پاکستان ایک بار پھر آئینی بھٹی میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ ملک جیسے کسی مستقل لیبارٹری میں بدل چکا ہے جہاں ہر چند برس بعد کوئی نیا فارمولا تیار ہوتا ہے اور عوام کو بتایا جاتا ہے کہ اب یہی نسخہ ریاست کو سنبھالے گا۔ ستائیسویں آئینی ترمیم اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے‘ ایک اور جراحی‘ جس کے نشتر اس بار سیاست‘ عدلیہ‘ معیشت اور وفاقی ڈھانچے سب پر چلنے والے ہیں۔ طاقت کے محور بدلنے کی کوششیں‘ اداروں کے درمیان نیا توازن اور آئینی شقوں کے نئے مفاہیم‘ یہ سب مل کر ایک نئے بحران کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ ترمیم محض قانونی عبارت نہیں بلکہ ریاستی طاقت کے بہاؤ میں ایک گہرا موڑ ہے۔ دیگر اہم معاملات کی طرح عدلیہ کے ڈھانچے میں جو تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں‘ وہ ماضی کے تمام آئینی تجربات سے زیادہ سنگین نتائج کی حامل دکھائی دیتی ہیں۔ اس ترمیم کے تحت ایک نئی وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی جو آئینی تنازعات‘ وفاق و صوبوں کے اختلافات اور بنیادی حقوق کے مقدمات کیلئے واحد سماعتی فورم بنے گی۔ حکومت کے بقول اس سے انصاف میں شفافیت اور یکسانیت آئے گی لیکن بعض وکلا‘ آئینی ماہرین اور سابق جج حضرات اسے عدلیہ کی آزادی پر کاری ضرب قرار دے رہے ہیں کیونکہ اسی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے آرٹیکل 184(3) یعنی ازخود نوٹس کے اختیار کو محدود کر کے آئینی عدالت کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ یہی وہ اختیار تھا جس کے تحت سپریم کورٹ نے کئی بار حکومتوں کو آئینی دائرے میں رہنے پر مجبور کیا‘ انسانی حقوق کے کیس نمٹائے گئے اور طاقتوروں کے احتساب کی راہیں کھلیں‘ اب یہ دروازہ بند کیا جا رہا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس میں اپیل کا حق نہیں ہوتا تھا‘ لہٰذا یہ قدم انصاف کے نظام میں توازن لانے کیلئے اٹھایا گیا ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ توازن ہے یا ترازو کا پلڑا بدلنے کی کوشش؟ ایک انتہائی اہم سوال یہ ہے کہ اس ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے پاس کیا ہائیکورٹ سے بھی کم اختیارات رہ جائیں گے؟ موجودہ ڈھانچے میں ہائیکورٹس آئینی‘ انتظامی اور حکومتی معاملات کے خلاف درخواستیں سننے کا اختیار رکھتی ہیں‘ لیکن اب ایک طرف سپریم کورٹ ہو گی‘ دوسری طرف آئینی عدالت۔ ترمیم کے مطابق عائلی اور سول معاملات سپریم کورٹ کے دائرہ کار میں آئیں گے جبکہ تمام آئینی‘ قانونی اور عوامی مفاد کے معاملات آئینی عدالت کو منتقل کر دیے جائیں گے؛ یعنی سپریم کورٹ‘ جو ماضی میں ریاست کے سب سے طاقتور اداروں میں شمار ہوتی تھی‘ اب محض ایک اپیلٹ کورٹ کے طور پر باقی رہ جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ پھر سپریم کورٹ کا آئینی مقام کیا رہ جائے گا؟ وہ عدالت جو 1956ء کے آئین میں فیڈرل کورٹ کے طور پر متعارف ہوئی‘ 1973ء کے آئین میں اعلیٰ عدلیہ کے سب سے مقدس ادارے کی صورت میں ابھری اور جسے وقت کے ساتھ کئی تاریخی فیصلوں نے طاقت بخشی‘ اب اسی عدالت کو اختیارات سے محروم کر دیا جائے گا۔ یوں لگتا ہے جیسے تاریخ الٹا سفر کر رہی ہے۔ ایک ایسا ادارہ جو کبھی آئینی تشریح کا مرکز تھا اب آئینی عدالت کے زیر سایہ کام کرے گا۔ عدلیہ کے اندر یہ تقسیم نہ صرف ادارہ جاتی انتشار پیدا کرے گی بلکہ انصاف کے عمل میں مزید تاخیر کا سبب بنے گی۔ ایک عام شہری کو اب یہ سمجھنے میں ہی برسوں لگ جائیں گے کہ اس کا مقدمہ کس عدالت میں جانا چاہیے۔
اسی طرح الیکشن کمیشن کی تشکیل میں بھی ایک متنازع طریقہ کار متعارف کرایا جا رہا۔ اگر حکومت اور اپوزیشن مشاورت میں ناکام ہو جائیں تو حکومت خود ہی چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کر سکے گی۔ بظاہر تو یہ تعیناتی کا عمل تیز کرنے کی کوشش ہے مگر اصل میں انتخابی ادارے کو سیاسی اثر میں لانے کی ایک نئی سبیل ہے۔ اپوزیشن اسے 2028ء کے انتخابات سے پہلے سیاسی انجینئرنگ کا آئینی راستہ سمجھتی ہے۔ سب مل کر ایک ایسے آئینی نقشے کی تشکیل کر رہے ہیں جہاں طاقت کی تمام لکیریں ایک مرکز کی طرف سمٹتی جا رہی ہیں۔ قبل ازیں ملک کے آئین میں 26 ترامیم ہو چکی ہیں۔ ان ترامیم سے کبھی پارلیمان طاقتور ہوئی‘ کبھی عدلیہ‘ کبھی ایوانِ صدر لیکن نقصان میں ہمیشہ عوام رہے ہیں۔ آئین کے دیباچے میں لکھا ہے کہ طاقت عوام سے ماخوذ ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ عوام کو طاقت کا سر چشمہ نہیں بلکہ تماشائی بنایا گیا۔ آئین میں ہونے والی کوئی ترمیم یہ نہیں بتاتی کہ انصاف کب سستا اور بروقت ہو گا؟ ضلعی عدالتوں میں برسوں سے زیرِ التوا مقدمات کیسے ختم ہوں گے؟ پراسیکیوشن کا نظام کیسے بہتر ہو گا؟ آبادی کا دباؤ کیسے قابو میں لایا جائے گا؟ نئے صوبے کب بنیں گے تاکہ عوامی مسائل مقامی سطح پر حل ہوں؟ یہ سوال کسی آئینی ترمیم میں جگہ نہیں پاتے کیونکہ آئینی سیاست کا محور عوام نہیں‘ اختیار ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ 28ویں ترمیم پہلی ترامیم سے بھی زیادہ سخت ہو گی۔ جو نکات آج مبہم رکھے گئے ہیں‘ وہ کل واضح لکھ دیے جائیں گے۔ یہی ہمارا آئینی ماڈل ہے‘ پہلے آزمائش‘ پھر فیصلہ۔ طاقت کے یہ کھیل بار بار دہرائے جا تے ہیں کہ آئین کا اصل مقصد عوامی فلاح نہیں بلکہ ادارہ جاتی برتری بن گیا ہے۔
سوال مگر آج بھی وہی ہے جو پچاس سال پہلے تھا‘ طاقت کا اصل مرکز کہاں ہے؟ اسلام آباد کے ایوانوں میں‘ عدلیہ کے کسی کمرے میں یا اُن آئینی شقوں میں جو ہر دہائی بعد نئی شکل اختیار کر لیتی ہیں؟ یا پھر کہیں اور؟ ستائیسویں ترمیم محض ایک قانونی تبدیلی نہیں‘ یہ آئینی تاریخ کا رخ بدلنے والا ایک موڑ ہے۔ اس سے عدلیہ دو متوازی حصوں میں تقسیم ہو جائے گی ایک علامتی‘ ایک مؤثر۔ اور شاید پہلی بار عدالت عظمیٰ محض نام کی ''عظیم‘‘ رہ جائے گی۔ مجھے یہ جملہ بار بار یاد آتا ہے کہ ہم وہ قوم ہیں جو اپنے اداروں کو خود کمزور کرکے پھر ان کی عظمت پر تقریریں کرتے ہیں۔ ملک کی آئینی کہانی طاقت کے کھیلوں سے لبریز ہے‘ لیکن اس کے مرکزی کردار‘ عوام اب بھی منظر سے غائب ہیں۔ اور شاید یہی اس ترمیم کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اس سارے کھیل میں اہم عہدوں پر بیٹھی شخصیات‘ سیاستدان‘ وکلا‘ بیورو کریٹ‘ تاجر سب ایک جیسے ہو گئے۔ کسی کے ماتھے پر شرم کا پسینہ اور زبان پر حرفِ احتجاج نہیں۔ نہ کسی کو عوام کی فکر‘ نہ ملک کے خزانے کی لوٹ مار کا احساس۔ ہر شخص اپنی پرانی تنخواہ‘ اپنے پرانے مفاد‘ اپنی پرانی کرسی سے چپکا ہوا ہے‘ جیسے یہی بقا کا واحد طریقہ ہو۔ کوئی سچ بولنے‘ قدم بڑھانے کو تیار نہیں‘ سب کے ضمیر ایسے خاموش ہیں جیسے کسی نے اجتماعی طور پر ان کی ریڑھ کی ہڈی نکال دی ہو۔ یہ وہ طبقہ ہے جو خود کو ملک کا دماغ کہتا ہے‘ مگر آج پورا جسم بے حس پڑا ہے اور عوام پھر بھی پوچھ رہے ہیں ''کیا کوئی زندہ بھی ہے یہاں؟‘‘۔
اسلام آباد میں ہونے والے خودکش دھماکے کی بات کی جائے‘ تو یہ ایک منظم‘ پیشگی منصوبہ بندی کا حصہ معلوم ہوتا ہے جس کی ڈور کابل اور دہلی سے ہلائی گئی۔ صبح ہی سے افغان سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ''Coming soon Islamabad‘‘ جیسی ٹویٹس کا منظرنامہ اور صبح چھ بج کر 45 منٹ پر طالبان سے منسلک ہینڈلز کی کھلی دھمکیاں واضح اشارے ہیں کہ دشمن نے نہ صرف حملے کی نفسیاتی تیاری کی بلکہ اس کی تشہیر بھی کی۔ ''آماج نیوز‘‘ اور ''خراسان العربی‘‘ جیسے پروپیگنڈا ہینڈلز نے ایسے پیغامات نشر کیے جو اس کارروائی کی ملی بھگت کا عندیہ دیتے ہیں‘ حتیٰ کہ فوجی پریڈ کے دوران لاہور پر افغان جھنڈا لہرانے اور اسلام آباد جلانے کے بیانیے بھی سامنے آئے۔ یہ محض دہشت گردی نہیں بلکہ ایک منظم بین الاقوامی سازش ہے‘ ریاست کو اس کا جواب پوری قوت کے ساتھ دینا ہو گا۔ افغانستان سے سفارتی تعلقات معطل کرنا‘ مالیاتی ذرائع منجمد کرنا‘ پروپیگنڈا چینلز کی بندش‘ سکیورٹی و دفاعی اداروں کو سخت کارروائی کی پوری آزادی دے کر دہشت گردوں کے سرپرستوں کا معاشی‘ قانونی اور سیاسی استیصال یقینی بنانا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی بھی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ کر سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved