کوئی سننے والا نہیں۔ کیا توقع کیجیے؟ کس سے امید قائم کیجیے اور یہ کوئی مبالغہ نہیں کہ بہت بے بسی ہے۔ کالم نگار کے بس میں یا آنسو ہوتے ہیں یا آواز۔ اور یہی دو کام مسلسل کیے جاتے ہیں۔ اس امید پر کہ شاید کسی صاحبِ اختیار کے دل تک رسائی ہو سکے۔ سلیم احمد کا شعر یاد آتا ہے:
شاید کوئی بندہ خدا آ جائے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
ہر بات کسی عام آدمی کو سمجھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ وہ دانشوری کی عینک سے نہیں‘ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ اسے غرض نہیں کہ صدر اور وزیراعظم کیا سوچ رہے ہیں‘ ستائیسویں کے بعد اٹھائیسویں ترمیم کب آئے گی اور سر پر بیٹھے افراد اپنے لیے کون کون سے نئے حفاظتی حصار باندھیں گے۔ عام آدمی کو تو اپنی دال روٹی سے فراغت نہیں کہ وہ دستور‘ عدلیہ‘ اسٹیبلشمنٹ اور اقتدار میں بیٹھے افراد کی نکتہ آرائیوں پر سوچ سکے۔ وہ تو بس یہ دیکھ سکتا ہے کہ چولہا کیسے جلتا رکھا جائے۔ اسے دستور ی ترمیم کی اہمیت سمجھانا بہت مشکل ہے۔ اسی طرح جیسے اس دن مجھے محمد طفیل کو سمجھانا مشکل ہو رہا تھا۔
انسان جس پریشانی میں ہو اس سے ہٹ کر نہ دیکھ سکتا ہے نہ سوچ سکتا ہے۔ میں طفیل کے پاس کچھ کپڑے لینے آیا تھا۔ طفیل کی کپڑے کی چھوٹی سی دکان ہے۔ وقت نے اس کے بالوں میں چاندی بھر دی ہے۔ ساری عمر کپڑے کے تھان کھولتے‘ لپیٹتے گزری ہے لیکن بیٹے اس کام کو پسند نہیں کرتے۔ نسل در نسل بزّازی کے پیشے کی یہ آخری نسل ہے۔ اس دن تھان کے ساتھ ساتھ اس نے اپنا دکھڑا بھی کھول دیا۔ بیٹیاں سب کی ہوتی ہیں اور انہیں عزت کے ساتھ بیاہنا بھی سب نے ہوتا ہے۔ فروری میں طفیل کی بڑی بیٹی کی شادی ہے۔ وہ فکر میں ہے کہ مقررہ تاریخوں پر کوئی اچھا شادی ہال یا مارکی مناسب علاقے میں مل جائے جہاں بارات اور برادری کے 450 افراد سما سکیں۔ کھانا اچھا بھی ہو اور کم بھی نہ پڑے۔ عزت رہ جائے۔ نیا زمانہ ہے بچوں کی پسند جو شادی ہال ہے وہ طفیل کے بس سے باہر ہے۔ ون ڈش مینو بھی اس کے استطاعت سے باہر ہے۔ میں نے کہا: طفیل دو باتیں ایسی ہیں جن پر لاہور میں عمل ہونا ناممکنات میں سے تھا لیکن وہ ہو گئیں۔ ایک پتنگ بازی کا خاتمہ اور دوسرا شادی بیاہ کی تقریبات کا دس بجے رات اختتام اور سادہ کھانا۔ وہ تھان لپیٹتا اور خاموشی سے سنتا رہا۔ میری بات ختم ہوئی تو ایک ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا: 3000 روپے فی کس۔ میں نے کہا: کس چیز کے؟ دبی دبی آواز میں بولا: جی‘ بکرے کے گوشت کے سالن کے ساتھ۔ مرغ قورمہ رکھوں تو 2100 روپے فی کس۔ بچے چاہتے ہیں کہ بارات اور برادری کا معاملہ ہے‘ بکرے کے گوشت کی ایک ڈش تو ہو۔ میں نے کہا: تو تم کھانا الگ جگہ سے بنوا لو اور ہال کا خرچہ ہال والے کو دے دو۔ خرچ کم ہو جائے گا۔کہنے لگا: مارکی والا نہیں مانتا۔ وہ کہتا ہے کیٹرنگ بھی میں ہی کروں گا ورنہ کہیں اور بکنگ کروا لو۔ 450 افراد کیلئے ساڑھے تیرہ لاکھ روپے چاہئیں۔ پھولوں کی سیج‘ سٹیج کا خرچ ڈیڑھ لاکھ روپے علیحدہ ہے۔ میں نے اور میری بیوی نے بڑی مشکل سے جہیز بنایا ہے اور مجھے چھوٹی بیٹی کی شادی بھی ابھی کرنی ہے۔ میں اتنے پیسے کہاں سے لاؤں۔ وہ حق پر تھا۔ میں نے اس کی تائید کی‘ خاموشی سے کپڑے اٹھائے اور گھر آ گیا۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ نہ مجھے علم ہے کہ اس کی تکلیف کس مقتدر فرد یا افراد تک پہنچاؤں۔
کیا کہیں طفیل محمد کی شنوائی ہے؟ حکومت کو محمد طفیل جیسوں کی مدد کرنی چاہیے۔ یہ سب عام آدمی ہیں جو اپنا حق مانگتے ہیں۔ پتنگ بازی کا مکمل خاتمہ اور شادیاں نسبتاً سادہ کھانے کے ساتھ رات دس بجے تک‘یہ دونوں کام بتاتے ہیں کہ اگر حکمران کوئی کام کرنا چاہیں تو مشکل ترین کام بھی کیے جا سکتے ہیں۔ اور جو کام نہیں ہو سکے وہ ارادہ نہ ہونے کے سبب نہیں ہو سکے ورنہ ممکن نہیں کہ نہ ہوتے۔ جب یہ فیصلہ کیا گیا کہ ون ڈش مینو پر عمل کرایا جائے گا اور رات دس بجے تقریبات ختم ہو جایا کریں گی تو اس کا بنیادی مقصد لوگوں کو سادگی کی طرف مائل کرنا تھا اور شادی بیاہ کی تقریبات کم خرچ رکھنے والے شخص کے لیے آسان بنانا تھا۔ کوئی شک نہیں کہ بہت سی قباحتوں اور رشوت خوری کا ایک نیا راستہ نکل آنے کے باوجود امیر اور غریب سب کو کم وبیش ایک ہی سادہ کھانے کی طرف آنا پڑا۔ اسی طرح رات دس بجے کی پابندی سے باراتیں اور مہمان وقت پر پہنچنے کے پابند ہو گئے اور وقت کا اسراف بھی کم ہو گیا۔ لیکن اس سادہ کھانے یا ون ڈش مینو کا اصل فائدہ عوام سے زیادہ شادی ہالوں کا کاروبار کرنے والوں نے اٹھایا۔ اس قانون کے بعد ان کے وقت اور ذمہ داری کے دورانیے میں خاطر خواہ کمی ہو گئی اور اخراجات مثلاً بجلی اور ایئر کنڈیشنرز وغیرہ کے خرچ بھی کم ہو گئے۔ کھانے میں اپنا بھرپور بلکہ ناجائز منافع بدستور شامل رکھنے کے لیے زیادہ تر بڑے شادی ہالوں نے یہ توڑ کیا کہ باہر سے کیٹرنگ ممنوع قرار دے دی اور یہ طے کر دیا کہ کھانا اور ہال کا اکٹھا نرخ ہو گا‘ علیحدہ علیحدہ نہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ون ڈش مینو کے نرخ اتنے ہوشربا رکھ دیے گئے کہ زیادہ کھانوں والے مینو کے بھی اتنے نہیں ہوں گے۔ میں نے کئی بار سمجھنے کی کوشش کی کہ کراچی جہاں ون ڈش کی پابندی بھی نہیں اور وقت کا دورانیہ بھی زیادہ ہے‘ شادی کے کھانوں اور شادی ہالوں کے خرچ لاہور سے بدرجہا کم کیوں ہیں۔ دونوں شہروں کے درمیان خوش خوراکی اور کھانے کے ضیاع کی گنجائشیں شامل کرکے بھی نرخ اور دیگر اخراجات میں بہت فرق تھا اور سچ یہ ہے کہ یہ فرق صرف ناجائز منافع کا ہے۔ لاہور اور کراچی میں یہ فرق ایک سے ڈیڑھ ہزار روپے فی کس تک پہنچ جاتا ہے۔ ساڑھے چار سو مہمانوں پر صرف یہ اضافی منافع پانچ لاکھ سے زیادہ بنتا ہے۔ اگر مہینے میں اوسطاً بیس ایسی تقریبات بھی ہوں تو بظاہر 80 لاکھ سے ایک کروڑ تک اضافی منافع۔ تقریبات تقریباً ہر روز اور بعض اوقات دوپہر اور شام دونوں میں ہوتی ہیں۔ بکنگ اتنی زیادہ ہے کہ کئی کئی ماہ پہلے تاریخ لینی پڑتی ہے اور بنیادی تقریب صرف تین سے چار گھنٹے۔ کیا پیسے وصول کرتے وقت کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ان چند گھنٹوں کے لیے طفیل محمد نے ساری زندگی عمر بامشقت کاٹی تھی۔
ہمارے ہاں ہر شعبے میں دردِ دل رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ شادی ہالوں اور کیٹرنگ کے مالکان میں کچھ صاحبِ دل تو یقینا ایسے ہوں گے جو ادھر توجہ کرکے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں سے ایک اخلاقی ضابطہ منظور کروا سکتے ہوں گے۔ ایسا ضابطہ جس میں ان کا جائز منافع باقی رہے مگر عوام پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑے۔ متعلقہ حکومتی اداروں میں کچھ بااختیار لوگ تو یقینا ایسے ہوں گے جو اس بے مہار منافع کو کنٹرول کرنے کی تجاویز دے سکیں۔ تین تجاویز ایسی ہیں کہ ان پر عمل در آمد سے مسئلہ کافی کم ہو سکتا ہے۔ اول‘ ہال اور کیٹرنگ کے اخراجات الگ الگ ہوں اور ہر ہال یا مارکی والے کو پابند کیا جائے کہ وہ باہر سے کیٹرنگ کی اجازت دے۔ دوم‘ شادی ہال اور مارکی کے معیار‘ علاقے اور آرائش کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت ان کے نرخ کی زیادہ سے زیادہ حدود مقرر کر دے۔ سوم‘ ون ڈش مینو کی مختلف اقسام کے زیادہ سے زیادہ کیٹرنگ نرخ مقرر کر دیے جائیں۔ مسئلے کا حل نکالنا ہو تو حل ضرور نکل آتا ہے۔ ہم وہ معاشرہ ہیں جو مل جل کر محلے کی شادیاں نمٹاتا اور بیٹیوں کو سانجھی خیال کرتا ہے۔ کیا ہم مل کر طفیل محمد کی بیٹیاں عزت سے نہیں بیاہ سکتے۔ ادھر دیکھئے طفیل محمد عمر بامشقت کاٹ کر آیا ہے‘ اور بیٹیوں کو عزت سے شادی ہال کے دروازے تک لانا چاہتا ہے۔ آپ ترمیم کے حامی ہیں یا مخالف‘ کیا آپ محمد طفیل کے ساتھ کھڑے نہیں ہو سکتے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved