ڈیٹرائٹ میں چار روز قبل پہلی برفباری ہوئی‘ اور لان جو پانچ روز پہلے تک سرسبز تھا‘ اب گزشتہ چار روز سے سفید چادر اوڑھے ہوئے ہے۔ لان کا گھاس خاصا ڈھیٹ ہے‘ سردی میں بھی سبزے کی بہار دکھا رہا ہے۔ جہاز میں ڈیٹرائٹ پہنچا تو اندھیرا ہوئے کئی گھنٹے گزر چکے تھے اس لیے مشی گن کی خزاں کا فضا سے نظارہ نہ ہو سکا۔ مسافر نے یادوں کا دریچہ کھولا اور اس فضا سے نیچے درختوں کے رنگ برنگے قطعات کو دکھائی نہ دینے کے باوجود محسوس کیا۔
بہار میں ہر طرف ایک جیسا یا ایک طرح سے ملتا جلتا سبز رنگ دکھائی پڑتا ہے لیکن خزاں کے اپنے ہی رنگ ہیں۔ جیسے ہی گرمیاں رخصت ہوتی ہیں‘ خزاں شروع ہوتی ہے اور جیسے جیسے سردی بڑھتی جاتی ہے اس موسم کے رنگ درختوں کی صورت میں ہر طرف دکھائی دینے لگتے ہیں۔ امریکہ کے شمالی حصے میں سردی زیادہ پڑتی ہے اور برفباری بھی خوب ہوتی ہے لیکن اس موسم میں بھی سدا بہار درخت اپنی چھب دکھاتے رہتے ہیں۔ ان سارا سال سبز رہنے والے درختوں میں پائن‘ سپروس (Spruce)‘ فِر (Fir) اور سڈر (Cedar) کی کئی ذیلی اقسام ہیں۔ دسمبر میں کرسمس ٹری کے طور پر بننے والے مصنوعی درخت بھی فِر‘ سپروس اور پائن کی صورت میں ہوتے ہیں۔ یہ درخت سخت سردی اور برفباری میں بھی سبز ہی رہتے ہیں لیکن باقی درخت آہستہ آہستہ رنگ بدلتے ہوئے ایک عجیب سا رنگین قالین بنا دیتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے نیچے زمین پر سندھ کی ''رِلی‘‘ بچھی ہوئی ہے۔
بعض درخت برفباری سے قبل ہی ٹنڈمنڈ ہو جاتے ہیں۔ یہ ٹنڈمنڈ درخت بھی اپنے اندر ایک عجیب سی اُداسی والا حسن رکھتے ہیں۔ ان درختوں میں سب سے نمایاں سرخ رنگ نکالنے والا شوگر میپل اس دوران تین رنگ تبدیل کرتا ہے۔ پہلے پہل یہ پیلا رنگ اختیار کرتا ہے‘ پھر بتدریج یہ پیلا رنگ سرخ رنگ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور آخر میں یہ نارنجی رنگ اختیار کر لیتا ہے۔ شوگر میپل کے علاوہ ریڈ میپل‘ سلور میپل‘ ناروے میپل اور بلیک میپل کے درخت بھی سنہری‘ پیلے‘ نارنجی اور شوخ سرخ رنگ میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اوک (بلوط) کی عمومی اقسام میں سرخ‘ سفید اور پن اوک بھی خزاں سے لے کر برفباری شروع ہونے تک رنگ بدلتے رہتے ہیں۔
عالم یہ ہے کہ چند بے آب وگیاہ ریاستوں کے علاوہ جہاز کسی شہر سے بھی اڑان بھرے‘ نیچے درختوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ پہاڑوں پر‘ میدانوں میں‘ شہروں کے اردگرد اور شہروں کے درمیان ہر ممکنہ جگہ پر اور سڑکوں کے کنارے‘ غرض ہر اُس جگہ درخت ہیں جہاں درخت لگانا اور اُگانا ممکن ہے۔ درخت لگانے کی جتنی تاکید‘ جتنی فضیلت اور جتنا زور اسلام نے دیا ہے اتنا کسی اور مذہب نے نہیں دیا لیکن ہمارے ہاں ہی درخت دشمنی عروج پر ہے۔ قرآن کریم میں اللہ فرماتا ہے کہ ''وہی ہے جو آسمان سے پانی برساتا ہے‘ پھر ہم اس سے ہر قسم کی نباتات نکالتے (پیدا کرتے) ہیں‘‘ (سورۃ الانعام: 99)۔ پھر اسی سورت کی آیت: 141 میں میرا مالک کھجور اور انگور کے باغات کا ذکر فرماتا ہے۔ قرآن کے مطابق تمام مخلوقات اللہ کی تسبیح کرتی ہیں۔ ''اور کوئی چیز نہیں مگر وہ اس کی تسبیح کرتی ہے‘‘ (بنی اسرائیل: 44)۔ درختوں ہی کے بارے میں اللہ کریم سورۃ البقرہ کی آیت: 25 میں ارشاد فرماتا ہے ''ان کے لیے ہمیشہ رہنے والے باغات ہوں گے‘ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘‘۔ درختوں کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیں کہ اللہ درختوں کی قسم کھاتے ہوئے سورۃ التین کے آغاز میں فرماتا ہے کہ ''قسم ہے انجیر کی‘ اور زیتون کی‘‘۔
اسی طرح احادیثِ نبوی میں بھی درختوں کا کثرت سے ذکر ہے۔ آپﷺ نے فرمایا ''درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے‘‘۔ ایک اور فرمان ہے کہ ''جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی بوئے‘ پھر اس میں سے کوئی انسان‘ جانور یا پرندہ کھا لے تو یہ اس کے لیے صدقہ ہے‘‘۔ درخت لگانے کی اہمیت کو بیان کرنے کے لیے ایک اور بہت مشہور حدیث ہے کہ ''اگر قیامت قائم ہو جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو‘ اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو لگا دے‘‘۔ نبیﷺ نے بلاوجہ درخت کاٹنے سے منع فرماتے ہوئے تنبیہ کی کہ ''جو شخص بے وجہ بیری کا درخت کاٹے‘ اللہ اسے جہنم میں لے جائے گا‘‘(سنن ابی دائود)۔ ان سب احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں کہ شجر دوستی یا دشمنی میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔
ادھر 'عالم کفر‘ میں ایک کے بعد ایک مختلف رنگ کے تختہ ہائے شجر ایسا منظرنامہ تخلیق کرتے ہیں کہ ڈاکٹر وحید احمد کی نظم ''کولاژ‘‘ مجسم ہو کر سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔ باقی کالم کو چھوڑیں‘ فی الحال ''کولاژ‘‘ سے لطف اندوز ہوں۔ کولاژ (Collage) آرٹ کی ایسی شکل ہے جس میں کسی سطح پر مختلف قسم اور رنگوں کے اجزا چپکا کر بے میل چیزوں سے ایک فن پارہ تخلیق کیا جاتا ہے۔ اب اس تناظر میں نظم پڑھیں اور اسے خزاں کے درختوں سے زمین پر بنائے گئے کولاژ پر منطبق کریں۔ مزہ نہ آئے تو پیسے واپس۔
''کولاژ‘‘
اُس نے مٹھی کے گلداں میں ٹہنی رکھی... پتیوں کے کنارے چمکنے لگے... پھول بھرنے لگے اور چھلکنے لگے... اس نے پاؤں دھرے گھاس کے فرش پر... پاؤں کا دودھیا پن سوا ہو گیا... سبزہ پہلے سے زیادہ ہرا ہو گیا... اُس نے دیکھا اماوس بھری رات کو... رات کے سنگ خارا میں روزن ہوا... نور جوبن ہوا‘ چاند روشن ہوا... اُس نے اک بیضوی سا اشارہ کیا... سوچ کی مستطیلیں پگھلنے لگیں... خواہشوں کی تکونیں بھڑکنے لگیں... جب سلیٹ آسماں کی تپکنے لگی... اس نے بارش لکھی پور کے چاک سے... دستِ نمناک سے‘ لمسِ بیباک سے... اُس نے رحلِ دہن پر سخن جو رکھا... ہر سماعت کے پردے کو جزداں کیا... شاملِ جاں کیا‘ جزوِ ایماں کیا... اُس کو چھو کر ہوا جو مسافر ہوئی... بانس بن سارا مُرلی منوہر کیا... سیپ گوپی ہوئی‘ رقص جوہر ہوا... وقت تہہ دار کاغذ کا پُتلا ہوا... برج اس کے اشاروں پہ چلنے لگے... رات دن انگلیوں پہ نکلنے لگے... گیلے ساحل نے جب اس کے پاؤں چکھے... اُس کے نمکیں لبوں میں فتور آ گیا... بحر کو ذائقے کا شعور آ گیا... اُس نے بھادوں کے ابٹن سے چہرہ رنگا... قوسِ رنگیں کو گردن پہ زیبا کیا... نرم سورج کی بندیا کو ٹکیا کیا... میں نے چٹکی سفوفِ شفق سے بھری... پھر پڑھا اس کی آنکھوں کی تحریر کو... بھر دیا کامنی مانگ کے چیر کو... ہم نے شاخِ شبستاں سے لمحے چُنے... اُس نے اُجلی کلائی کو گجرا دیا... میں نے بحرِ تمنّا کو بجرا دیا
اس نظم میں بہار ہے‘ اماوس بھری رات ہے‘ گرمی کی حدت ہے‘ سردی کی شدت ہے اور خزاں کے رنگ ہیں۔ ایسی نظم کے بعد کالم کی ڈور کھینچنا اس سارے منظر نامے کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved