تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     12-11-2025

کابل سے اسلام آباد تک

ایسے حالات میں کہ جب ہر طرف جنگ و جدل کا ماحول بنا ہوا ہو اور آپ کو کچھ سمجھ نہ آ رہی ہو کہ باقی دنیا کو چھوڑیں‘ آپ کے اپنے خطے میں کیا ہو رہا ہے یا کیا ہونے والا ہے‘ تو میجر (ر) عامر کے گھر پر ایک غیرمعمولی اکٹھ بہت مفید ثابت ہوا۔
میجر عامر کا حجرہ کہیں یا گھر‘ اسلام آباد میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ زندگی میں تین چار بندے ایسے دیکھے ہیں جو اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک ان کے ساتھ میز پر آٹھ دس دوست نہ ہوں۔ نوے کی دہائی میں ملتان میں چودھری نیاز صاحب کا ایک شو روم تھا جہاں ان کے بیٹے سعود نیاز کے آٹھ دس دوست جب تک لنچ پر نہ آتے‘ انہیں کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا۔ اکثر ایسا بھی ہوتا کہ گھر سے آنے والا کھانا دوستوں کے کھانے کے بعد وہ باپ بیٹا اپنے لیے سامنے ہوٹل سے منگوا کر کھانا کھاتے۔
اسلام آباد آیا تو یہاں ڈاکٹر ظفر الطاف کو دیکھا جن کے دستر خوان پر جب تک دس بارہ لوگ نہ ہوتے وہ نوالہ بھی نہ کھاتے۔ اپنی نگرانی میں روزانہ کھانا اور سُوپ پکواتے اور ایک ایک دوست کی پلیٹ میں سالن ڈالتے۔ خود آخر پر کھانا لیتے۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا دوستوں کے جانے کے بعد وہ اپنے لیے انڈا آلو بنوا کر کھاتے کیونکہ پکا ہوا سالن کسی نئے مہمان کے حصے میں چلا جاتا۔ وہ خدا کا شکر کرتے کہ آج اتنے دوستوں کے ساتھ کھانا کھایا۔ یہ سلسلہ‘ جب تک وہ زندہ رہے‘ میں نے اٹھارہ برس تک ڈاکٹر ظفر الطاف کی میز پر ہر روز دیکھا ۔یاد آیا کہ کسی دوست کے پوچھنے پر ایک بار جواب دیا تھا کہ اگر زندگی دوبارہ ملی اور چوائس دیا گیا کہ ساری عمر صرف ایک دوست کی سہولت ہو گی تو میں ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ڈاکٹر ظفر الطاف کا نام لوں گا کہ ان جیسا انسان ہو تو ایک ہی دوست کے ساتھ پوری زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ وہ ایک نہیں درجنوں خوبیوں کے مالک تھے اور میں نے زندگی میں جہاں نعیم بھائی‘ رانا اعجاز محمود جیسے دوستوں سے سیکھا وہیں ڈاکٹر ظفر الطاف میں بے پناہ خوبیاں دیکھیں اور کچھ سیکھنے اور عمل کرنے کی کوشش بھی کی۔ یقینا خامیاں بھی ہوں گی لیکن مجھے ان کے اندر خوبیاں ہی خوبیاں نظر آئیں۔ ایک بڑا آدمی‘ ایک بڑے ظرف والا بڑا انسان جس نے ہر اس بندے کو متاثر کیا اور فیض پہنچایا جو اُن کی چھاؤں تلے آیا‘ چاہے کچھ دیر ہی کیوں نہ بیٹھا ہو۔
اس طرح بڑے دل اور بڑے دستر خوان کا مالک ارشد شریف کو پایا جس کے دستر خوان پر درجن بھر دوست ہوتے تھے۔ وہ بھی دوستوں پر خرچ کرکے خوش رہتا تھا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کی وفات کے بعد جو بڑا خلا میری زندگی میں آیا‘ وہ ارشد کی محفلوں کی وجہ سے کچھ کم ہوا لیکن جب ارشد شریف بھی چلا گیا تو اسلام آباد کی شامیں اداس اور تنہا ہو گئیں۔ رہی سہی کسر سینیٹر انور بیگ کی وفات نے پوری کر دی۔ وہ بھی اپنے گھر پر دوستوں کی دعوتوں اور گپ شپ کیلئے پورے شہر میں مشہور تھے۔ اب میجر عامر کا گھر اور وہاں جیسا دستر خوان شاید پورے شہر میں نہ ہو۔ وہ اگر ایک بندے کو بھی مہمان بنا کر بلائیں گے تو کھانا درجن بھر کیلئے تیار ہوگا۔ ان کے ہاں بھی اکیلے کھانے کا رواج نہیں ہے۔ ایک پٹھان کے دستر خوان پر ہر وقت ہجوم رہتا ہے اور ان کا بیٹا عمار اس کام پر مامور ہے کہ سب کو کھانا پیش کرے۔ لیکن اس دفعہ ان کے گھر پر جو محفل جمی وہ حیران کن طور پر آٹھ بجے سے شروع ہو کر رات تین بجے تک چلی اور کسی کو احساس ہی نہ ہوا کہ اتنا وقت گزر گیا۔ اس محفل میں مشاہد حسین سید‘ سلیم صافی‘ حسن خان‘ طاہر خان‘ طارق پیرزادہ‘ ولید اقبال‘ سینیٹر جاوید عباسی‘ عامر اور دیگر مہمان شامل تھے۔ اس دفعہ کچھ افغان مہمان بھی تھے جن سے موجودہ حالات کو بہت کچھ سمجھنے کا موقع ملا۔ اس محفل میں باتیں سنتے ہوئے مجھے ڈان اخبار میں قریب ایک دہائی قبل چھپنے والے ایک مضمون کا متن یاد آ گیا۔ پاکستان کے پانچ سابق سیکرٹری خارجہ نے ایک مشترکہ مضمون لکھا تھا جو اخبار کے پہلے صفحے پر چھپا تھا۔ وہ مضمون پاکستان کی طالبان پالیسی پر تھا۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ اس اہم مضمون میں ان سابق سیکرٹریز خارجہ نے ایک سوال پوچھا تھا کہ آخر ہم نے ان برسوں میں افغانستان میں پشتون طالبان کے علاوہ دیگر اقوام جن میں تاجک‘ ازبک‘ ہزارہ وغیرہ اور دیگر پڑھے لکھے اور باشعور طبقات شامل ہیں‘ کے ساتھ خود کو انگیج کیوں نہیں کیا؟ ہم نے کیوں سارے انڈے قدیم دور میں زندہ طالبان کی ٹوکری میں ڈال دیے؟ ہم نے ساری سرمایہ کاری صرف ان قوتوں پر کیوں کی جو جدید زمانے سے ہزاروں سال پیچھے ہیں؟ مجھے وہ مضمون یاد آنے کی وجہ ان دو تین مہمانوں کی گفتگو تھی جنہیں سن کر احساس ہوا کہ شاید ہم نے طالبان سے ہٹ کر دوسرے طبقات کو اہمیت نہ دے کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ شاید ہم سمجھ بیٹھے تھے کہ طالبان ساری عمر ہمارے وفادار رہیں گے۔ یہ صاحبان جو حامد کرزئی اور اشرف غنی ادوار میں اہم عہدوں پر رہے‘ نے جو گفتگو کی وہ پاکستان کے لحاظ سے بہت اہم تھی۔ اگرچہ میجر عامر خود فوج سے ریٹائرڈ ہیں لہٰذا انہوں نے چند باتوں پر مسکرا کر اتنا کہا کہ پھر آپ کی باتوں کا جواب دینے کیلئے ہمیں کابل آنا پڑے گا کیونکہ یہاں آپ مہمان ہیں اور ہم میزبان۔ میجر عامر کا مطلب یہ تھا کہ سچے تو حامد کرزئی اور اشرف غنی بھی نہیں تھے لیکن اب یہ موقع نہیں ہے کہ ان ایشوز پر یہاں بات کی جائے لہٰذا کبھی کابل آپ کے گھر آنے کا موقع ملا تو وہیں بات ہو گی۔
پاکستان‘ بھارت اور افغانستان ایشوز پر کھل کر بات ہوئی اور بڑے تحمل سے بات سنی اور سنائی گئی۔ مشاہد حسین سید‘ پشتون صحافی دوست حسن خان اور دیگر نے اچھے سوالات پوچھے اور جوابات بھی اہم تھے۔ ایک چیز ہم سب نے محسوس کی کہ شاید پاکستان کو اب احساس ہو رہا ہے کہ ہم نے طالبان کی ٹوکری میں اپنے سارے انڈے رکھ کر سمجھداری نہیں دکھائی لہٰذا جو بات ان سیکرٹریز خارجہ نے آج سے دس سال پہلے کی تھی‘ اس کا مفہوم اور مطلب اب سمجھ آ رہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے علاوہ بھی کچھ اقوام رہتی ہیں‘ پاکستان کو ان سے بھی رابطہ رکھنا چاہیے تھا‘بہت سے پروگریسو پشتون قبائل بھی افغانستان میں رہتے ہیں جو طالبان کی فلاسفی کے مخالف ہیں‘ انہیں اب شاید انگیج کیا جارہا ہے۔ شاید اس خطے میں کچھ مزید تبدیلیوں پر کام ہو رہا ہے اور پاکستان بڑی تیزی سے افغانستان میں اپنی سوچ اور اپروچ کو 180ڈگری پر بدلنے کا سوچ رہا ہے بلکہ سوچ چکا ہے۔ بھارت کے ہمیشہ افغانستان میں مفادات رہے ہیں کیونکہ اسے لگتا ہے کہ پاکستان کا کابل پر مکمل کنٹرول ہو گیا تو پاکستان بھارت کیلئے مشرقی سرحدوں پر مسئلہ پیدا کرے گا‘ جبکہ پاکستان کو ہمیشہ لگتا کہ اگر افغانستان ہمارے زیر اثر رہا تو ہم مشرقی بارڈر پر جنگ لڑ سکتے ہیں‘ یوں دونوں ملکوں کی جنگ کی قیمت افغان دے رہے ہیں۔ میجر عامر اور دیگر اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا ماننا ہے کہ طالبان سے پہلے بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان کبھی آئیڈیل تعلقات نہیں رہے خصوصاً ڈیورنڈ لائن کے ایشو کو لے کر۔ افغانستان ہمیشہ ڈیورنڈ لائن کو لے کر پاکستانی پشتونوں کو Exploit کرتا رہا ہے۔ میجر عامر تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ان کا بس چلے تو وہ خیبرپختونخوا میں ریفرنڈم کرا دیں کہ ہم ڈیورنڈ لائن ختم کر رہے ہیں‘ کون کون افغان شہری بننا چاہتا یا افغانستان میں شامل ہونا چاہتا ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ شاید ایک بھی پاکستانی پشتون اس حق میں ووٹ نہ دے جبکہ افغانوں کی اکثریت پاکستان کے ساتھ ملنا پسند کرے گی۔
بہت باتیں ہوئیں اور بہت کچھ سننے اور سمجھنے کا موقع ملا لیکن ایک بات طے ہے کہ شاید اس خطے میں کچھ تبدیلیاں آنے والی ہیں۔ طالبان کا اقتدار خطرے میں نظر آ رہا ہے۔ پاکستان‘ جو طالبان کے آنے پر خوش تھا‘ اب پچھتا رہا ہے۔ سنا ہے کہ کچھ بڑے لوگ اس پچھتاوے کا کفارہ ادا کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved