوہ جن فوجی افسران کو راولپنڈی سازش کیس میں سزا دی گئی‘ ان میں سے کیپٹن ظفر اللہ پوشنی اور میجر اسحاق محمد سے بھی کئی بار مفصل گفتگو کا موقع ملا۔ ان کا مؤقف بعینہٖ وہی تھا جو جنجوعہ صاحب کا۔ یعنی انہوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوئی سازش نہیں کی تھی۔ اشتراکی دانشوروں فیض احمد فیض اور سید سجاد ظہیر پر بھی اس سازش میں ملوث ہونے کا مقدمہ چلا تھا۔
ایم کے جنجوعہ نے Privileged Witness کے صفحہ 271 پر وہ کہانی ایک چشم دید گواہ کے الفاظ میں لکھی ہے جو زبان زد عام تو ہے مگر ثبوت موجود نہیں۔ ایک شام ماڑی پور (کراچی) میں جنجوعہ صاحب اپنے دو ماتحت افسروں کے ساتھ گاڑی میں گزرے تو انہوں نے سڑک کے کنارے ایک ایمبولینس کھڑی دیکھی۔ کسی نے ہاتھ ہلا کر انہیں رکنے کا اشارہ کیا۔ دیکھا کہ ایمبولینس میں قائداعظم (اپنی بہن کی گود میں سر رکھے) لیٹے تھے۔ اُنہیں ہوائی اڈے پر کوئی وزیر یا بڑا افسر لینے نہ گیا تھا۔ فضائیہ کو ان کی آمد کی کوئی خبر تک نہ تھی۔ اسی دن آدھی رات کو جنجوعہ صاحب کو فون پر قائداعظم کی وفات کی اطلاع ملی۔ اس حوالے سے بہت سی باتیں انہوں نے اپنی نجی محافل میں بھی بیان کیں مگر اس قومی سانحے پر آج تک جامع تحقیقات نہیں ہو سکیں۔
میں نے ڈیڑھ دہائی پر پھیلے ایم کے جنجوعہ سے اپنے قریبی تعلق میں انہیں ہمیشہ باحمیت‘ پُرعزم‘ جوش وولولہ سے بھرپور اور رجائیت پسند پایا‘ ماسوائے ان دنوں کے جب پہلی بیوی کے بطن سے ایک بچہ پیدا ہوا اور وہ حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے غیر متوقع طور پر وفات پا گیا۔ اس غم نے انہیں نڈھال کر دیا تھا۔ مضمون نگار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے جنجوعہ صاحب کے کہنے پر 1970ء میں ان کی خود نوشت کا اُردو ترجمہ کیا تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved