ایک زمانہ تھا جب کالجوں اور جامعات میں ہماری نسل کے نوجوان انقلابوں کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ بڑے بڑے انقلابی مفکروں کی ضخیم کتابیں پڑھتے‘ اور آج کل کے موسم میں سبز لانوں میں فرشی نشستیں بچھا کر گھنٹوں پیچیدہ فلسفوں‘ تاریخ اور دنیا بھر میں اٹھتی تحریکوں پر بحث کرتے۔ یہ سلسلہ سالہا سال تک چلتا رہا‘ اور نجانے کتنے ہزار سگریٹوں کی ڈبیاں اور چائے کی پیالیاں ہماری زبانی کلامی انقلابی جدوجہد کی نذر ہوئیں۔ رات کو بھی خواب ہم انقلاب کے دیکھتے کہ سماج کی ناہمواریوں‘ طاقتور طبقات کی ستم روی‘ لوٹ کھسوٹ‘ غربت اور اشرافیہ کی منافقت ہمیں پہلو میں لگے کانٹوں کی طرح چبھتی۔ صبح اٹھتے ہی اپنے اپنے شعبوں میں کلاسوں اور کتب خانوں میں پڑھنے کے بعد ہماری فکری مجالس کا حسبِ معمول آغاز ہو جاتا۔ ہمارے گروہ کا مرکز منظور اعجاز مرحوم ہوا کرتے تھے۔ کبھی کبھار جاڑے کی سرد شاموں کو ہم انقلابی باتوں سے گرم رکھنے کی تدبیر کرتے۔ لہجے اور خصوصی لباس‘ کالی ٹوپی جس پر ایک ستارہ ہوا کرتا تھا‘ وہ لاطینی امریکہ کے چی گویرا کی جدوجہد سے فکری اور عملی طور پر وابستہ رکھتے تھے‘ اور ان کی مائو کیپ ابھی تک ہمارے حفاظتی حصار میں ہے۔ کبھی کبھار اسے نکال کر دیکھتا ہوں اور پھر ہلکی سی شکست خوردہ مسکراہٹ کے ساتھ جلدی سے لفافے میں بند کر کے برسوں بھول جاتا ہوں ۔ اُس انقلاب کا زور اسی وقت ٹوٹ گیا تھا جب ہم ایم اے سیاسیات کے آخری سالوں میں چین کے بارے میں مقالہ لکھ رہے تھے۔ فروری 1972ء میں امریکی صدر رچرڈ نکسن نے چین کا تاریخی دورہ کیا اور پورا ایک ہفتہ اس ملک میں گزارا۔ کمال کا وہ لمحہ ابھی تک برقی پٹیوں میں محفوظ ہے کہ چیئرمین مائوزے تنگ اور صدر نکسن گرم جوشی سے مصافحہ کر رہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مائوزے تنگ ہاتھ چھوڑ ہی نہیں رہے۔ ہمارے اشتراکی انقلابی خواب آہستہ آہستہ تشکیک کا شکار ہوتے ہوئے ایک دو برسوں میں اس وقت ٹوٹ کر بکھر گئے جب ہم نے اسلامی سوشلزم کی عملی صورت اپنے ملک میں دیکھی۔
اشتراکی انقلاب کا سحر ٹوٹا تو ایک دوسرا انقلابی جنون ذہن اور اعصاب پر سوار ہو گیا جب ہمیں ایک امریکی جامعہ میں اعلیٰ تعلیم کا موقع ملا۔ ایسا لگا کہ ہم ایک میکدے سے نکل کر دوسرے میں داخل ہو گئے ہیں۔ ہماری اوائلِ جوانی کی عملی اور فکری نشستوں کا اثر اتنا گہرا تھا کہ ہم اپنے ملک کے سماجی اور سیاسی انتظامات اور غالب طبقات کی بالا دستی‘ کرپشن اور مطلق العنانی سے کبھی خوش نہ تھے۔ جامعہ پنجاب میں ہی جمہوری فلسفوں‘ مغربی تہذیب‘ صنعتی انقلاب اور جدید ادبی دھاروں سے‘ اگر سب کی نہیں تو کم از کم انقلابی دوستوں کی گہری دلچسپی اور آگاہی تھی۔ اسی لیے بعد میں ہمارے سب ساتھی بنیادی انسانی حقوق‘ عوامی حاکمیت‘ برابری اور سماجی انصاف کی تحریکوں سے وابستہ ہو گئے۔ عمر‘ تجربے اور مشاہدے سے انسان بہت بدل جاتا ہے‘ اور ایسا ہونا فطری بات ہے کہ نہ ارتقا کا سماجی عمل رکتا ہے اور نہ ہی ہمارے تجسس اور جستجو کا۔ جب انقلابی بحث‘ پرچی یا برچھی پر آن کر رکتی تو ہم پرچی کے قائل ہو چکے ہوتے کہ لوگوں کو اپنے فیصلے خود کرنے کا فطری حق ہے‘ اور ان کی اپنے سماجی‘ سیاسی اور معاشی فیصلوں پر حاکمیت کا اصول عالمگیر حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے بڑا انقلابی نظریہ کیا ہو سکتا ہے کہ لوگ اپنا مفاد خود سمجھتے ہیں‘ اور اس کے مطابق اکثریت کسی شخص یا جماعت کو اقتدار کا حق دے سکتی ہے‘ جو ایک مقرر مدت کے لیے ہے۔ اگر وہ اپنے وعدوں اور منشور کے خلاف کام کرتے ہیں تو عوام انہیں جوابدہ ٹھہرا کر مسندِ اقتدار ان کی متبادل کسی دیگر جماعت کو سونپ سکتے ہیں۔ سادہ سا اصول ہے‘ مگر اسے منوانے اور اس کے مطابق معاشروں کو ترتیب دینے کا ہنر صرف مغربی جمہوری ممالک نے ہی سیکھا ہے۔ وہاں بھی تاریخ میں بڑے بڑے انقلاب آئے۔ مراعات یافتہ بالا طبقات کے پاس حکومتی طاقت اور جبر کے سب ہتھیار موجود تھے‘ اور کسی صورت وہ انسانوں کی بنیادی برابری کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔
ہم تو آج کی گھٹی گھٹی فضامیں بھی اس سادہ اور عام فہم نظریے کو دل میں بسائے بیٹھے ہیں کہ ہماری فہم وفراست جو بھی ہے‘ اور پھر تاریخ کے کچھ بوسیدہ اوراق اور حق و باطل کی تمیز کے وہ ابتدائی مکتب کے سبق‘ کسی اور سوچ کے لیے ذہن کی کوئی کھڑکی وا کرنے کی گنجائش نہیں رکھتے۔ اس لیے یہاں جب بھی جمہوریت کے نام پر کوئی اٹھا‘ تحریک چلائی‘ آواز بلند کی اور علمِ مزاحمت زبردستی کی حکومتوں کے خلاف اٹھایا‘ ہماری نسل کے انقلابیوں کی پوری ہمدردیاں اس کے ساتھ ہو گئیں۔ میری نسل کے لوگ آہستہ آہستہ اپنی آخری منزل کی طرف رواں ہیں‘ مگر ان پر فخر ہے کہ ہوش سنبھالتے ہی ہم‘ سب نہیں تو اہلِ فکر‘ حساس اور متحرک لوگ ایوب خان کی آمریت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے‘ اور ہمیں ان کے ساتھ رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ کئی اور ادوار جبر کے آئے‘ تحریک اور سوچ کے چراغ گل کرنے کی سب تدبیریں ہوئیں مگر چنگاریاں کہیں نہ کہیں زندہ رہ گئیں‘ اور پھر شعلہ بن کر بھڑک اٹھیں۔
وہ دن کبھی نہیں بھولوں گا جب صدر جنرل پرویز مشرف نے کسی خفیہ سیاسی معاہدے کی پاسداری اور اپنی حیثیت کو مزید تقویت دینے کیلئے ہنگامی صورتحال کا نفاذ کر کے آئین میں ترامیم کر لیں۔ پھر عدلیہ کی آزادی کی تحریک ایسی جاندار اور ہمہ گیر چلی کہ ہماری ایوب مخالف تحریک کی یادیں تازہ کر دیں۔ مگر اب کی بار اس کا دائرہ بہت وسیع تھا جسے آپ عوامی حمایت کہتے ہیں۔ ایک سال تک سابق عدلیہ کو بحال نہ کیا گیا تو تحریک نے مزید زور پکڑا اور اس میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف بھی پُرجوش انداز میں باہر نکلے۔ 'عوامی جماعت‘ نے گورنر راج لگا کر شہباز شریف صاحب کی حکومت کو چلتا کیا۔ وہ بھی کیا دن تھا جب پورے لاہور میں میاں صاحبان کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان ایک میدانِ کارزار بنا ہوا تھا۔ آخر میاں صاحب کا لانگ مارچ عدلیہ کی آزادی کے لیے سب رکاوٹیں عبور کر کے شام تک گوجرانوالہ پہنچ گیا۔ اسی رات اندھیرا گہرا ہوتے ہی آخری شب اعلانِ فتح ہو گیا۔ اسی وقت ہم بھی ایک سمت جا نکلے جہاں لوگوں کا ہجوم اتنا تھا کہ گاڑی کہیں دور کھڑی کر کے پیدل پہنچا۔ ان کے کسی قریبی کو فون کیا تو انہوں نے اندر آ کر بڑے جج صاحب سے ملاقات کے لیے بلا لیا مگر ہم نے معذرت کی اور واپس لوٹ آئے۔ ہمارے لیے شخصیات اہم نہیں‘ وہ تو آتی جاتی رہتی ہیں۔ ادارے ریاست اور معاشرے کا ستون ہوتے ہیں۔
معذرت کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تین آزادیاں ہماری سیاسی اشرافیہ‘ جو زیادہ تر دو تین موروثی خاندانوں کے قبضے میں ہے‘ کو کبھی راس نہیں آئیں اور نہ آ سکتی ہیں‘ جو کہ عوام کے ووٹ‘ ان کے ضمیر اور آئین کی آزادی ہیں۔ اب ہم بہت تھک چکے ہیں‘ بہت تحریکیں دیکھیں‘ خود بھی کچھ میں محدود حصہ ڈالا‘ تھوڑی سی مشکلات بھی برداشت کیں مگر اب ہم میں وہ سختی نہیں رہی اور رہ بھی کیسے سکتی ہے کہ ملک کی پوری سیاسی اشرافیہ بشمول میاں نواز شریف صاحب‘ جو پہلی مرتبہ گزشتہ پانچ سالوں میں ماسک کے بغیر حقیقی چہرے میں جلوہ گر ہوئے اور 27ویں ترمیم کے موقع پر پارلیمان کو اپنی موجودگی سے زینت بخشی۔ میاں صاحب کو عدلیہ کی اُس آزادی کی تحریک پر بھی دل سے مبارکباد پیش کی تھی۔ اب بھی‘ موجودہ کامیابی کی دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔ ہم خوش ہیں‘ سب رکاوٹیں دور ہوئیں۔ اب ملک میں ترقی‘ استحکام اور خوشحالی کا دور شروع ہوگا۔ مگر ان شعوری چنگاریوں کا کیا کریں جو شعلوں میں بدل سکتی ہیں۔ شکیل بدایونی کا یہ شعر بیگم اختر کی آواز میں ذہن میں گونج رہا ہے:
مرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتشِ گُل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved