ستائیسویں آئینی ترمیم سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے منظور ہونے کے بعد صدرِ مملکت کے دستخطوں سے دستور پاکستان کا حصہ بن چکی ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس جناب امین الدین اپنے عہدے کا حلف اٹھا چکے ہیں۔ ان کے تین رفقا کا تقرر بھی ہو گیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کی شاہراہ دستور پر موجود پُرشکوہ عمارت البتہ اس کے قبضے میں نہیں آئی۔ عنقریب اس کے لیے کوئی جگہ بھی مختص ہو جائے گی۔ سپریم کورٹ کے احاطے میں یا اس کے آس پاس نئی عمارت تعمیر کرنا امرِ محال نہیں ہے۔ یہ مرحلہ طے ہو جائے گا اور پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہونے لگے گا جہاں سپریم کورٹ کے شانہ بشانہ آئینی عدالت بھی موجود ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس عدالت کا خواب انیس برس پہلے اس وقت دیکھا گیا تھا جب محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب نواز شریف نے ''میثاقِ جمہوریت‘‘ پر دستخط کر کے قومی سیاست کو بے ہنگم محاذ آرائی سے نجات دِلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ گزشتہ انیس برسوں کے دوران یہ دونوں جماعتیں وقتاً فوقتاً اس عدالت کو دستور کا حصہ بنانے کی بات کرتی رہیں لیکن عملاً کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ کئی دوسری جماعتیں بھی ان کی ہم خیال نظر آئیں لیکن جب اٹھارہویں ترمیم دستور میں داخل کی گئی اور اس کے وفاقی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں تو بھی اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی فیصلہ کن قدم نہیں اٹھایا گیا۔ جسٹس افتخار چودھری نے اپنی اور اپنے رفقا کی بحالی کے بعد جملہ آئینی‘ قانونی اور انتظامی امور کو جس طرح اپنی تحویل میں لیا‘ انتظامیہ اور مقننہ کو ناکوں چنے چبوائے‘ اس کے بعد جسٹس کھوسہ اور جسٹس ثاقب نثار نے جن کمالات کا مظاہرہ کیا‘ وزرائے اعظم کی جو درگت بنائی گئی‘ یوسف رضا گیلانی سے لے کر نواز شریف تک کو جس طرح ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کیا گیا‘ اس نے سپریم کورٹ اور اس کے چیف جسٹس کو نکیل ڈالنے کی ضرورت تو بخوبی واضح کر دی تھی لیکن آپسی لڑائیوں میں الجھ جانے والی سیاسی جماعتوں کو کسی پیش قدمی کی توفیق نہ ہو سکی۔ اگر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی میثاقِ جمہوریت پر شدت سے عمل پیرا ہو جاتیں تو حالات کا رُخ بدل سکتا تھا لیکن جہاں انہوں نے ایک دوسرے کو زچ کرنے کا کاروبار جاری رکھا‘ وہاں تحریک انصاف کی نئی اُبھرتی طاقت نے بھی ماحول میں بے چینیاں بھر دیں۔ آج جبکہ تحریک انصاف اقتدار سے لطف اندوز ہونے کے بعد عتاب کی زد میں ہے‘ جناب عمران خان اڈیالہ جیل میں پھنسے ہوئے ہیں‘ تو ان کے مخالف نئے جوش و جذبے سے حلیف بنے بیٹھے ہیں۔ سپریم کورٹ اور اس کے چیف جسٹس کو محدود کرنے اور اپنے آپ کو محفوظ سے محفوظ تر بنانے کے لیے وفاقی آئینی عدالت کا قیام عمل میں لا گزرے ہیں۔ تحریک انصاف اور اس کے ہمنوا محمود خان اچکزئی کی قیادت میں سراپا احتجاج ہیں‘ ترمیمی بل کو آئین پر حملے کے مترادف قرار دے کر تحریک چلانے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ جسٹس اطہر من اللہ نے بھی احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان دونوں نے صدرِ مملکت کے نام تندو تیز خطوط میں 27ویں آئینی ترمیم کو آئین پر سنگین حملہ قرار دیتے ہوئے علمِ بغاوت بلند کر دیا ہے۔ یہ دونوں جج اپنی آئینی سوجھ بوجھ اور کردار کے اعتبار سے مقام بلند پر فائز ہیں لیکن ان کے دوسرے رفقا نے ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ اعلیٰ عدالتوں کے تمام جج ترمیم شدہ آئین کے تابع اپنا کام جاری رکھنے میں کوئی قباحت یا رکاوٹ محسوس نہیں کر رہے۔ وکلا کی بڑی تعداد بھی اسی رائے کی حامی ہے۔ چند وزرائے کرائم نے مستعفی ہونے والے ججوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے دل کا غبار نکالا ہے‘ وہ اگر بے قابو نہ ہوتے تو خود ان کے حق میں بہتر ہوتا۔ مستعفی ہونے والے ان کی تیر اندازی سے مجروح نہیں ہوئے کہ وہ جس مقام پر ہیں وہاں تیروں کی بوچھاڑ پہنچ ہی نہیں سکتی۔ ستائیسویں ترمیم میں وفاقی آئینی عدالت کی تخلیق کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے لیکن اس کی حیثیت ثانوی ہو چکی ہے۔ افواجِ پاکستان کے تنظیمی امور کو کسی سیاسی مباحثے کا موضوع نہیں بننا چاہیے۔ اس معاملے میں سنجیدگی سے غور کرنا لازم ہے۔ جہاں تک صدرِ پاکستان کے تاحیات استثنا کا تعلق ہے‘ لگتا ہے کہ اس پر غور و خوض کیے بغیر الفاظ کتابِ آئین میں داخل کر دیے گئے ہیں۔ اس کا فائدہ فوری طور پر تو ڈاکٹر عارف علوی صاحب کو پہنچ جائے گا۔ اگر یہ لکھ دیا جاتا کہ سابق صدر کے خلاف پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی اقدام نہیں ہو سکے گا تو کہیں بہتر ہوتا۔
وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے بعد سپریم کورٹ میں سماعتوں کی رفتار کتنی تیز ہو گی اور مقدمات کس قدر جلد نبٹائے جا سکیں گے‘ یہ گزرتے وقت کے ساتھ واضح ہوتا جائے گا‘ جو سیاسی جماعتیں اور وکلا تنظیمیں ترمیم کی مخالف ہیں‘ ان کو حق حاصل ہے کہ رائے عامہ ہموار کریں۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے اسے نکال باہر کریں‘ لیکن آئین کی بالادستی کے نام پر ایسا کوئی اقدام نہیں ہونا چاہیے جس سے دستوری اور جمہوری عمل میں خلل پڑنے کا خدشہ ہو۔ پاکستان کا بنیادی مسئلہ اہلِ سیاست کے درمیان محاذ آرائی ہے۔ دنیا کے کسی جمہوری ملک میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میں وہ فاصلہ نہیں جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہے۔ ہماری تاریخ ان دونوں احزاب کے درمیان ''جنگ و جدل‘‘ سے بھری ہوئی ہے۔ اگر اہلِ سیاست اپنے معاملات آپس میں طے کرنے پر آمادہ رہتے‘ پارلیمنٹ کو بالادست بناتے تو پھر سپریم کورٹ یا کسی دوسرے ادارے کو تجاوز کی جسارت نہ ہوتی۔ اب بھی مسائل کا حل یہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے تاریخ سے جو سبق سیکھ لیا ہے‘ اگر وہ اس پر قائم رہیں اور تحریک انصاف بھی اس دائرے میں شامل ہو جائے تو پھر حالات ہموار ہوتے جائیں گے۔ جب تک ایسا نہیں ہو گا بہت کچھ ایسا ہوتا رہے گا جس کی تمنا نہیں کی جا سکتی۔
عرفان صدیقی مرحوم
سینیٹر عرفان صدیقی دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن دل میں بدستور موجود ہیں اور موجود رہیں گے۔ ایک میرے ہی دل کا معاملہ نہیں‘ وہ بے شمار دلوں کی دھڑکن تھے۔ عمر کا بڑا حصہ مدرس کے طور پر گزارا۔ ریٹائرمنٹ لی تو کوچۂ صحافت میں قدم رکھا۔ ممتاز ترین کالم نگاروں میں شمار ہونے لگے‘ اپنی رائے کا دوٹوک اظہار کرتے۔ لگی لپٹی رکھے بغیر دل کو زبان پر لے آتے۔ جناب محمد صلاح الدین شہید سے لے کر جناب مجید نظامی مرحوم تک اور جناب عطا الحق قاسمی سے لے کر جناب الطاف حسن قریشی تک ان کی بلائیں لینے لگے۔ ان کے قلم اور علم ہی نے برادرم اعجاز الحق‘ مرحوم صدرِ پاکستان محمد رفیق تارڑ اور وزیراعظم نواز شریف تک کو ان کا گرویدہ بنایا۔ وہ قلم کی انگلی پکڑ کر کوچۂ سیاست میں پہنچے۔ مسلم لیگ (ن) سے تعلق قائم ہوا تو اسی کے ہو رہے۔ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سینیٹر بنے‘ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ اپنے قلم اور زبان کو دل کا ہم آہنگ رکھا۔ ہم مسلسل اپنے آپ کو پُرسہ دینے میں لگے ہوئے ہیں لیکن دل ہے کہ اس کی خانہ ویرانی نہیں جاتی۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved