جناب عرفان صدیقی اچانک سفرِ آخرت پر روانہ ہو گئے۔ اُن کی رحلت سے اردو کالم نویسی کا ایک مقفیٰ و مسجع دور اپنے اختتام کو پہنچا۔ اب آپ کو اردو کالموں میں رعنائیِ خیال‘ ندرتِ کلام اور دلکش نثر کی قوس وقزح کم کم ہی نظر آئے گی۔ عرفان صدیقی کالم نگار کی حیثیت سے بہت بعد میں منظر عام پر آئے‘ پہلے وہ ایک استاد تھے۔ راولپنڈی کے سکولوں سے لے کر سرسیّد کالج تک! استاد بھی ایسے کہ جو اپنے شاگردوں کے دل میں گھر کر لیتا ہے۔ تقریر نویسی کا کمالِ فن انہیں ایوانِ صدر تک لے گیا اور پھر کوچۂ سیاست کی رعنائیاں انہیں ایسی بھا گئیں کہ انہوں نے ایک صحافی سیاستدان کی حیثیت سے مسلم لیگ (ن) اور میاں نواز شریف کے ساتھ دلی قربت کا ناتا جوڑ لیا۔ وہ اپنی زندگی کے آخری دور میں سینیٹر بن گئے۔ تاہم اُن کی اثر انگیز کالم نگاری ان کی دیگر تمام حیثیتوں پر غالب رہی۔ اُن کے کالموں کی مستقل پہچان ''نقش خیال‘‘ تھا۔ اس نقش خیال نے دنیائے صحافت کی دیوار پر اُن کا نقشِ دوام ثبت کر دیا ہے۔
میں ایک محاصر میں اُن کے خیال افروز کالم اور منفرد نوعیت کے انٹرویوز کا قاری رہا۔ تاہم اُن سے پہلی بالمشانہ ملاقات اس وقت ہوئی جب میں 2004ء میں سعودی عرب سے پروفیسر کی حیثیت سے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں آ گیا۔ ان سے پہلی ہی ملاقات کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ ان کی صحافت کی طرح ان کی شخصیت میں بھی دلکشی اور جاذبیت ہے۔ 1980ء کی دہائی میں جہادِ افغانستان کے حوالے سے اور ان کی زندگی کے آخری دور میں طالبان حکومت کے ناروا رویوں کے بارے میں ان کے کالم یادگار رہیں گے۔ دیگر موضوعات پر بھی ان کے کالموں نے زبردست دھاک بٹھائی۔
البتہ 1990ء کی دہائی میں ایک پارٹی اور شخصیت کے ساتھ وابستگی کے بعد ان کے کالموں کی معروضی صفت ماند پڑ گئی۔ وہ پارٹی سے ہٹ کر نہ لکھتے۔ اخبارات وجرائد کے صفحات پر عرفان صدیقی صاحب کی شمسی چکا چوند کے مقابلے میں میری تحریریں کسی کٹیا میں جلتے ہوئے دیے کی مانند تھیں۔ البتہ جب کبھی مجھے ان کے کالموں میں دیے گئے مؤقف سے اختلاف ہوا تو میں نے اس کا برملا اظہار کیا۔ یہ 2006ء کے آس پاس کی بات ہو گی‘ صدیقی صاحب نے کئی کالموں میں متحدہ مجلسِ عمل پر خاصی تند وتیز تنقید کی۔ مجھے ان کی یہ تنقید مناسب معلوم نہ ہوئی تو میں نے اپنے کالموں کے ذریعے ان سے اختلاف کیا۔ صدیقی صاحب کو میری تنقید خاصی ناگوار گزری‘ انہوں نے جناب مجید نظامی سے بھی شکایت کی جس کا نظامی صاحب نے بھی تذکرہ کیا۔ عرفان صاحب اپنے مرتبے اور عمر میں مجھ سے بڑے تھے‘ لہٰذا میں نے ٹیلی فون پر معذرت کی تو انہوں نے خوش دلی سے اسے قبول کر لیا۔ پھر وہ اسلام آباد میں غریب خانے پر تشریف لائے۔ یوں یہ ناگواری ہمارے مابین نہایت خوشگوار تعلقات کا آغاز ثابت ہوئی۔ میں بھی کئی بار ان کے دولت کدے پر حاضر ہوا۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا کہ 1990ء کی دہائی میں عرفان صدیقی صاحب نے میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ناتا قائم کر لیا؛ البتہ ان کی یہ صفت قابلِ ذکر ہے کہ انہوں نے دیگر صحافی سیاستدانوں کے برعکس 'یک گیر در گیر و محکم گیر‘ کا رویہ اختیار کیا۔ اس دوران میاں نواز شریف پر ابتلا وآزمائش کے کئی ادوار آئے مگر صدیقی صاحب نے ہر تلخ وشیریں دور میں میاں صاحب کے ساتھ اپنا قلبی تعلق نبھایا۔ انہوں نے وفاداری بشرطِ استواری کا رویہ اختیار کیے رکھا۔ صدیقی صاحب دیگر صحافی سیاستدانوں کی طرح آج کوچۂ حبیب میں اور کل کوچۂ رقیب میں خوشہ چینی کرتے دکھائی نہیں دیے۔ ان کی یہی ادا میاں نواز شریف کو بہت پسند آئی۔ اسی لیے انہوں نے صدیقی صاحب کی رحلت کے موقع پر نہایت رقتِ قلبی کے ساتھ کہا کہ ان کی جدائی ایک عزیز بھائی کی جدائی جیسی ہے۔
اکتوبر اور اوائل نومبر 2023ء میں دوطرفہ کالموں کے ذریعے عرفان صدیقی صاحب اور سہیل وڑائچ صاحب کے مابین عمران خان کے طرزِ سیاست اور میاں نواز شریف صاحب کی شخصیت وسیاست کے بارے میں کئی ہفتوں تک خاصی تلخ بحث اخباری صفحات پر چھائی رہی۔ عرفان صدیقی صاحب کا مؤقف تھا کہ عمران خان کو اپنے زمانۂ اقتدار میں حزبِ اختلاف کے ساتھ اپنے رویے اور اپنے طرزِ احتجاج پر معذرت کرنی چاہیے جبکہ وڑائچ صاحب کا خیال تھا کہ میاں صاحب کو ایک سینئر سیاستدان کی حیثیت سے وسیع الظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے عمران خان سے درگزر کا معاملہ اختیار کرنا چاہیے۔ جب اس صحافیانہ بحث نے تلخ رخ اختیار کر لیا تو فقیر نے انہی صفحات میں نومبر 2023ء کے آواخر میں ایک کالم بعنوان ''ایک میرے محترم‘ دوسرے عزیز دوست ہیں‘‘ لکھااور کالم کے اختتام پر دونوں حضرات سے گزارش کی کہ وہ اس تلخ بحث کو مزید جاری نہ رکھیں۔ دونوں صاحبان نے میری اس خواہش کا احترام کیا اور اس بحث کا دروازہ بند کر دیا۔
میاں نواز شریف کی سعودی عرب سے واپسی کے بعد جب 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی تو عرفان صدیقی میاں صاحب کے مشیر کی حیثیت سے وزیراعظم ہاؤس میں تعینات ہو گئے‘ اس دوران بھی ان سے روابط قائم رہے۔ ان دنوں میں اسلام آباد سے یونیورسٹی آف سرگودھا آ چکا تھا۔ یہاں میری دیگر ذمہ داریوں میں سے ایک ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز اور پبلی کیشنز تھی۔ اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر چودھری محمد اکرم صاحب کی طرف سے صدیقی صاحب کو یونیورسٹی آف سرگودھا آنے اور ادب وصحافت کے طلبہ وطالبات کو خطاب کرنے کی دعوت دی۔ وہ بخوشی تشریف لائے اور شاہراہِ زندگی پر اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی طلبہ کو تلقین کی۔ بعد ازاں طلبہ نے بعض سوالات قدرے سخت نوعیت کے بھی پوچھے مگر صدیقی صاحب نے سب کا صبر وتحمل کے ساتھ جواب دیا۔
صدیقی صاحب کے دورِ اقتدار کے زمانے میں ان کی ایک نمایاں خوبی یہ سامنے آئی کہ بعض قومی نوعیت کے بڑے اداروں کے سربراہان کے طور پر بعض ایسی شخصیات کا انتخاب کیا کہ جو بقول ڈاکٹر خورشید رضوی:
یہ دور وہ ہے کہ بیٹھے رہو چراغ تلے؍ سبھی کو بزم میں دیکھو مگر دکھائی نہ دو
ایک ایسی ہی ''چراغ تلے‘‘ تشریف فرما علمی شخصیت کو انکے گھر جا کر ایک بہت بڑے ادارے کی سربراہی کی پیشکش کی۔ اس شخصیت نے صدیقی صاحب کی پیشکش کو شکریے کے ساتھ قبول کرنے سے معذرت کر لی۔
جناب عرفان صدیقی کے یوں تو بہت سے کالم یادگار ہیں مگر ان کا یہ کالم آنکھوں کو نمناک اور دل کو غمناک کر دیتا ہے۔ کالم کا عنوان ہے ''میری ماں‘‘۔ اس کی چند سطور یہاں اس خیال سے نقل کر رہا ہوں کہ آپ نمناک آنکھوں کے ساتھ صدیقی صاحب اور ان کی والدہ کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کیلئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ صدیقی صاحب کی نیکیوں کو شرفِ قبولیت بخشے اور ان کی کوتاہیوں سے درگزر فرمائے۔ آمین!
صدیقی صاحب کے کالم ''میری ماں‘‘ کی چند سطور: پہلا بیٹا ہونے کے ناتے مجھے اپنی ماں کے درمانِ شفقت میں رہنے کا زیادہ موقع ملا۔ میں نے ہوش سنبھالا تو گاؤں کے کچے گھر میں بسیرا ڈالے غربت کے میلے میلے روز و شب میں اسے مشقتوں میں جکڑے دیکھا۔ وہ چکی پیستی‘ برتن مانجھتی‘ گیلی لکڑیوں کو پھونکیں مار مار کر ہانڈی بناتی‘ تنور میں روٹیاں لگاتی‘ کمرے کا فرش لیپتی‘ دیواروں کو پوچا لگاتی... مجھے ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ سکول کیلئے رخصت کرتی۔ وہ طلب‘ حرص‘ آرزو اور خواہش کے آشوب سے پاک تھی۔ آخری دنوں میں میری ماں یہ شعر بہت پڑھا کرتی تھیں:
جا او یار حوالے رب دے میلے چار دناں دے
اس دن عید مبارک ہو سی‘ جس دن فیر ملاں گے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved