ناکامی نہیں ، بخدا ہم ان کی کامیابی کے متمنی ہیں ۔ کوئی جائے اور جا کر میاں صاحب کو بتائے کہ ابدیت سفر کو ہے ، مسافر کو نہیں ۔ جمہوریت اصولوں کی حکمرانی ہے ،ا فراد اور خاندانوں کی نہیں ۔ خالی خولی حکمت عملی کوئی چیز نہیں ؎
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے
حیرت ہے کہ سرتاج عزیزجیسے سنجیدہ شخص نے وہ بات کیسے کہہ دی، حقیقتِ حال سے جس کا واسطہ نہ تھا۔ ایسے وہ ہرگز نہیں کہ بے پر کی اڑائیں ۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ خوش فہمی کا وہ شکار ہوئے اور ان کی قیادت بھی ۔ حیرت ہے کہ شیریں مزاری کا اندازہ درست ثابت ہوا۔ انکل سام نے جب باضابطہ اعلان کیا ہی نہیں تو امید کس برتے پر؟
بھولے سے مسکرا تو دئیے تھے وہ فیضؔ آج
مت پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے
معتبر تھنک ٹینک کارنیگی انڈومنٹ کے ایک تازہ مطالعے میں انکشاف ہوا کہ جذبات بھی ایک سائنس ہے ۔انہیں پڑھا جا سکتا ہے، سمجھا جا سکتاہے ، بہتر بنایا جا سکتاہے اور ان کی قطع و برید ممکن ہے۔ ابنِ جوزیؒ اور امام غزالیؒ سمیت ، عالمِ اسلام کے بعض ممتاز مفکر ، صوفیاء کرام؛ حتیٰ کہ بلہے شاہ اور سلطان باہو ایسے عظیم شعرا صدیوں سے یہ نکتہ آشکار کرتے آئے ہیں ۔ افسوس کہ غور وفکر ہم نے ترک کیا، سوچنا ہم نے چھوڑ دیا۔ خود کو جذبات کے حوالے کیا اورتقدیر کے ۔ درویش نے کہا تھا : جہاں جدوجہد نہ ہو ، وہاں مقدرات حکومت کرتے ہیں ؎
حقیقت، خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
ادبار میں گھری قوم تو کیا، اللہ کا قانون یہ ہے کہ کسی فرد کے مسائل بھی کوئی دوسرا حل نہیں کیا کرتا۔ دمِ وداع آپ کے مرشد ابو الفضل ختلیؒ نے شیخِ ہجویرؒ سے کہا تھا: بیٹا خدا بننے کی کوشش نہ کرنا۔ یعنی جو ابتلا میں ہے ، تو بہ کے بغیر وہ ابتلا ہی میں رہے گا۔ مریض کو بیماری سے خود نمٹنا پڑتاہے ، خود ہی۔ مسائل پیچیدہ ہیں مگر لا ینحل قطعی نہیں ۔ مشکل مگر یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ ، انحصار کرنے والا طبقہ ہے۔ الجزائر کی تحریکِ آزادی کے ہمنوا ، فرانس کے اس ممتاز دانشور فرانزز فینن نے کہا تھا: غلام کا مسئلہ یہ ہوتاہے کہ وہ اپنے آقا کے ذہن سے سوچتاہے ۔ اتنی سی بات ہے ، بس اتنی سی۔ اصول یہ ہے کہ مرض کی تشخیص اگر مکمل نہ ہو تو علاج ادھورا رہے گا ۔ مرض بگڑ تا جائے گا۔
چھ دن کے بعد وزیراعظم نواز شریف کو یاد آیا کہ سانحہء راولپنڈی کے مجرموں کوسزا ملنی چاہیے۔ اس میں بھی زیادہ زور انتظامی افسران پہ ہے ۔ انتظامی افسر ذمہ دار ہیں مگر کیا وہی ؟ شواہد سامنے آچکے کہ دونوں طرف کے علمائِ کرام میں چند ایک ایسے ہیں، جو خرابی کے مرتکب ہوئے ۔
ان کا تعین ہونا چاہیے اور آسانی سے ہو سکتاہے ۔ رو رعایت کے بغیر قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ فتنہ پیدا کرنے والوں کو معاف کرنے کا سوال ہی کیا ۔ رہے وہ لوگ جو قتلِ عام کے ذمہ دار ہیں تو وہی سلوک ان کے ساتھ ہونا چاہیے، جو قاتلوں کے ساتھ کیا جا تاہے ۔ بس یہی تین نکات ہیں ۔ اندازِ فکر کی خامی یہ ہے کہ ہم کوڑا کرکٹ قالین تلے چھپانے کے عادی ہو گئے ۔ نتیجہ معلوم۔
امیر تیمور نے اپنے گورنر کو برطرف کر دیا کہ ٹیکس وصولی کے لیے اس نے ایک تاجر کو سزا دی ۔ امیر نے سوال کیا: کیا ہماری حکومت اس قدر بے معنی ہے کہ محصولات وصول کرنے کے لیے کوڑ الہرایا جائے؟
مسائل واضح ہیں اور انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں ۔ سب سے اوّل امن کا قیام ہے اور یہ ممکن نہیں ، جب تک افسر شاہی کوقانون کے دائرے میں پوری آزادی عطا نہ کی جائے ۔ خود شریف حکومت سے اس کی دو مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔ سندھ میں دوسری صوبائی حکومت کے باوجود کراچی میں قیامِ امن کا تہیہ کر لیا گیا تو نتائج مثبت رہے ۔ افواج اور میڈیا سمیت ، پورے ملک کی تائید، وزیر اعظم کو حاصل ہوئی ۔ الیکشن سے پہلے پنجاب کی صوبائی حکومت نے من مانی کا ارادہ کیا تو اپنے ارکانِ اسمبلی سے کہاکہ وہ اپنی پسند کے پولیس افسروں کا انتخاب کر لیں ۔ آخر آخر کو حال یہ تھا کہ ایک تھانیدار کا تبادلہ بھی وزیرِاعلیٰ کی مرضی کے بغیر نہ ہو سکتا تھا۔ نتیجہ اس کا بھی مثبت رہا۔
اس زمانے میں شخصی طرزِ حکومت ؟ شہباز شریف بیمار ہیں ۔ اتنے بیمار کہ آواران میں زلزلہ آیا تو سٹریچر پر لیٹ کر گئے ۔ ان کی عالی ہمتی کو سلام۔ ملک مگر اس طرح نہیں چلتے۔ صوبہ انہوںنے فرزند کو سونپ رکھا ہے ۔ طبیعت ماند ہونے کے باوجود ، خود مرکزمیں مداخلت پر تلے رہتے ہیں ۔ خود خاندان کے ا ندر اس پر اختلاف ہے ۔
معیشت کی زبوں حالی! سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ ٹیکس وصولی اور بیرونِ ملک سرمایے کے فرار پہ کوئی توجہ نہیں ۔ سٹیٹ بینک کے گورنر بتا چکے کہ ہر روز 25ملین ڈالر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں ۔ اب تک کیا ہوا؟ 39لاکھ ٹیکس نا دہندگان کے خلاف پانچ ماہ میں کتنی ریاضت ہوئی ؟ معیشت پنپ نہ سکے گی ، اگر امن قائم نہ رہے اور سیاسی استحکام کی تدبیر نہ ہو ۔ تحریکِ انصاف کی حکومت نے اقتدار خطرے میں ڈال کر اپنی حلیف پارٹی کے وزرا برطرف کیے ۔کیا ہماری تاریخ میں کوئی اور ایسی مثال موجود ہے؟ میاں صاحب کے نئے حلیف مولانا فضل الرحمٰن اس پر شاد ہیں اور الزامات کی بارش انہوںنے کردی۔ وزیر اعظم کے اپنے مفاد میں ہے کہ انہیں روکیں ۔ عمران خان کی حکومت گئی تو انہیں کوئی صدمہ نہ ہوگا۔ بھان متی کا کنبہ اگر جوڑا گیا تو ایک نیا خطرناک محاذ کھلے گا۔ گھر پھونک کر تماشہ دیکھنے کے خواب؟
شریف حکومت نے ڈرون حملوں پر یقینا ایک مضبوط موقف اختیار کیا ۔ بحیثیتِ مجموعی مگر ایک مربوط حکمتِ عملی کارفرما نہیں ۔ صدر اوباما سے ملاقات کے دوران وزیراعظم کا رویہ اس قدر معذرت خواہانہ رہا کہ خدا کی پناہ۔ اگر اوباما نے ڈرون حملے روکنے کا اشارہ واقعی دیا تھا تو واضح ہے کہ ایوانِ صدر ، پینٹاگان اور سی آئی اے میں اندازِ فکر کا اختلاف ہے ۔ پالیسی بنانے والوں کو اس کی جہات پر غور کرنا چاہیے ۔ ممکن ہے ، میری گزارش کو سرسری سمجھا جائے ، حقیقت یہ ہے کہ سرکاری کارخانے میں جنرل اشفاق پرویز کیانی ہی ایک مردِ کار ہیں، جو امریکیوں کو جانتے اور سمجھتے ہیں ۔ قرائن یہ ہیں کہ شاید وہ سبکدوش نہ کیے جائیں ۔ ممکن ہے کہ اختیارات میں اضافہ کر کے انہیں جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا جائے ۔ ان کی نہیں ، یہ شریف حکومت کی ضرورت ہے ۔ تنہا مگر وہ اس مسئلے سے نمٹ نہیں سکتے ۔ قومی بیداری اور اتحاد کی ضرورت ہے ۔ تحریکِ انصاف نے اپنا سپیکر مولانا فضل الرحمٰن کی خدمت میں بھیجا تو انہوں نے اسے کمزوری پر محمول کیا اور دھاڑنے لگے ۔۔۔مریضانہ اندازِ فکر ۔ ایسے آدمی سے گریز ہی بہتر ہے ۔ تحریکِ انصاف کی حکومت آسانی سے ختم نہیں کی جا سکتی۔
عقل کبھی مجرّد نہیں ہوتی ۔ وہ عدل کی آرزو اور اعلیٰ مقاصد کے ساتھ بروئے کار آتی ہے یا ادنیٰ مفادات کے جلو میں ۔ بہت مہلت نہیں ہے ، نواز شریف کے لیے بہت مہلت نہیں ۔ انہیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ اب بھی اپنے لیے وہ جئیں گے یا ملک کے لیے ۔
ناکامی نہیں ، بخدا ہم ان کی کامیابی کے متمنی ہیں ۔ کوئی جائے اور جا کر میاں صاحب کو بتائے کہ ابدیت سفر کو ہے ، مسافر کو نہیں ۔ جمہوریت اصولوں کی حکمرانی ہے ،ا فراد اور خاندانوں کی نہیں ۔ خالی خولی حکمت عملی کوئی چیز نہیں ؎
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے