تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     14-11-2025

عرفان‘ اگلا جہان اور کوانٹم سائنس

اللہ رحمان کی وضعدار دنیا کے آسمانِ صحافت کا وہ ایک ستارا تھا جس کا نام عرفان تھا۔ پورا نام تھا عرفان الحق صدیقی۔ اللہ تعالیٰ انہیں اگلے جہان میں علیّین کا مقام عطا فرمائے جو اللہ کے آخری رسول حضور کریمﷺ کے فرمان کے مطابق حدِ نظر کی وسعت کا حامل ہے۔ جن دنوں وہ ایک معاصر میں لکھا کرتے تھے‘ ان دنوں میرے کالم بھی وہیں شائع ہوتے تھے۔ سنڈے میگزین میں میرے تحقیقی مضامین درمیان کے دو صفحات پر جگہ پاتے تھے۔ اس حوالے سے عرفان صدیقی صاحب سے ملاقاتوں کا آغاز ہوا اور پھر بڑھتا ہی چلا گیا۔ جب انہوں نے کالم نویسی سے سیاسی دنیا میں قدم رکھا تو وہ بہت زیادہ مصروف ہو گئے۔ ہماری بھاگ دوڑ بھی عمر کے تقاضوں کے پیش نظر پہلے جیسی نہ رہی۔ یوں ملاقاتوں کے تواتر میں بھی کچھ کمی آ گئی۔
اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں تحریکِ حرمتِ رسولﷺ کے ضمن میں ایک پریس کانفرنس تھی۔ پریس کانفرنس سے فارغ ہوا تو محترم عرفان صدیقی سے چائے کی میز پر مختلف موضوعات پر تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ انہوں نے کسی نئی تصنیف کا پوچھا تو عرض کی کہ آج کل سیرتِ طیبہ پر ایک کتاب لکھ رہا ہوں۔ اس کا نام ''سیرت کے سچے موتی‘‘ رکھا ہے۔ التزام یہ کر رہا ہوں کہ ہر حدیث اور واقعہ سند کے اعتبار سے صحیح ہو۔ اس پر فرمانے لگے: سیرت ایسا موضوع ہے کہ جس پر لکھاری کے جذبات چھلک پڑتے ہیں تو ایسے مواقع پر سند کا اہتمام کافی مشکل ہو گا۔ عرض کی: اللہ کریم آسانی پیدا فرمائیں گے‘ ان شاء اللہ۔ پھر جب چھ سو صفحات کی کتاب مکمل ہوئی تو اگلی ملاقات میں انہیں پیش کر دی۔ تیسری ملاقات میں فرمانے لگے: آپ نے واقعی حق ادا کر دیا ہے۔ ریفرنس کے لیے میرے سرہانے آپ ہی کی کتاب ہوتی ہے۔ میرے لیے یہ ایک اعزاز کی بات تھی۔ ویسے تو سیرتِ مبارکہ پر راقم نے اس کے بعد مزید چار کتابیں لکھیں جو سیرتِ مبارکہ کے مختلف پہلوئوں پر ہیں مگر جامع کتاب یہی ہے۔
عرفان صدیقی صاحب پرائمری سکول کی ٹیچنگ سے بالا ہوتے ہوتے سرسیّد کالج راولپنڈی میں اردو کے پروفیسر بنے۔ خاکی اور سول بیورو کریسی کے بڑے بڑے ناموں کو عرفان صدیقی کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہوا۔ صحافت کو چاشنی‘ روانی اور رواداری ملی تو عرفان کی صداقت سے ملی۔ تحریر میں اگلے جہان کی عرفانیت بھی ہوتی تھی‘ جو دلوں میں اللہ کی محبت کا چراغ روشن کر دیتی تھی۔ اللہ ان کے اگلے جہان کو نورانی بنائے‘ آمین!
حقیقی عرفان خوشخبری سناتا ہے کہ موت ایک ایسا دروازہ ہے جہاں سے گزر کر ہم سب نے باہم ملنا ہے۔ اچھی زندگی گزار کر جانے والوں کی ملن گاہ ''علیین‘‘ ہے۔ یہ برزخ کا ایک اعلیٰ اور بلند مقام ہے جس کے اندر جنت کے دروازے کھلتے ہیں۔ جو شخص موت کے بعد یہاں آنا چاہتا ہے‘ اسے ''سورۃ الحدید‘‘ کا ایک مقام سامنے رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتے ہیں ''(علم کا حقیقی عرفان اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ) دنیا کی زندگی ایک کھیل اور دل لگی کا میدان ہے۔ آپس میں زینت کے اظہار اور فخر کرنے کی جگہ ہے۔ اموال اور اولاد میں بڑھ جانے کی کوشش ہے۔ اس کی مثال اُس بارش جیسی ہے جس سے اگنے والی کھیتی نے کاشتکاروں کو خوشی سے نہال کر دیا۔ پھر یہ کھیت پکتا ہے (تو فصلیں‘ باغات‘ ندی نالے اور سبزہ نظر آتا ہے مگر اس کے بعد) تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو جاتے ہیں اور پھر یہ سب چورا (اور کوڑا) بن جاتا ہے (ان ساری نعمتوں کا استعمال غلط ہو گیا) تو اگلے جہان میں بڑی سخت سزا ہے (اگر استعمال اچھا ہو گیا تو) اللہ کی طرف سے بہت بڑی معافی بھی مل جائے گی اور رضا مندی بھی حاصل ہو جائے گی۔ بہرحال دنیا کی زندگی کا جو سامان ہے‘ یہ ایک دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ‘‘ (الحدید: 20)
عربی لفظ ''غرور‘‘ کا ترجمہ ''دھوکا‘‘ کیا جاتا ہے۔ یہ دھوکا ایسے ہے کہ جیسے سخت گرمیوں کے موسم میں صحرا کے اندر دور سے پانی دکھائی دیتا ہے مگر قریب جائیں تو وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس سراب کا نام دھوکا ہے۔ جی ہاں! یہ دھوکا کسی نے نہیں دیا بلکہ انسان کی اپنی آنکھیں دھوکے میں مبتلا ہو گئیں۔ اس میں انسان کا اپنا قصور اور غلطی ہے۔ دنیا کی یہ چند روزہ نعمتیں ایسا ہی دھوکا ہیں۔ آج کا زمانہ‘ جس کو ایٹمی دور کہا جاتا ہے‘ اب اسے ''کوانٹم سائنس کا زمانہ‘‘ کہا جا رہا ہے۔ ہم جس کرسی یا صوفے پر بیٹھے ہیں‘ سامنے ہمارے لکڑی‘ پتھر یا شیشے وغیرہ کا جو میز ہے‘ یہ سب چیزیں ایٹم سے بنی ہیں۔ ہم ان چیزوں کو ٹھوس سمجھتے ہیں جبکہ یہ ہماری نظر اور ہمارے حواس کا دھوکا ہے۔ علمی حقیقت کچھ اور ہے اور وہ یہ ہے کہ پتھر‘ شیشے یا لکڑی کا ایٹم 99 فیصد سے بھی زیادہ خالی ہے۔ اس قدر خالی کہ جو 100واں حصہ ہے‘ اس کے دس حصے کیے جائیں تو نو حصے خالی ہوں گے۔ پھر جو دسواں حصہ ہے اس کے دس حصے کیے جائیں تو اس میں سے پھر نو حصے خالی ہوں گے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہمارا ہاتھ اس میز سے پار گزر جانا چاہیے جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔ جواب یہ ہے کہ ایٹم کا مرکزہ‘ جو ''نیوکلیس‘‘ ہے اس کے اردگرد الیکٹران (بجلی کی چمک) اس قدر تیزی کے ساتھ حرکت کرتے ہیں کہ ہمارا ہاتھ اس میز پر رکھا ہوا ایسے ہوتا ہے جیسے توانائی کے بادل پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاتھ کو توانائی کا یہ نرم سا بادل محسوس کیوں نہیں ہوتا؟ اس کا سائنسی جواب یہ ہے کہ ہمارے ہاتھ سے الیکٹران میز کے الیکٹران کو دھکیلتے ہیں جبکہ میز کے الیکٹران ہمارے ہاتھ کے الیکٹران کو دھکیلتے ہیں۔ یہ جو دونوں طرف سے دبائو یا دھکے ہیں یہی ہمارے دماغ کو ٹھوس پن کا احساس دلاتے ہیں۔
ایٹمی دور سے گزرتے ہوئے کوانٹم سائنس کا نظریہ پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔ آئن سٹائن بھی اس پر گفتگو کرتے ہیں۔ 2025ء میں پہنچ کر یہ نظریہ نہیں رہتا بلکہ تجرباتی مرحلے سے گزر کر کوانٹم سائنس ثابت شدہ سائنس بن کر دنیا کے سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔ یاد رہے! کائنات کے ذرے سے لے کر کہکشائوں تک‘ ہر جگہ ایک ''برقی مقناطیسی‘‘ قوت ہے جو سب کو جوڑ کر رکھتی ہے۔ یہ نہ ہو یا اس میں خرابی پیدا ہو جائے تو کائنات کا وجود ختم ہو جائے۔ اس قوت کو انگریزی میں الیکٹرو میگنیٹک فورس کہتے ہیں۔ یہ ہے توانائی کی وہ قوت‘ جو ہاتھ اور میز کے درمیان کام کرتی ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو انسان کو احساس دلاتی ہے کہ تیرا ہاتھ بھی ٹھوس ہے اور میز بھی ٹھوس ہے۔ یہ دونوں قوتیں جب باہم ٹکراتی ہیں تو اسی سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ اسی سے انسان اپنے ہاتھ میں تکلیف محسوس کرتا ہے۔ دو پہلوان کشتی کرتے ہیں تو دونوں کے درمیان یہی قوت کار فرما ہوتی ہے۔ جس میں یہ قوت زیادہ ہوتی ہے وہ مخالف کو چت کر جاتا ہے۔ باقی حقیقت میں دونوں پہلوان خالی ہیں‘ وہ ٹھوس نہیں ہیں۔ جب دو گاڑیاں باہم ٹکراتی ہیں وہ بھی ٹھوس نہیں ہوتیں‘ بس برقی مقناطیسی قوتیں ٹکراتی ہیں۔ یہ سب کچھ توانائی کا آپس میں تعامل یا ٹکرائو ہے۔
آئن سٹائن نے کہا تھا ''مادے کے بارے میں جو روایتی نظریہ ہے کہ یہ ٹھوس ہے‘ یہ بالکل غلط ہے۔ سائنسی حقیقت یہ ہے کہ مادہ تو وجود ہی نہیں رکھتا۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ نظر آنے والا مادہ‘ توانائی کا ایک نظر نہ آنے والا منظم نظام ہے۔ یعنی ہم جو کچھ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر توانائی ہی کی قوت ہے‘‘۔ جی ہاں! کیا خوب آگاہ کیا اللہ کی آخری کتاب نے جو حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہوئی کہ ''اعلموا‘‘۔ علم اور سائنس کی بات یہ ہے کہ یہ دنیا اور اس کا سارا سامان غرور‘ فریب‘ سراب اور نظر کے ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ جی ہاں! اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے۔ محترم عرفان صدیقی مرحوم اصل زندگی میں داخل ہوئے ہیں۔ وانا کے کیڈٹ کالج کے جو ہمارے بیٹے اور عملے کے لوگ تھے‘ ہمارے کمانڈوز ان کو حفاظت سے نکال لائے مگر اس دوران جو افراد شہید ہوئے‘ اسلام آباد کچہری میں خارجی فتنے کے ہاتھوں جو بے گناہ شہری شہید ہوئے وہ سب اصل زندگی میں داخل ہوئے ہیں۔ پاکستان زندہ باد رہے گا‘ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved