بے رنگ سیاسی ماحول میں خزاں کے رنگوں سے آنکھوں میں تراوت اور دل میں کچھ سکون ہے۔ ہمارے خیالات کے برعکس خزاں کا موسم ہماری ادبیات اور عمومی فکری دائروں میں زوال سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ معشوق اور عاشق کی سب باتیں بہار کے پھولوں‘ ان کی بکھرتی خوشبوؤں اور رنگوں کے پیرائے میں کی جاتی ہیں۔ پنجاب میں موسمِ بہار ہمارے دل میں جو کیفیت پیدا کرتا ہے‘ اسے بہار کے ہی رنگین اسلوب میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ آج کل ہم خزاں میں ہیں‘ جو بھی آپ اس کا مطلب لیں‘ اور جسے پت جھڑ بھی کہا جاتا ہے‘ جس کے بارے میں اس درویش کی سوچ مختلف ہے۔ خزاں کی بہاریں اور اس کے قوس و قزح جیسے سب رنگ آنکھوں میں سما کر دل کے ہر کونے میں دھیرے دھیرے اُتر کر ہفتوں مسحور رکھتے ہیں۔ دھیرے اس لیے کہ ایک ہی درخت کے پتے ٹہنی سے رشتہ اس قدر جلدی میں نہیں توڑتے جس طرح ہمارے سیاستدان آئین میں تبدیلیاں‘ بلکہ جو نظام انہوں نے تاحیات سیاست کیلئے قائم کر رکھا ہے‘ اس کے گرد حصار قائم کرنے کیلئے کرتے ہیں۔ خیر خزاں ہو یا بہار‘ اب آئین‘ عدلیہ کی آزادی‘ پارلیمان اور جمہوریت کے بارے میں کچھ لکھنے اور بولنے کی ہمت نہیں رہی۔ کچھ بھی تو نہیں رہا‘ کیا کہیں۔ ہمیں نہیں پتا کہ اقبال نے 'پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ‘ کی بات کیوں اور کس کے لیے کی تھی۔ جو اس راز کو سمجھے ہیں‘ سنا ہے کہ آج کے زمانے میں وہی بالا دست رہتے ہیں۔ خزاں کے پتوں کا شجر کی ٹہنیوں سے تعلق وہ نہیں۔ وہ تو اپنی فطری زندگی کا تسلسل برسوں سے نہیں‘ صدیوں سے شفافیت کے ساتھ جنگلوں‘ بیابانوں اور میدانوں میں کھلی آنکھوں کے سامنے جاری رکھتے ہیں۔ بہار کے اوائل میں ٹہنیوں کے باریک سروں سے آہستہ آہستہ پھوٹنے کے بعد کئی رنگ اختیار کرتے توانا پتے بن جاتے ہیں۔ نظر جما کر دیکھیں تو ہر پتے کی اپنی الگ شخصیت نظر آتی ہے۔ ہر درخت کی شناخت کا اظہار بناوٹ‘ سائز‘ رنگت اور جسامت سے ہوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ درختوں کی پہچان کئی طرح سے ہو سکتی ہے‘ مگر سب سے سہل اور جامع تعارف اس کے پتے کراتے ہیں۔
جو کچھ بھی میں لکھ رہا ہوں اس کا تعلق اپنے محدود جنگل سے ہے جس میں سینکڑوں مختلف اقسام کے درخت اس درویش اور وہاں بسیرا کرنے والے پرندوں نے لگائے ہیں۔ کچھ تو خود لگا دیے‘ مگر جب ہمارے مہمان پرندے‘ جو اَب اس کے مالک بن چکے ہیں‘ نے باقی کام اپنے ہاتھ میں لے لیا تو نہ جانے کہاں کہاں سے درختوں کے بیجوں کو خوراک بناکر ہمارے جنگل میں کاشت کاری کا عمل شروع کردیا۔ ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا بلکہ خوشی سے ان کی حوصلہ افزائی کی‘ اور ان کے لگائے پودوں کو کبھی ہاتھ نہ لگایا‘ سوائے اس کے کہ راستہ بنانے کی ضرورت محسوس ہو۔ کئی دہائیوں کے مشاہدے کے بعد یہ راز کھلا کہ مختلف اقسام کے درختوں‘ جھاڑیوں اور پودوں کی کاشت کاری سے جو کیڑے مکوڑے اور مکھیاں پیدا ہوتی ہیں‘ ان کی مرغوب خوراک ہیں۔ اسی لیے سیانے کہتے ہیں کہ ہر علاقے میں وہاں کے قدیمی درخت ہی لگائیں۔ خزاں کے رنگ پیدا ہی اس صورت ہو سکتے ہیں جب قدرتی جنگلات پیدا ہوں اور اس میں ہر نوع کے درخت ہوں۔ ابتدا میں یہ کوشش اس درویش کی تھی‘ مگر اس کارِ خیر میں زیادہ حصہ مہربان پرندوں کا رہا۔ درختوں کی اقسام کے بارے میں مجھے کچھ معلوم نہیں کہ عشق میں ذات پات کی قید آڑے نہیں آتی۔ یہ ہمیں معاشرے میں مذاہب‘ زبانوں‘ نسلوں اور سیاسی نظریات کی رنگا رنگی اور بقائے باہمی کا سبق سکھاتی ہے۔ ہمیں جنگل کے پرندوں اور قدرتی جنگلات سے یہ سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ بہار اور خزاں کے رنگ ایک دوسرے کے ساتھ محبت‘ قربت اور پُر امن ہمسائیگی سے رہتے ہیں۔
موسم کے بدلتے ہی ان دنوں میں پتوں کے رنگوں میں تبدیلی پیدا ہونا ایسے ہی ہے جیسے سورج کے صبح طلوع ہونے اور شام کو غروب ہونے کا باقاعدگی سے معمول ہے۔ پہلے پتوں کے کناروں میں ہلکی سی پیلی لکیر نمودار ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ اگلے ہفتوں میں اس کے اندر کی ڈنڈی کی طرف پھیلنا شروع ہو جاتی ہے۔ ہر پتے میں کم از کم تین رنگ دیکھے جا سکتے ہیں‘ کناروں پر زرد‘ درمیان میں ہلکا گلابی اور پیلا۔ مختلف درختوں کے پتوں کا بھی رنگ بدلنے کا اپنا اپنا مزاج اور وقت ہے۔ اس موسم اور اس کے بدلتے رنگوں کی طرف اپنی توجہ پہلی بار بوسٹن شہر میں تقریباً ایک سال گزارنے سے ہوئی جہاں سردی جتنی تیزی سے ہر چیز کو گرفت میں لیتی ہے‘ اس کا احساس پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ پارکوں میں ایسا لگتا تھا کہ پورے درخت پر کسی ماہر رنگ ساز نے مہارت سے ارغوانی‘ زرد‘ نارنجی اور اودا رنگ بکھیر دیے ہیں۔ بوسٹن ہو یا شمالی امریکہ کا کوئی شہر اور جنگلوں اور پہاڑوں کے قدرتی سلسلے‘ اس موسم میں جو رنگوں کے نظارے پیش کرتے ہیں وہ صرف فطرت شناس ہی جانتے ہیں۔ آج کل وہاں لوگ کئی ریاستوں میں خزاں کے رنگوں کی بہاریں دیکھنے کئی دن گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی اچھی چیز دیکھی تو دل ہمیشہ سوال کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں ایسا کیوں نہیں۔ جس طرح آج کل ہمیشہ سے جوان اور ضدی دل بار بار سوال کرتا ہے کہ امریکہ میں آئین میں تو 26ترامیم کرنے میں ڈھائی سو سال لگے‘ یہاں کافی کا بڑا پیالہ ٹھنڈا ہونے تک ایک نئی ترمیم ہو جاتی ہے۔ میں دل ہی دل میں منتشر خیالوں کے ساتھ خود سے درخواست کرتا ہوں کہ خاموش رہ ورنہ زبان پر لگا تالا کھل گیا تو مصیبت میں گرفتار ہو جائیں گے۔ خیر چھوڑیں ان باتوں کو‘ اس لیے تو ہم اپنے جنگل میں لوٹ گئے ہیں۔ اب شاید وہاں رہ کر درختوں اور پرندوں سے ہم کلام رہیں‘ گرچہ نہ وہ میری زبان سمجھیں نہ میں ان کی‘ بس گونگوں اور بہروں کی طرح ایک دوسرے کو دیکھتے اور مسکراتے رہیں گے۔
یہ ہماری نہیں دنیا کی پرانی روایت ہے کہ جہاں ظلمت کے اندھیرے چھا جائیں‘ روشنی کے سب چراغ بجھا دیے جائیں تو بہتر یہی ہوتا ہے کہ آپ کہیں دور جھونپڑی ڈال کر‘ اگر جنگل میسر ہے تو اس کے کنارے آباد ہو جائیں۔ بصورت دیگر گھروں میں محبوس رہیں‘ آنکھیں کچھ دیکھ رہی ہوں‘ کان سن رہے ہوں‘ دل محسوس کر رہا ہو تو اس کیفیت میں آپ اپنے فیصلے خود کریں۔ ہم تو تھک چکے ہیں۔ شکست خوردگی کی علامات ہمارے قلم اور زبان سے واضح ہیں اور بیچارگی ایسی کہ مغلیہ سلطنت کے ان برسوں کی یاد دل میں سما جاتی ہے جب کمپنی کی حکومت ہماری تہذیب کی سب علامات تباہ کرتی جارہی تھی۔ کل کسی دیرینہ واقف سے ملاقات ہوئی اور وہی سوال کیا جو میں ہر ملنے والے شخص سے بالحاظِ عمر و جنس کرتا ہوں: آپ خوش ہیں؟ کیا‘ بالکل نہیں‘۔ ہم نے تو خوشی کا سامان پیدا کر رکھا ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ قدرت نے ہمیں عطا کر دیا ہے۔ جنگل ہے‘ درخت اور پرندے ہیں‘ اور خزاں کے خوبصورت رنگوں کے درمیان مالٹے کے کئی پودوں پر پھل کا رنگ پتوں کے رنگوں کے ساتھ آہستہ آہستہ تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جب جی کرتا ہے‘ کوئی زمین پر گرا ہوا اور کوئی گرنے والا تو اپنے ہاتھ میں تھام لیتے ہیں۔ سامنے میز پر رکھ کر کچھ دیر جنگل میں گم ہو جاتے ہیں۔ گرے ہوئے کئی رنگوں کے پتوں کا فرش ترکمان قبائل کے خوبصورت قالینوں سے کم نہیں۔ اب بارش کے انتظار میں ہیں کہ وہ اپنی جان زمین پر قربان کرکے درختوں کو توانائی بخش دے اور وہ پھر اپنی زندگی میں ایک اور بہار پائیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved