حربی حالات وضروریات کے پیش نظر تمام فورسز کے درمیان تعاون بڑھانے کے لیے دفاعی کمان اینڈ کنٹرول سٹرکچر میں تبدیلی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ اس تبدیلی کی دیگر تفصیلات کا ہمیں علم نہیں اس لیے ہم اس معاملے میں مزید لب کشائی نہیں کر سکتے۔پیر‘ دس نومبر کو سینیٹ میں حیرت زدہ آئین کھڑا تَک رہا تھا اور دستورِ پاکستان شق وار بدلا بلکہ دوبارہ تحریر کیا جا رہا تھا۔ آج (بدھ کو) یہی کارروائی قومی اسمبلی میں دیکھنے کو ملے گی۔ ہمارے سول حکمران عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آنے کے دعویدار ہیں اور فخریہ خادمِ عوام کہلاتے ہیں‘ پھر وہ عوام کے سامنے جوابدہی سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں کہ اپنے گرد طرح طرح کی فصیلیں چُن رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح وہ خود کو عوامی وقانونی محاسبے سے محفوظ کر لیں گے؟ اگر انہوں نے تاریخ عالم کا نہ سہی‘ اپنی پاکستانی تاریخ کا ہی مطالعہ کیا ہوتا تو بقول ڈاکٹر خورشید رضوی اُن پر یہ حقیقت آشکار ہوتی کہ:
سیل کو دیوار و در سے واسطہ کوئی نہیں
27ویں آئینی ترمیم میں عدالتی نظام کو حکومت کے ماتحت لانے کیلئے ہر وہ حربہ استعمال کیا گیا ہے جو آزاد عدلیہ کے تصور سے متصادم ہے۔ سپریم کورٹ کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین نے بالواسطہ اور بلاواسطہ فراہمیِ انصاف کیلئے ہر ممکن منصفانہ اختیار دیا تھا۔ 26ویں آئینی ترمیم بھی رات کی تاریکی میں لائی گئی تھی اور جب وہ ایوان میں میزوں پر سما دی گئی اُس وقت تک معزز قانون سازوں کو علم نہ تھا کہ اس بند کتاب میں کیا ہے۔ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ بس آپ نے ہاتھ کھڑے کرنے ہیں۔ اگرچہ 26ویں ترمیم میں ہی آئین کے ڈھانچے میں چھیڑ خانی کی گئی تھی‘ جج صاحبان سے عدالتی بینچ تشکیل دینے کا اختیار واپس لے کر حکومت نے اپنی مرضی کا ایک آئینی بینچ بھی تشکیل دے دیا تھا مگر حکمرانوں کے اندر کا خوف پھر بھی ختم نہ ہوا۔ اس خوف کے خاتمے کیلئے انہوں نے بلاضرورت اندر خانے عدالتی نظام کو تہ وبالا کرنے کا پروگرام ترتیب دے ڈالا۔ ہم آئینی عدالت کی تشکیل اور اس کے دائرہِ کار وغیرہ کے بارے میں تفصیلی گزارشات سے پہلے استثنائی اختیارات کے بارے میں کچھ عرض کر دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ جہاں تک تاحیات استثنا کا تعلق ہے تو یہ بقول حافظ نعیم الرحمن نہایت افسوسناک ہی نہیں شرمناک بھی ہے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے علی الاعلان فرمایا کہ صدر کا دورانِ صدارت استثنا بھی خلافِ شرع ہے‘ اور اب تاحیات ہر جرم سے آزادی انتہا درجے کی قانون شکنی ہے۔ اسلام میں کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی عدالتی کارروائی سے ماورا نہیں۔ اس طالبعلم نے مفتی منیب الرحمن صاحب سے فون پر دریافت کیا کہ کیا خلفائے راشدین کو اس طرح کا استثنا حاصل تھا؟ انہوں نے فرمایا: ہرگز ایسا نہ تھا۔ خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروقؓ سے بھرے مجمع میں ایک شخص نے پوچھا کہ عمر! بیت المال سے سب کو ایک ایک چادر ملی تھی‘ ماشاء اللہ آپ تو طویل القامت ہیں‘ آپ کا کُرتا تو دو چادروں سے کم میں نہیں بنتا‘ تو آپ نے دو چادریں کیوں لیں؟ اس پر اُن کے صاحبزادے نے وضاحت کی کہ انہوں نے اپنی چادر اپنے والد کو دے دی تھی۔ اسی طرح کی اور بہت سی مثالیں ہیں۔ لہٰذا صدر کا تاحیات استثنا اسلامی روایات اور معاصر دنیا کی مثالوں سے یکسر متصادم ہے۔ پیپلز پارٹی کو یہ الزام اپنے سر ہرگز نہیں لینا چاہیے تھا۔
افسوسناک بات تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران دیارِ مغرب کی عدالتوں کی قصیدہ خوانی کرتے ہیں مگر اپنے ملک کی اعلیٰ عدالتوں کو اپنے گھر کی لونڈی بنانے پر ہرگز شرمسار نہیں ہوتے۔ ہمیں بلاول بھٹو زرداری سے بڑی اُمیدیں تھیں‘ وہ آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ہیں‘ برطانیہ میں برسوں مقیم رہے ہیں اور اپنی آنکھوں سے قانون کی حکمرانی‘ جمہوریت کی سربلندی اور غیر تحریر شدہ آئین یا آئینی روایات کی پاسداری اور بالادستی کے نظارے بچشم خود دیکھتے رہے ہیں مگر اندر سے وہ بھی فیوڈل لارڈ نکلے۔ عدالتوں کو پابہ زنجیر کرنے والے اقدامات سے پیپلز پارٹی نے اپنے سیاسی مستقبل پر کلہاڑی چلائی ہے۔ بہرحال بلاول بھٹو زرداری کو اپنے نانا کے بنائے ہوئے آئین کا یہ حشر قبول نہیں کرنا چاہیے تھا۔
حکمران عوام سے بالا بالا آپس میں اختیارات کا لین دین کر رہے ہیں‘ پارلیمنٹ کو محض ربڑ سٹمپ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کو وزیراعظم شہباز شریف خود مقرر کریں گے اور پھر ان کے ''مشورے‘‘ سے دیگر چھ ججز کا تقرر کریں گے۔ اس پر صدر محترم رسمی دستخط ثبت کریں گے۔ سپریم کورٹ کے تمام اختیارات وزیراعظم کی منشا کے مطابق مقرر کردہ آئینی عدالت کی جھولی میں ڈال دیے جائیں گے۔ وزیراعظم کا خیال ہو گا کہ اس کے بعد ہر طرف چین ہی چین ہوگا۔
ایں خیال است و محال است و جنوں
تحریکِ تحفظِ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر پُرامن تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ تحریک کا نعرہ حبیب جالب کا یہ مصرع ہوگا: ایسے دستور کو‘ صبح بے نور کو میں نہیں مانتا‘ میں نہیں جانتا۔ اس قوم کی قسمت دیکھیے کہ نصف صدی کے بعد بھی وہیں کھڑی ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973ء کے آئین میں سپریم کورٹ کے اختیارات اور اس کا دائرہ کار بڑے واضح انداز میں بیان کیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 175 میں عدالتوں کو انتظامیہ سے بالکل الگ کیا گیا تھا۔ آرٹیکل 176 میں سپریم کورٹ سٹرکچر کو واضح کیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 184(3)میں پاکستان کے شہریوں کے آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے تحفظ اور اُن کی حقیقی روح کے مطابق تنفیذ کی ذمہ داری بھی سپریم کورٹ کو سونپی گئی تھی۔ ہمارے مہربان دانشور دوست مرحوم سینیٹر عرفان صدیقی (اللہ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے‘ آمین) چند ماہ قبل ڈنمارک گئے تو عالمی عدالتی رینکنگ میں نمبر وَن سپریم کورٹ کی تشکیل اور ورکنگ کا انہوں نے قابلِ رشک منظر یوں پیش کیا تھا: ''معلوم ہوا کہ ججوں کے انتخاب میں ڈنمارک کے بادشاہ‘ پارلیمنٹ اور حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں۔ سارا کام سپریم کورٹ خود کرتی ہے۔ گویا سپریم کورٹ خودکار بھی ہے اور خودمختار بھی‘‘۔روُل آف لاء انڈیکس میں 143ممالک میں ہمارا 130واں نمبر ہے۔ اب سارے عدالتی نظام کو انتظامیہ کی تحویل میں دینے سے ہماری عدالتی رینکنگ دیکھیے کہاں جا کر ٹھہرتی ہے۔ ویسے یہاں عدالتی ریٹنگ اور رینکنگ کی فکر کس کو ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے 27ویں ترمیم کے بارے میں چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک خط لکھا ہے‘ جس میں کہا ہے کہ یہ لمحہ آپ سے لیڈرشپ دکھانے کا تقاضا کرتا ہے۔ تاریخ خاموش رہنے والوں کو نہیں آئین کی سربلندی کیلئے کھڑے ہونے والوں کو یاد رکھتی ہے۔
اصل ایشوز کو چھوڑ کر نجانے ہمارے حکمران اپنی تمام تر حکومتی طاقت اور صلاحیت ان ایشوز پر کیوں صرف کر رہے ہیں۔ ایک حالیہ بین الاقوامی کانفرنس میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے پاکستان کو بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی‘ موسمیاتی تبدیلیوں‘ کم ہوتے ہوئے قدرتی وسائل اور لڑکھڑاتی ہوئی مقروض معیشت کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ 25 کروڑ کی آبادی میں تقریباً 11 کروڑ خطِ غربت سے نیچے یعنی دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں۔ یہ ہیں ہمارے اصل ایشوز جن کے حل کیلئے سیاسی ومعاشی استحکام اور ساری قوم کا اتحاد ضروری ہے۔لگتا یوں ہے کہ ہمارے حکمران دل ہی دل میں بہت خوفزدہ ہیں۔ اُن کا اپنے اوپر اعتماد نہیں۔ حکمران آئین کا حلیہ بگاڑ رہے ہیں اور آئین کھڑا اُن کا منہ تک رہا ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved