تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     13-11-2025

عملی اصلاح کی بابت چند احادیث …(دہم)

توازن واعتدال: اللہ تعالیٰ کو بندے کی طرف سے ہر معاملے میں اِفراط وتفریط اور حد سے تجاوز اور غُلُوّ پسند نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو توسط واعتدال پسند ہے‘ حتیٰ کہ نمازِ باجماعت جو افضل العبادات ہے‘ اُس میں بھی توسّط کو پسند فرمایا گیا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت جابرؓ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: مُعاذؓ بن جبل نبیﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے اور پھر اپنی قوم کے پاس آکر انہیں نماز پڑھاتے اور اس میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت کرتے تو ایک شخص نے (جماعت کو چھوڑ کر) اختصار کے ساتھ نماز پڑھی۔ اس کی خبر حضرت مُعاذؓ کو پہنچی تو انہوں نے کہا: یہ منافق ہے۔ ان کی یہ بات اس شخص تک پہنچی تو وہ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہﷺ! ہم کام کاج والے لوگ ہیں‘ ہم اونٹوں پر پانی ڈھوتے ہیں اور مُعاذ نے گزشتہ شب نماز (عشاء) پڑھائی اور اس میں سورۂ بقرۃ کی تلاوت شروع کر دی‘ اس پر میں نے (جماعت چھوڑ کر) مختصر تلاوت کے ساتھ نماز پڑھ لی۔ انہوں نے گمان کیا کہ میں منافق ہو گیا ہوں‘ تو نبیﷺ نے تین بار فرمایا: مُعاذ! کیا تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالنے والے ہو (باجماعت نمازِ عشاء میں) سورۃ الشمس‘ سورۃ الضحیٰ اور سورۃ الاعلیٰ وغیرہ کی تلاوت کیا کرو‘‘ (بخاری: 6106)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کی اقتدا کی سعادت حاصل کرنے کیلئے نفل کی نیت سے آپﷺ کی اقتدا کرتے اور پھر اپنے قبیلے میں جاکر لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھاتے تھے اور اس میں طویل قرأت کیا کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے لوگوں کی آسانی کی خاطر اُن کے اس شِعار کو پسند نہیں فرمایا۔
حضرت ابوقتادہ انصاریؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نماز پڑھانے کھڑا ہوتا ہوں اور میرا جی چاہتا ہے: لمبی نماز پڑھوں کہ میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز کو مختصر کر دیتا ہوں کہ کہیں اس بچے کی ماں پر گراں نہ گزرے (اور اپنے بچے کے رونے کے سبب اس کی توجہ نماز سے بٹ نہ جائے)‘‘ (بخاری: 868)۔ (2) حضرت ابومسعودؓ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے حضورﷺ کی بارگاہ میں عرض کی: یا رسول اللہﷺ! فلاں شخص کے لمبی نماز پڑھانے کی وجہ سے میں فجر کی جماعت سے رہ جاتا ہوں‘ تو میں نے رسول اللہﷺ کو اپنے وعظ میں اُس دن سے زیادہ غضبناک (کبھی) نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم لوگوں کو دین سے متنفّر کرنے والے ہو‘ تم میں سے جو لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ اختصار سے کام لے‘ کیونکہ ان میں ضعیف‘ بڑی عمر والے اور کام کاج پر جانے والے لوگ ہوتے ہیں‘‘ (بخاری: 702)۔ دوسری حدیث میں فرمایا: ''جب تم میں سے کوئی اپنی تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو جتنی چاہے لمبی نماز پڑھے‘‘ (بخاری: 703)۔ الغرض نماز میں بھی لوگوں کے احوال کی رعایت کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ پس جب عبادت میں لوگوں کے احوال کی رعایت اتنی اہم ہے تو عام حالات میں اُن کی اہمیت کا عالَم کیا ہوگا۔مزدور کو اسکی مزدوری بروقت دینی چاہیے: نبیﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تین قسم کے اشخاص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن میں خود اُن سے جھگڑا کروں گا: ایک وہ جس نے میرے نام کی قسم کھائی اور پھر وہ قسم توڑ ڈالی (یعنی حانِث ہوگیا)‘ دوسرا وہ جس نے کسی آزاد آدمی کو پکڑ کر فروخت کر دیا اور پھر اس کی قیمت کھا گیا اور تیسرا وہ جس نے کسی کو مزدوری پر لگایا اور اس سے پورا کام لیا‘ مگر اس کو مزدوری نہ دی‘‘ (بخاری:2227)۔ نیز آپﷺ نے فرمایا: ''مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دے دو‘‘ (ابن ماجہ: 2443)۔
پانچ چیزوں کوغنیمت جانو: عَمروؓ بن میمون بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: (1) موت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جو فرصتِ حیات عطا کر رکھی ہے‘ (اُسے اللہ کی بندگی میں استعمال کرو) (2) مصروف ہونے سے پہلے جو فراغت کے لمحات ہیں‘ (انہیں خیر کے کاموں میں استعمال کرو) (3) خدا نخواستہ فَقر لاحق ہونے سے پہلے جو اللہ تعالیٰ نے نعمتِ مال دے رکھی ہے‘ (اسے اللہ کی رضا کے کاموں میں استعمال کرو) (4) بڑھاپے سے پہلے عالَمِ شباب کو (خیر کے کاموں اور اللہ کی بندگی میں استعمال کرو) اور (5) مرض لاحق ہونے سے پہلے جو اللہ نے صحت عطا کر رکھی ہے‘ (اُسے اللہ کی بندگی میں استعمال کرو)‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ: 34319)۔
ہر نیکی کو معمولی اور ہر گناہ کو بڑا سمجھو۔ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت ابوبردہؓ بن ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں: مجھ سے حضرت عبداللہؓ بن عمر نے کہا: کیا تجھے معلوم ہے کہ میرے باپ نے تمہارے باپ سے کیا کہا تھا‘ ابوبردہؓ بیان کرتے ہیں: میں نے کہا: ''نہیں!‘‘ عبداللہؓ بن عمر نے کہا: میرے باپ (حضرت عمرؓ بن خطاب) نے تمہارے باپ (ابوموسیٰ اشعریؓ) سے کہا تھا: اے ابوموسیٰ ! کیا تمہارے لیے یہ بات باعثِ مسرّت ہے کہ ہمارا رسول اللہﷺ کیساتھ ایمان لانا اور آپﷺ کیساتھ ہجرت اور جہاد میں شریک ہونا اور دیگر سارے کے سارے نیک اعمال (جو ہم نے آپﷺ کی معیت میں انجام دیے) ہمارے لیے (اُخروی) راحت کا سبب بن جائیں اور آپﷺ کے بعد ہم نے جو سارے نیک کام کیے‘ اُن کے بارے میں ہم (اللہ کی عدالت میں) برابر سرابر چھوٹ جائیں اور نجات پا لیں تو تمہارے باپ (ابوموسیٰ اشعریؓ) نے کہا: نہیں بخدا! ہم نے رسول اللہﷺ کے بعد جہاد کیا‘ نمازیں پڑھیں‘ روزے رکھے اور بڑی تعداد میں نیک اعمال انجام دیے اور بڑی تعداد میں غیر مسلموں نے ہمارے ہاتھ پر اسلام قبول کیا‘ پس ہم ان سب پر اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھتے ہیں تو میرے باپ (عمرؓ بن خطاب) نے کہا: ابوموسیٰ! اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے‘ میں تو چاہتا ہوں: رسول اللہﷺ کیساتھ ہم نے جو نیک کام کیے‘ وہ ہمارے لیے اُخروی نجات کا باعث بن جائیں اور وہ تمام اعمالِ خیر جو ہم نے آپﷺ کے بعد انجام دیے‘ اُن میں برابر سرابر چھوٹ جائیں‘ تو ابوبردہؓ کہتے ہیں: اے عبداللہ! یقینا تمہارے والد (عمرؓ بن خطاب) میرے والد (ابوموسیٰ اشعریؓ) سے بہتر تھے‘‘ (بخاری: 3915)۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ اس اُمت کو حضرت عمرِ فاروقؓ جیسا کوئی دوسرا حاکم یا خلیفہ اُن کے بعد نہیں ملا‘ انہیں اپنی عاقبت اور اُخروی محاسبے کی کتنی فکر تھی۔ ہر مومن کو آخرت کی جوابدہی کے بارے میں ایسی ہی فکر لاحق رہنی چاہیے۔
بدترین بندے: حضرت اسماءؓ بنتِ عُمیس خثعمیہ بیان کرتی ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: بدترین بندہ وہ ہے جو تکبر کرے اور اترائے اور خداوند بزرگ وبرتر کو بھول جائے‘ بدترین بندہ وہ ہے جو دوسروں پر ظلم ڈھائے اور حد سے تجاوز کرے اور خداوندِ بزرگ وبرتر اور قہّار کو بھول جائے‘ بدترین بندہ وہ ہے جو (حقوق اللہ اور حقوق العباد کو) بھول جائے اور ایسے مشاغل میں مصروف ہو جائے (جو اللہ سے غافل کر دیں) اور قبر (کی ظلمتوں) اوراپنے گل سڑ جانے کو بھول جائے‘ بدترین بندہ وہ ہے جو سرکشی کرے اور حد سے تجاوز کرے اور اپنی ابتدا اور انتہا کو بھول جائے‘ بدترین بندہ وہ ہے جو دین کے عوض دنیا کو حاصل کرے‘ بدترین بندہ وہ ہے جو دین (کے قطعی امور) میں شبہات پیدا کرے‘ بدترین بندہ وہ ہے جو لالچ کا اسیر ہو جائے‘ بدترین بندہ وہ ہے کہ خواہشاتِ نفس اُسے گمراہ کر دیں اور بدترین بندہ وہ ہے کہ جو دنیا کی ایسی مرغوبات اور لذتوں میں مبتلا ہو جائے جو اس کی ذلت کا باعث بنیں‘‘ (ترمذی: 2448)۔ ہر بندے کو جائزہ لینا چاہیے کہ مندرجہ بالا بدترین خصلتوں میں سے وہ کن کن میں مبتلا ہے اور آیا وہ ان بدترین خصلتوں سے نکل کر خیر وہدایت کے راستے کو پانے کیلئے آمادہ ہے یا نہیں۔
خیرخواہی: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''دین خیر خواہی کا نام ہے‘ دین خیر خواہی کا نام ہے۔ صحابہ نے عرض کی: کس کی خیر خواہی‘ آپﷺ نے فرمایا: اللہ‘ اُس کی کتاب‘ اُس کے رسول‘ مسلمانوں کے حکمرانوں اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی (دین ہے)‘‘ (صحیح مسلم: 55)۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved