عرفان صدیقی صاحب کی آزمائش تمام ہوئی۔ اب وہ انتظار گاہ میں ہیں کہ عالم کا پروردگار ان کے بارے میں کیا فیصلہ سناتا ہے۔ ہماری آزمائش ابھی باقی ہے۔ میں ان کے جانے پر اداس ہوں کہ ان سے تعلقِ خاطر تھا۔ یہ دکھ فطری ہے۔ جو عزیز ہو‘ اس کے بچھڑنے کا غم ہوتا ہے۔ اس غم سے محرومی شرفِ انسانیت سے محرومی ہے۔
وہ یہاں تھے تو ان کا قلم ایک امتیاز پیدا کرتا رہا‘ دو نقطہ ہائے نظر کے درمیان۔ ان کی موت بھی امتیاز کا سبب بن گئی‘ دو اخلاقی رویوں کے درمیان۔ دکھ کا اظہار کرنے والے کم نہیں اور دشنام کے تیر چلانے والے بھی بہت ہیں۔ ہر پیمانے سے وہی چھلک رہا ہے جو اس میں انڈیلا گیا۔ ہمارے الفاظ ہمارا چہرہ ہوتے ہیں‘ وہ پڑھنے والے کے سامنے ایک تصویر رکھ دیتے ہیں۔ میں سوشل میڈیا پر بہت کچھ پڑھ رہا اور میرے سامنے تصویریں بن رہی ہے۔ دو البم ترتیب پا گئے‘ ایک میں خوش نما چہرے ہیں اور دوسرے میں بدنما۔
میرا تعلق ان کے خاندان کے ساتھ ہے۔ ان کے بھائی ڈاکٹر شاہد صدیقی اور ان کے ماموں زاد جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی سے برسوں کی دوستی ہے۔ میرے خاندان کے اس خاندان سے تعلقات ہیں۔ عرفان صاحب کا معاملہ سب سے الگ تھا۔ جس شب اُن کا انتقال ہوا‘ دن اڑھائی بجے میری اُن کے بیٹے عمران صدیقی سے بات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ طبیعت سنبھل نہیں رہی‘ آئی سی یو میں ہیں۔ رات گیارہ بجے کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ بات اگلے دن ان کے بیٹے نے بتائی۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی کے بقول‘ وہ لاہور میں تھے کہ شب گیارہ بجے کے بعد ان کو اطلاع ملی۔ غلط بیانی کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ افسانہ طرازوں نے مگر بغیر تصدیق کے ایک بیانیہ تخلیق کر ڈالا۔ برسوں پہلے جو 'سیاسی شعور‘ تقسیم ہوا اس نے ایک سیاسی کلچر کو جنم دیا جس نے جھوٹ کو سیاسی ایمانیات کا حصہ بنا دیا ہے۔ سیاست میں جھوٹ پہلے بھی رائج تھا مگر قدر کے طور پر نہیں۔ اب ایک طرف جھوٹ بقدرِ ضرورت بولا جاتا ہے۔ دوسری طرف بطور قدر اپنا لیا گیا ہے۔ عرفان صدیقی صاحب نے زندگی میں اس امتیاز کو اپنے قلم سے نمایاں کیا اور ان کی موت بھی دو رویوں میں خطِ امتیاز کھینچ گئی۔
عرفان صدیقی قلم کے زور پر سیاست میں آئے۔ وہ ادب کے استاد تھے‘ ادیب اور شاعر تھے۔ کبھی ریڈیو پاکستان کیلئے ڈرامے لکھے۔ کچھ وقت پہلے ان کا شعری مجموعہ بھی سامنے آیا۔ تعلیم و تعلم سے رسمی رشتہ ختم ہوا تو اس زادِ راہ کے ساتھ شہرِ صحافت کا رُخ کیا۔ مروجہ مفہوم میں وہ صحافی نہیں تھے۔ سیاسی ڈائری لکھی اور انٹرویوز بھی کیے‘ ان کی پہچان مگر ان کا کالم بنا۔ اپنا ادبی اثاثہ انہوں نے کالم کی نذر کر دیا۔ یوں وہ ان لوگوں میں شامل ہو گئے جنہوں نے ادب اور صحافت کے ٹوٹے ہوئے رشتے کو بحال کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ ان کے اسلوبِ نگارش نے ایک بڑے طبقے کو اپنا اسیر بنا لیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ وہ انگلیوں پر گنے جانے والے ان کالم نگاروں میں شمار ہوتے ہیں جنہیں صاحبِ اسلوب کہا جا سکتا ہے۔ وہ الفاظ کو برتنے کا سلیقہ جانتے تھے۔ وہ استدلال کی کمزوری کو الفاظ کے شکوہ اور جملے کے در و بست سے دور کر سکتے تھے۔ ان کا ناقد اس وار کی تاب نہ لا سکتا تھا۔ انہوں نے دشنام سے آلودہ 'سیاسی شعور‘ کا تنہا مقابلہ کیا۔ وہ قلم کے محاذ پر (ن) لیگ کے میرِ آتش تھے۔ فردِ واحد ایک بریگیڈ سے معرکہ آرا تھا اور میرے خیال میں میدان بھی اس کے ہاتھ رہا۔
ان کا قلم ان کو صحافت اور صحافت سیاست میں لائی۔ ان کا تعلق اہلِ قلم کے اس گروہ سے تھا جس نے نظریاتی سیاست کے دور میں دائیں بازو کی نمائندگی کی۔ محترم الطاف حسن قریشی‘ جناب مجیب الرحمن شامی اور صلاح الدین شہید اس کے سرخیل تھے۔ پہلے اس محاذ کی سیاسی قیادت جماعت اسلامی کے پاس تھی۔ پھر یہ براستہ جنرل ضیاالحق شہید‘ نواز شریف صاحب کو منتقل ہو گئی۔ اہلِ قلم کا یہ گروہ بھی فطری طور پر ساتھ ہی انتقال کر گیا۔ جہادِ افغانستان اس نظریاتی سیاست کا آخری معرکہ تھا اور اس نے جماعت اسلامی کو بھی جنرل صاحب کے خیمے میں دھکیل دیا۔ جنرل ضیاالحق دائیں بازو کی سیاست کی علامت بنے اور نواز شریف صاحب ان کے جانشین۔ اہلِ قلم کی یہ وراثت ان کو ہی ملنا تھی‘ سو حق بحق دار رسید۔ اس قافلے کے ایک سالار صلاح الدین‘ شہید ہو گئے۔ دوسروں نے صحافت سے باہر قدم نہیں رکھا۔ عرفان صدیقی صاحب سیاست کے کوچے میں آ نکلے۔ نواز شریف صاحب نے خوشبو کی طرح ان کی پذیرائی کی۔ (ن) لیگ کا آنگن اور نواز شریف صاحب کی تقریریں ان کی قلمکاریوں سے مہک اٹھے۔ اس سفر کی مکمل داستان میجر عامر صاحب کے سینے میں محفوظ ہے۔
نواز شریف صاحب کی سیاست میں ایک ارتقا ہے۔ یہ واضح طور پر خیر کی طرف ہے۔ یہ ارتقا نظریاتی بھی ہے اور سیاسی بھی۔ ابتدا میں ان کا نظریاتی جھکاؤ دائیں بازوکی طرف تھا۔ بعد میں ان کی سیاست 'سینٹرل‘ ہو گئی۔ اسے ہم معتدل بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کی سیاست میں شدت کم ہوئی اور ٹھیراؤ آیا۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ تلخی میں کمی اس کا مظہر ہے۔ انہوں نے عمران خان صاحب سے بھی تعلقات کو خوشگوار بنانا چاہا مگر ان کی نرگسیت رکاوٹ بن گئی۔ میرا احساس ہے کہ ان کی شخصیت میں یہ تبدیلی لانے میں دو افراد کی صحبت کا اثر ہے۔ ایک پرویز رشید صاحب اور دوسرے عرفان صدیقی۔
عرفان صدیقی ایک دور میں دوسرے اسلام پسندوں کی طرح‘ مذہبی انتہا پسندوں کے وکیل بن گئے تھے مگر پھر اس سے رجوع کر لیا۔ اسکی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ فطری طور پر اعتدال پسند اور شائستہ آدمی تھے۔ ایسا آدمی ان گروہوں کے ساتھ چند قدم سے زیادہ نہیں چل سکتا تھا جو انسانی لہو بہانے کو کھیل تماشا سمجھتے ہوں اور لاشوں پر اسلام کا جھنڈا بھی گاڑتے ہوں۔ وہ اعتدال کی طرف لوٹے۔ ان کی اس فطری اعتدال پسندی نے‘ ممکن ہے نواز شریف صاحب کو بھی متاثر کیا ہو۔عمران خان صاحب کے رویے اور شخصیت نے سیاست پر جو منفی اثرات مرتب کیے‘ نواز شریف صاحب بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ سیاست جب حق و باطل کا معرکہ بنی اور بقائے باہمی کے بجائے مارو یا مر جاؤ‘ سیاسی حکمت عملی قرار پائی تو بقا کا سوال سب سے اہم ہو گیا۔ اس نے نواز شریف صاحب کی سیاست کو اصولوں کے بجائے مصالحت کا راستہ دکھایا۔ عرفان صدیقی صاحب اس سفر میں ان کے ساتھ تھے۔ تاہم انہوں نے اپنے تئیں سیاسی فضا کو تلخی سے دور رکھنے کی سعی کی۔ فلک ناز صاحبہ کا بیان اس کی تائیدکرتا ہے۔ سیاست کو شائستہ بنانے کیلئے جو ممکن تھا‘ وہ انہوں نے کیا۔ سینیٹ میں ان کی تقاریر بھی اس کا ثبوت ہیں۔
عرفان صاحب اپنی خوبیوں کی وجہ سے یاد رکھے جائیں گے۔ وہ اقتدار کا حصہ بنے تو اہلِ علم کی عزت افزائی کی۔ ہر اعتبار سے وہ مجھ سے بڑے تھے۔ ان کی یہ بڑائی ہمیشہ محبت‘ شفقت اور تواضع کی عبا اوڑھے رہی۔ ملنا تو تادیر ہاتھ تھپتھپانا یاد رہے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ محبت ہی کو دوام ہے۔ نفرت کی درازیٔ عمر کیلئے کسی نے کبھی ہاتھ نہیں اٹھائے۔ موقع پرستی اور 'سیاسی شعور‘ نے ہمارا جو حال کر دیا ہے‘ اس کے بعد صحافت اور سیاست میں ان کا وجود بہت غنیمت تھا۔ ان کو پڑھ اور سن کر منیر نیازی یاد آتے تھے:
یوں تو ہے رنگ زرد مگر ہونٹ لال ہیں
صحرا کی وسعتوں میں کہیں گلستاں تو ہے
ان کے جانے سے ایک خلا پیدا ہوا ہے۔ یہ رسمی جملہ نہیں امرِ واقعہ کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مغفرت سے نوازے اور (ن) لیگ کے ساتھ ہماری سیاست کو ان کا نعم البدل عطا کرے جو شائستگی اور استدلال کی اس روایت کو زندہ رکھ سکے‘ عرفان صدیقی جس کی علامت تھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved