تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     13-11-2025

سرسیّد‘ مکتبِ فراہی اور جمہور علما

احادیث کے عنوان سے اس امت کی علمی روایت میں جو کچھ محفوظ ہے‘ اس کے مطالعے کیلئے مسلمانوں نے ایک علم‘ علمِ حدیث تخلیق کیا۔ یہ اس لیے تھا کہ کوئی غیر مصدقہ بات نبیﷺ سے منسوب نہ ہو جائے۔ جس ہستی کا مقام یہ ہو کہ دین کے باب میں صرف اسی کا فرمایا مستند ہو‘ یہ احتیاط لازم تھی۔ روایات کی صحت کو جانچنے کیلئے انہیں دو حوالوں سے پرکھا گیا۔ ایک سند یعنی روایت اور دوسرا نفسِ مضمون یعنی درایت۔ روایت میں راویوں کی ثقاہت‘ فقاہت‘ تعداد اور بعض دوسرے پہلوئوں کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ عام قاری کیلئے صرف اتنی بات کفایت کرے گی کہ راویوں کی تعداد کے حوالے سے احادیث کی دو اقسام ہیں: خبرِ واحد اور خبرِ متواتر۔ احادیث کی کم وبیش تمام روایات اخبارِ آحاد ہیں۔ خبرِ واحد اس روایت کو کہتے ہیں جسے ایک‘ دو یا چند راوی بیان کریں۔ خبرِ متواتر وہ ہے جس کو روایت کرنے والوں کی تعداد‘ ہر دور میں اتنی ہو کہ ان کا کسی جھوٹ پر متفق ہونا محال ہو۔ اخبارِ آحاد کے بارے میں فقہا وعلماکا مؤقف ہے کہ ان سے علمِ یقین نہیں ملتا‘ صرف علمِ ظن حاصل ہوتا ہے اور ظن سے عقیدہ وایمان ثابت نہیں ہوتا۔ اس کیلئے علمِ یقین ضروری ہے اور یہ تواتر سے ملتا ہے جو قرآن اور سنت میں پایا جاتا ہے۔
سنت کے باب میں جاوید غامدی صاحب کا مؤقف میں پہلے بیان کر چکا۔ اب دیکھیے خبرِ واحد کے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں: ''حدیث کی حجت ہر اس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد‘رسول اللہﷺ کے قول وفعل یا تقریر وتصویب کی حیثیت سے اسے قبول کر لیتا ہے۔ اس سے انحراف پھر اس کیلئے جائز نہیں رہتا بلکہ یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپﷺ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اس میں بیان کیا گیا ہے اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے‘‘ (میزان‘ ص: 15)۔
سنت اور حدیث کے باب میں‘ یہ مکتبِ فراہی کا مؤقف ہے۔ اب تک چار باتیں واضح ہو گئیں۔ ایک یہ کہ دین قرآن وسنت کا نام ہے۔ سنت مستقل بالذات احکام کا ماخذ ہے۔ دوسری بات یہ کہ قرآن وسنت‘ دونوں اس امت کو تواتر کے ساتھ نسل درنسل منتقل ہوئے ہیں۔ اس لیے نبیﷺ سے ان کی نسبت کے بارے میں کوئی شک اور ابہام نہیں۔ یہ دونوں صحیح بخاری ومسلم کے مرتب ہونے سے پہلے بھی موجود تھے اور ان کی صحت کا انحصار کتبِ حدیث پر نہیں‘ تواتر پر ہے۔ تیسری بات یہ کہ احادیث یعنی اخبارِ آحاد سے چونکہ علمِ یقین نہیں حاصل ہوتا‘ اس لیے عقیدے کی بنیاد احادیث پر نہیں رکھی جا سکتی۔ اس بات کو جاوید صاحب نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ''رسول اللہﷺ کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کے اخبارِ آحاد‘ جنہیں بالعموم 'حدیث‘ کہا جاتا ہے‘ ان سے دین میں کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ نہیں ہوتا‘‘۔ چوتھی بات یہ کہ ایک صاحبِ علم تحقیق کے بعد‘ اگر اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ کسی روایت یعنی خبرِ واحد کی نسبت نبیﷺ سے ثابت ہے تو اس کیلئے اس پر عمل کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک عالم کی تحقیق ہے کہ نبیﷺ نے نماز میں رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفعِ یدین کیا تھا تو اس کیلئے اس پر عمل لازم ہے اور اگر کسی کا نتیجۂ تحقیق یہ ہے کہ نہیں کیا تھا تو اس پر عمل کرے۔
مکتبِ فراہی کے اکابر نے یہ مؤقف تکرار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ میں صرف دو حوالوں پر اکتفا کروں گا۔ 'رسائل فی علوم القرآن‘ میں امام فراہی نے لکھا: ''نبیﷺ کا قول مستقل بالذات ہے‘ خواہ وہ کتاب اللہ سے مستنبط ہو یا مستنبط نہ ہو۔ یہ مسلمہ امر ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں‘‘۔ امام امین ا حسن اصلاحی نے لکھا ''سنت مثلِ قرآن ہے۔ سنت اپنے ثبوت میں بھی ہم پلہ قرآن ہے۔ اس لیے کہ قرآن امت کے قولی تواتر سے ثابت ہے اور سنت عملی تواتر سے۔ ہم دونوں کو مقدم و مؤخر نہیں کر سکتے اور کسی کو ادنیٰ واعلیٰ قرار نہیں دے سکتے۔ دونوں دین کے قیام کیلئے یکساں ضروری ہیں‘‘ (مبادی تدبرِ حدیث‘ ص: 35)۔
اپنے مؤقف کے بارے میں جاوید صاحب کا کہنا ہے کہ اس میں اور آئمہ سلف کے مؤقف میں سرِمو کا اختلاف نہیں۔ ہمارے آئمہ ان موضوعات پر لکھ چکے۔ مثال کے طور پر امام شافعی نے اس پر بہت عالمانہ بحث کی ہوئی ہے۔ امام ابن حزم نے بھی اس پر لکھا ہے۔ امام شافعی نے جس علمی سطح پر اسے بیان کیا ہے‘ ایک اخباری کالم اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ان کی رائے کا خلاصہ علامہ ابوزہرہ نے کر دیا ہے۔ آئمہ کے افکار وحالات پر ان کی کتب عالمِ اسلام میں بہت مقبول ہیں جو بہت سہل زبان میں لکھی گئی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ''امام شافعی قرآن کے مرتبے میں جس سنت کو رکھتے ہیں‘ وہ مجموعہ سنت ہے۔ ہر وہ حدیث جو رسول اللہﷺ سے مروی ہے‘ خواہ وہ کسی طُرق سے ہو‘ قطعی الثبوت آیاتِ متواترہ کے مقابلے میں نہیں رکھی جا سکتیں۔ اگر احادیثِ آحاد اپنے اپنے مرتبے میں احادیثِ متواترہ اور مستفیضہ مشہورہ کے برابر نہیں ہیں تو وہ قطعی الثبوت آیاتِ قرآنی کے برابر کیسے ہو سکتی ہیں؟‘‘۔ ابوزہرہ اس سے آگے بڑھ کر لکھتے ہیں: ''حنفیوں‘ شافعیوں‘ جمہور مالکیوں اور تمام معتزلہ اور خوارج کی رائے یہ ہے کہ خبرِ واحد علم کو واجب نہیں کرتی اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے‘‘۔
برصغیر کے جلیل القدر علما بھی اس باب میں یہی مؤقف رکھتے ہیں۔ میں یہاں صرف دو کا حوالہ دوں گا۔ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں: ''اسلا م کے ایک چھوٹے سے فرقے کے سوا‘ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ غالی ظاہریہ کے سوا کوئی اس کا قائل نہیں کہ عقائد کا ثبوت قرآن کے علاوہ کسی اور طور سے ہو سکتا ہے کیونکہ عقیدہ نام ہے یقین کا اور یقین کا ذریعہ صرف ایک ہے اور وہ وحی اور اس وحی کا تواتر ہے۔ اس لیے عقائد کا منبع صرف قرآن پاک اور احادیثِ متواترہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ حدیثِ متواترہ کا مطلق وجود نہیں یا ایک دو سے زیادہ نہیں۔ ایسی حالت میں عام احادیث عقائد کا منبع نہیں قرار پا سکتیں۔ عموماً احادیث روایت آحاد ہیں اور ان کا ایک حصہ مستفیض ہے‘ یعنی صحابہ کے بعد ان کے راویوں کی کثرت ہوئی ہے‘‘ (سیرت النبی)۔ دوسرے بڑے عالم مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ہیں جنہوں نے اسی رائے کا اظہار کیا ہے۔ اسی بات کو جاوید صاحب اس طرح بیان کرتے ہیں کہ خبرِ واحد سے دین میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔
اس حوالے سے ایک خلطِ مبحث یوں پیدا کیا جاتا ہے کہ حدیث میں بعض جانوروں کو حرام قرار دیا گیا ہے اور یہ حدیث سے دین میں اضافے کی دلیل ہے۔ یہ محض فہم کا فرق ہے۔ جسے اضافہ کہا جا رہا ہے‘ جاوید صاحب کے نزدیک یہ تبیّن ہے۔ قرآن مجید کی تبین وشرح نبیﷺ کی ذمہ دار ی تھی۔ حلال وحرام یا دین کا کوئی اور حکم‘ اصلاً قرآن مجید یا سنت میں بیان ہو گیا۔ ان کی تفہیم میں کہیں ابہام پیدا ہونے کا امکان تھا تو آپﷺ نے اس کی شرح فرما دی‘ کوئی اضافہ نہیں کیا۔ تمام دین امت کو آپﷺ کی سند سے ملا۔ آپﷺ کی اس شان کو جاوید صاحب نے جن الفاظ میں واضح کیا ہے‘ وہ اس باب میں حرفِ آخر ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ''اس زمین پر قیامت تک کے لیے یہ حق صرف محمد رسول اللہﷺ کو حاصل ہے کہ وہ کسی چیز کو شریعت قرار دیں اور جب ان کی طرف سے کوئی چیز شریعت قرار پا جائے تو پھر صدیق و فاروق بھی اس میں کوئی تغیر وتبدل نہیں کر سکتے‘‘ (برہان‘ ص: 138)۔
ان تحریروں کی موجودگی میں‘ کیا اس رائے کے لیے کوئی گنجائش باقی ہے کہ مکتبِ فراہی کا مؤقف جمہور علما وفقہا سے مختلف اور 'اہلِ قرآن‘ کے مماثل ہے۔ تحریر کے اگلے حصے میں‘ ان شاء اللہ میں یہ بتاؤں گا کہ حدیث وسنت میں فرق بھی پہلی بار نہیں کیا گیا۔ مسلمان عورت کے اہلِ کتاب مرد سے نکاح اور اتمامِ حجت کے بعد جہاد کے حکم پر بھی بات ہو گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved