یہ پاکستان ہی تھا جس نے افغانستان میں امن کو خطے کے استحکام کیلئے ناگزیر قرار دیتے ہوئے افغانستان کے مسائل کے سیاسی حل پر زور دیا اور خطے کے ممالک کو آمادہ کیا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے افغان سرزمین سے ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔ اس کے بعد مری مذاکرات ہوں یا دوحہ مذاکرات‘ پاکستان نے اس میں مؤثر کردار ادا کر کے افغانستان میں قیامِ امن کیلئے ہر ممکن کوشش کی۔ 2021ء میں کابل میں طالبان حکومت کا پاکستان سمیت تمام علاقائی ممالک نے‘ ماسوا بھارت کے‘ خیر مقدم کیا لیکن جوں جوں کابل میں طالبان رجیم کے قدم مضبوط ہوتے گئے‘ افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال بڑھتا گیا۔ پاکستان نے بارہا افغان عبوری حکومت کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا‘ شواہد بھی پیش کیے لیکن افغان حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود نہ صرف کالعدم ٹی ٹی پی افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کیلئے مسلسل استعمال کر رہی ہے بلکہ اب افغان شہری بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہو چکے ہیں‘ جس کا بڑا ثبوت اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس اور کیڈٹ کالج وانا کے حملے ہیں‘ جن پر پاکستان کا ردِعمل یقینا فطری تھا۔ اس موقع پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان حالتِ جنگ میں داخل ہو رہا۔ ان کا یہ انتباہ کہ پاکستان افغانستان کے اندر بھی دہشت گردوں کا پیچھا کر سکتا ہے‘ واضح اشارہ ہے کہ پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔
افغانستان سے پاکستان پر دہشت گردانہ حملوں میں حالیہ شدت اکتوبر میں آئی اور اس کا آغاز افغان وزیر خارجہ امیر متقی کے دورۂ بھارت کے بعد ہوا۔ بلاشبہ کسی بھی ملک کو دوسرے ملک سے روابط کا استحقاق حاصل ہے اور پاکستان کی جانب سے افغانستان کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر کبھی اعتراض نہیں کیا گیا لیکن امیر متقی کے دورے پر پاکستان میں اس وقت سب کے کان کھڑے ہوئے جب اس دورے کے دوران افغانستان کی طرف سے ایک ایسا اعلامیہ سامنے آیا جس میں افغانستان نے بھارت کے اس مؤقف کی تائید کی کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ افغان قیادت کے اس طرزِ عمل سے واضح ہو گیا کہ افغان عبوری حکومت اپنی پیشرو حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کے ایجنڈا پر ہی گامزن ہے۔ امیر متقی کے دورۂ بھارت کے فوراً بعد افغانستان سے پاکستان پر حملوں کا جو سلسلہ شروع ہوا‘ پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے ان کا بھرپور جواب دے کر دشمن کو یہ باور کرایا کہ کسی کو پاک سرزمین پر بری نظر ڈالنے کی ہرگزاجازت نہیں۔ مذکورہ صورتحال پر پاکستان کے دوست ممالک خصوصاً سعودی عرب‘ قطر اور ترکیہ نے پہلے دونوں ملکوں میں سیز فائز کرانے اور بعد ازاں کشیدگی کے مستقل خاتمے کیلئے مذاکرات کی سنجیدہ کوششیں شروع کیں۔ دوحہ کے بعد استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستان نے ثالثوں پر واضح کیا کہ ہمارا مسئلہ افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال ہے‘ کشیدگی کے خاتمے کیلئے اس کا مستقل سدباب ناگریز ہے۔ پاکستان کی طرف سے اس حوالے سے تین تجاویز پیش کی گئیں کہ یا تو افغان انتظامیہ دہشت گردوں کے خلاف خود کارروائی کرے‘ یا ہمارے ساتھ مل کر یہ فریضہ سرانجام دے اور اگر ایسا بھی ممکن نہیں تو پھر ہمیں کارروائی کی اجازت دے۔ لیکن طالبان رجیم نے کسی بھی تحریری یقین دہانی سے احتراز برتا جس سے ان کی نیتوں کا فتور ظاہر ہو چکا ہے۔
پہلے کیڈٹ کالج وانا اور پھر اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس پر حملوں اور ان میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کو افغان رجیم کی بھرپور معاونت حاصل ہے۔ افغان طالبان کی امن کوششوں میں سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ طالبان سے مذاکراتی عمل کے دوران بھی پاکستان پر 64سے زائد دہشت گرد حملے ہوئے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے پاس چند آپشنز ہی باقی رہ جاتے ہیں‘ ایک تو یہ کہ پاکستان سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کو روکنے ان دہشت گردوں کے خلاف براہِ راست کارروائیاں کرے اور دوسرا افغانستان پر اقتصادی دباؤ۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ طالبان رجیم دہشت گردوں کی پشت پناہی کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ افغانستان کے نائب وزیراعظم عبدالغنی برادر نے اپنے ایک بیان میں افغان تاجروں کو کہا ہے کہ وہ تین ماہ کے اندر اندر پاکستان پر اپنا تجارتی انحصار ختم کر دیں‘ جو تاجر ایسا نہیں کرتے وہ اپنے نقصان کے خود ذمہ دار ہوں گے۔
افغان طالبان رجیم کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کے پاس افغان سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے بارے مصدقہ ثبوت موجود ہیں جنہیں بڑی عسکری کارروائی کی صورت میں آسانی سے تباہ کیا جا سکتا ہے لیکن پاکستان صرف اپنے دوست ممالک کی اپیل پر کسی بڑی کارروائی سے اجتناب کر رہا ہے‘ یہ ممالک نہیں چاہتے کہ افغانستان میں طالبان کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کے نتیجہ میں افغانستان پھر سے انارکی سے دوچار ہو کیونکہ اس کے اثرات پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ استنبول مذاکرات کی ناکامی کے باوجود ترکیہ کے صدر نے اس مسئلے کے پُرامن حل کیلئے پھر سے کردار ادا کرنے اور اس ضمن میں اپنے وزیر خارجہ‘ وزیر دفاع اور انٹیلی جنس چیف کو پاکستان بھیجنے کا عندیہ دیا۔ ایران بھی اس حوالے سے کردار ادا کرنے کی پیشکش کر چکا۔ یقینا یہ مسلم ممالک نہیں چاہتے کہ دو مسلم ملکوں میں جنگ و جدل کی کیفیت طاری ہو۔
اگلے روز روس کی جانب سے بھی پاکستان اور افغانستان کو اہم شراکت دارقرار دیتے ہوئے علاقائی سلامتی کیلئے مذاکرات کے آپشن کو بروئے کار لانے کا مشورہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اختلافات کے خاتمہ کیلئے آگے بڑھا جائے۔ روس کی طرف سے کہا گیا کہ خطے میں استحکام روس اور عالمی برادری کی ترجیح ہے۔ روس کی جانب سے اس پیشکش کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ روس افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کر چکا ہے اور ایک لحاظ سے وہ محسوس کرتا ہے کہ مسئلے کا پُرامن حل سامنے آئے۔ لیکن افغان طالبان اس حوالے سے کسی مثبت پیشرفت کیلئے تیار نظر نہیں آتے۔ آخر وہ کیوں بھارت کے اثر میں آکر پاکستان مخالف ایجنڈا کا حصہ بن رہے ہیں؟ یہ طالبان کی عبوری حکومت کیلئے ایک امتحان ہے کہ اگر وہ واقعتاً ایک ذمہ دار حکومت ہے تو اسے اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کا خاتمہ یقینی بنانا ہو گا۔
اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ سرحدوں پر تنائو سے داخلی امن و استحکام کا حصول بھی مشکل ہو جاتا ہے مگر اس صورتحال میں خاموش بھی نہیں رہا جا سکتا۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی دونوں ملکوں کیلئے بڑے مسائل ہیں اور پاکستان کی قیادت یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ اپنے امن و استحکام کیلئے تمام ممکنہ اقدامات بروئے کار لائے جائیں گے۔ پاکستانی قیادت کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے لیکن اس کی سرزمین کا دہشت گردی کیلئے استعمال بند ہونا چاہیے۔ یہ ایک جائز مطالبہ ہے لیکن اگر افغان طالبان اس حوالے سے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے تو پھر عالمی قوانین پاکستان کو اپنی بقا اور سلامتی کے لیے یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرے۔ افغان انتظامیہ یہ مت بھولے کہ اگر پاکستان بھارت کو شکست فاش دے سکتا ہے تو افغانستان میں دہشت گردی کے اڈے اور پناہ گاہیں ختم کرنا اس کیلئے مسئلہ نہیں‘ البتہ یہ طالبان رجیم کا اپنا امتحان ہے۔ بہتر ہو گا کہ وہ خود دہشت گردوں کا صفایا کریں۔ یہ ان کے سیاسی مستقبل کیلئے بھی ناگریز ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved