تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     17-11-2025

سنت وحدیث، مکتبِ فراہی اور روایت

سنت اور حدیث دو مختلف اصطلاحیں ہیں۔ ان کے فرق کو جاوید احمد غامدی صاحب نے روایت کی روشنی میں اس طرح واضح کر دیا ہے کہ عقلِ سلیم کے لیے کسی ابہام یا پراگندگیٔ فکر کا کوئی امکان باقی نہیں رہنا چاہیے۔
روایت کے حوالے سے میں یہاں ایک بار پھر برصغیر کے دو جید علما کی تفہیم نقل کروں گا کہ وہ اس فرق کو کیسے دیکھتے ہیں۔ مولا نا مودودی لکھتے ہیں: ''حدیث سے مراد وہ روایات ہیں‘ جو حضورﷺ کے اقوال وافعال کے متعلق سند کے ساتھ اگلوں سے پچھلوں تک منتقل ہوئیں۔ اور سنت سے مراد وہ طریقہ ہے جو حضورﷺ کی قولی وعملی تعلیم سے مسلم معاشرے کی انفرادی واجتماعی زندگی میں رائج ہوا جس کی تفصیلات معتبر روایتوں سے بھی بعد کی نسلوں کو اگلی نسلوں سے ملیں اور بعد کی نسلوں نے اگلی نسلوں میں اس پر عمل درآمد ہوتے ہوئے بھی دیکھا‘‘ (تفہیم القرآن‘ 6؍170 تا 171)۔ ایک تقریر میں مولانا نے اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا: ''سنت اس طریقے کو کہتے ہیں جو حضورﷺ نے خود اختیار فرمایا اور امت میں اسے جاری کیا... حدیث کا اطلاق متعدد چیزوں پر ہوتا ہے۔ علمِ حدیث کو بھی حدیث کہتے ہیں۔ احادیث کے مجموعے کو بھی حدیث کہتے ہیں... ظاہر ہے کہ حدیث کے تمام مجموعوں کا حکم یکساں نہیں ہو سکتا اور کوئی ہوش مند آدمی یہ مطالبہ نہیں کر سکتا کہ سارے ذخیرۂ حدیث میں جو کچھ درج ہے‘ اسے بلاچون و چرا سنت کی حیثیت سے تسلیم کر لیا جائے‘‘ (مولانا مودودی کی تقاریر‘ حصہ دوم‘ ص: 457)۔
سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں: ''آج کل لوگ عام طور پر حدیث وسنت میں فرق نہیں کرتے اور اس کی وجہ سے بڑا مغالطہ پیش آتا ہے۔ حدیث تو ہر روایت کا نام ہے جو ذاتِ نبویﷺ کے تعلق سے بیان کی جائے‘ خواہ وہ ایک ہی دفعہ کا واقعہ ہو یا ایک ہی شخص کا بیان ہو۔ مگر سنت‘ دراصل عملِ متواتر کا نام ہے یعنی آنحضرتﷺ نے خود عمل فرمایا‘ آپﷺ کے بعد صحابہ نے کیا‘ پھر تابعین نے کیا۔ گویا زبانی روایت کی حیثیت سے متواتر نہیں‘ مگر عملاً متواتر ہے‘‘۔ (معارف‘ اگست 1929)۔
سوال یہ ہے کہ جو بات اس طرح بیان ہو گئی ہو کہ عقلِ سلیم کے لیے کوئی ابہام باقی نہ رہے‘ اس کے بارے میں یہ انتشارِ فکر کیوں ہے؟ میرے نزدیک اس کے چند اسباب ہیں۔ سنت کا لفظ ہمارے دینی ادب میں کئی مفاہیم کے ساتھ رائج رہا ہے۔ ایک مفہوم لغوی ہے۔ جیسے سنت اللہ‘ اللہ کا طریقہ۔ قرآن مجید میں ہے: 'اللہ کی سنت میں تم کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے‘۔ دوسرے مفہوم میں سنت بطور ماخذِ دین مستعمل ہے۔ جیسے یہ کہا جاتا ہے کہ دین قرآن وسنت کا نام ہے۔ تیسرا مفہوم فقہی ہے۔ ہمارے فقہا نے جب مناسکِ عبادات کی درجہ بندی کی تو کسی کو فرض یا واجب کہا‘ کسی کو سنت‘ کسی کو مستحب۔ چوتھا سبب الفاظ کے استعمال میں عمومی تساہل ہے جسے روا رکھا جاتا ہے۔ اس کے تحت نبیﷺ کے کسی عادت مبارک یا فعل کو سنت کہہ دیا جاتا ہے۔ جیسے کدو کھانا سنت ہے‘ یا بیٹھ کر پانی پینا سنت ہے۔ علم کی دنیا میں اس کی ایک صورت یہ ہے کہ حدیث کو بھی سنت کہہ دیا جاتا ہے۔
سنت کا لفظ ان تمام مفاہیم میں استعمال ہوتا ہے۔ اس سے عوام ہی نہیں خواص کے لیے بھی کسی امر کی دینی حیثیت کے تعین کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔ لسانیات کے باب میں یہ قضیہ تب پیدا ہوتا ہے جب کسی لفظ کے معانی میں تعدد ہو۔ اہلِ علم سباق وسیاق سے درست معانی کا تعین کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر لفظ 'رسول‘ ہے۔ قرآن مجید نے حضرت جبریل کو بھی رسول کہا ہے۔ یہاں یہ لغوی مفہوم میں ہے۔ قرآن نے نبی کے مفہوم میں بھی اسے استعمال کیا ہے۔ اسی طرح انبیاء کے ایک خصوصی گروہ کے لیے بھی 'رسول‘ کی اصطلاح مروج ہے۔ اطلاقی اختلاف کے ساتھ‘ یہ مانا جاتا ہے کہ ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ اہلِ علم کا کام یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال میں ابہام کو دور کریں اور بات کو اس طرح واضح کر دیں کہ انتشارِ فکر کا خاتمہ ہو جائے۔ یہ ایک طرح کا کارِ تجدید ہے۔ سنت وحدیث کے باب میں جاوید احمد غامدی صاحب نے یہی خدمت سر انجام دی ہے۔
انہوں نے ایک کام یہ کیا ہے کہ سنت کی اصطلاح کو بطور ماخذِ دین خاص کر دیا ہے۔ اس مفہوم کے ساتھ یہ لفظ پہلے سے دینی ادب میں رائج ہے۔ اب تعدد کے باعث پیدا ہونے والا ابہام ختم ہو گیا ہے۔ جاوید صاحب کے نظامِ فکر میں حدیث‘ خبر‘ روایت یا مناسکِ عبادت پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ان مفاہیم کے لیے انہوں نے 'تفہیم و تبیین‘ اور 'اسوہِ حسنہ‘ کی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ اس سے وہ راستہ بند ہوگیا جس سے انکارِ سنت یا استخفافِ حدیث کی گمراہی اقلیمِ دین میں داخل ہو سکتی تھی۔ اس ابہام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ چند روایات کی سند یا مضمون کو بنیاد پر بنا کر‘ قصرِ سنت کو گرانے کی کوشش کی جاتی تھی جو تواتر کی ناقابلِ تسخیر بنیاد پر کھڑی ہے۔ اب اگر بخاری ومسلم کا تمام کام چیلنج ہو جائے تو بھی سنت کی اتھارٹی متاثر نہیں ہو گی۔ احادیث کے ذخیرے میں موجود روشنی سے بھی اب پورے اعتماد کے ساتھ استفادہ ممکن ہو گیا ہے۔ جاوید صاحب کا حال ہی میں کتابی صورت میں سامنے آنے والا کام 'علم النبی‘ اس کی شہادت ہے۔
غامدی صاحب نے دوسرا کام یہ کیاکہ دینی ذخیرے کو سامنے رکھتے ہوئے گن کر بتا دیا کہ کس کس امر پر سنت کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ 26 سنن ہیں۔ یہ بات تو سب مانتے تھے کہ سنت دین کا وہ حصہ ہے جو نبیﷺ نے امت میں جاری فرمایا اور جس کی پابندی لازم ہے مگر کسی نے اسے دو اور دو چار کی طرح متعین نہیں کیا تھا۔ جاوید صاحب نے یہ خدمت بھی سرانجام دی۔ انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ ملتِ ابرہیمی کی وہ روایت کیا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو جس پر قائم رہنے کا حکم دیا اور جسے آپﷺ نے بدعات سے پاک کرتے ہوئے‘ اضافوں کے ساتھ امت میں رائج کر دیا۔ اب یہ صرف آپﷺ کی سند سے ثابت ہے۔ اس طرح ملتِ ابراہیم اور انبیاء کی پوری روایت آپﷺ کی ذاتِ والا صفات میں سمٹ آئی جو ختمِ نبوت کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ سنت زمانی اعتبار سے قرآن مجید پر مقدم ہے۔ نماز یا حج اس لیے فرض نہیں ہے کہ قرآن مجید نے پہلی بار ان کا حکم دیا۔ یہ سابقہ انبیاء اور ملتِ ابراہیمی میں بھی موجود تھے۔
واقعہ یہ ہے کہ وحی‘ فطرت‘ سنت اور حدیث کے باب میں جاوید احمد غامدی صاحب نے جو علمی خدمات سرانجام دی ہیں‘ اس نے عقلِ سلیم کے لیے دین فہمی کے راستہ سہل بنا دیا ہے۔ اس میں اب نیچریت کا پیوند لگایا جا سکتا ہے نہ جدیدیت اور عقل پرستی کا۔ یہ کام اس علمی روایت کے اندر ہوا ہے جو ہمارے جلیل القدر اسلاف کی کوششوں سے ایک جاری اور غیر متحجر عمل رہا ہے۔ جاوید صاحب نے وہی کام کیا ہے جو ابوحنیفہ‘ ابنِ تیمیہ اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہم جیسے رجال نے‘ بقدرِ توفیق اپنے اپنے ادوار میں سرانجام دیا۔ یہ ایک تسلسل ہے جس میں دین کے ایک طالبِ علم کے لیے کچھ اجنبی نہیں۔
میں نے ابھی تک اپنی بات کو سنت و حدیث کے دائرے میں محدود رکھا ہے۔ اس سلسلہ مضامین کے اگلے حصے میں مَیں ان شاء اللہ بتاؤں گا کہ جہاد اور اہلِ کتاب کے ساتھ شادی کے بارے میں غامدی صاحب کا مؤقف کیا ہے اور ان پر کس طرح کا اتہام باندھا گیا۔ یہ ممکن ہے کہ اس سلسلہ مضامین کی یہ آخری کڑی ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved