تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     18-11-2025

جیو اکنامکس کا قومی وژن

پاکستان کو قدرت نے ایسی جغرافیائی کلید عطا کی ہے جو جنوبی ایشیا‘ مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے دروازے کھولتی ہے۔ اپنی اسی منفرد جغرافیائی حیثیت کی بدولت پاکستان کو ہمیشہ سے علاقائی اور عالمی سیاست میں بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے۔ پاکستان ایسا سنگم ہے جہاں مختلف تہذیبیں‘ تجارتی راستے اور سٹریٹیجک مفادات آ کر ملتے ہیں۔ پاکستان نے اب اپنے اس قدیم جیو پولیٹکل امتیاز کو جدید جیو اکنامک حکمتِ عملی میں ڈھالنا شروع کر دیا ہے۔ عالمی حلقوں میں سفارتی پذیرائی اور عزت کی وہ مثال اور بین الاقوامی مالیاتی اعتماد کا وہ گراف جو مئی میں بھارت کے خلاف معرکۂ حق میں حاصل ہونے والی شاندار عسکری کامیابی کے بعد بلند ہوا ہے‘ اس کی نظیر ماضی قریب میں کم ہی ملتی ہے۔ یہ کامیابی پاکستان کے عالمی تشخص میں نقطۂ عروج ثابت ہوئی ہے۔ اس دفاعی برتری نے نہ صرف عالمی منظرنامے پر پاکستان کی عسکری قوت کو تسلیم کروایا بلکہ بیرونی سرمایہ کاروں کو بھی تیزی کے ساتھ پاکستان کی طرف متوجہ کیا جس سے معاشی استحکام کی نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ بھارت کے خلاف معرکۂ حق میں تاریخی برتری محض ہماری عسکری فتح نہیں بلکہ ہماری مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت اور جدید جنگی حکمتِ عملی کا بین الاقوامی اعتراف ہے۔ جنگوں میں فتح کے دعوے اکثر جذباتی پردوں میں چھپے ہوتے ہیں‘ ہر فریق اپنے عوام کو مطمئن کرنے کیلئے مرضی کے نتائج سامنے لا کر اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کی کوشش کرتا ہے مگر جب دنیا کی غیرجانبدار آنکھیں اس کامیابی پر مہر تصدیق ثبت کریں تو یہ ملکی وقار کی سب سے بڑی دلیل بن جاتی ہے۔ ہماری اصل کامیابی یہ ہے کہ پاکستان کی فتح کو دنیا تسلیم کر رہی ہے۔ اس کامیابی نے نہ صرف علاقائی سلامتی کو برقرار رکھنے میں پاکستان کے غیرمتزلزل عزم کو اجاگر کیا بلکہ عالمی برادری کو بھی یہ پیغام دیا کہ پاکستان ایک ذمہ دار اور باصلاحیت ایٹمی طاقت ہے جو اپنے دفاع اور علاقائی توازن کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔ اس دفاعی برتری نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی جنگی مہارت اور مضبوط عسکری صلاحیت کو غیرمتزلزل ثابت کر دیا ہے۔
دفاعی کامیابیوں کے بعد سفارتی محاذ پر بھی پاکستان کو غیرمعمولی عزت اور وقار کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔ 2025ء ہمارے لیے ایسا سنہرا سفارتی سال ثابت ہو رہا ہے جہاں کئی ممالک آگے بڑھ کر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو گہرا کرنے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ کئی برادر ممالک نے عملی اقدامات کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ سٹریٹیجک اور دفاعی تعلقات کو مضبوط کیا اور نئے معاہدوں کی بنیاد رکھی ہے۔ سعودی عرب اور آذربائیجان جیسے ممالک کا دفاعی میدان میں پاکستان پر بڑھتا ہوا اعتماد مسلم اُمہ کے اندر پاکستان کی مرکزی حیثیت کو ظاہر کرتا ہے جبکہ اُردن سمیت کئی ممالک کی جانب سے طویل المدتی سٹریٹیجک شراکتیں قائم کرنے کی کوششیں عالمی منظرنامے پر پاکستان کی اہمیت میں کلیدی اضافے کی عکاس ہیں۔
بنگلہ دیش میں بھارتی لابی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے اور وہاں کی قیادت پاکستان کے ساتھ اقتصادی روابط بڑھا رہی ہے۔ یہ تعلقات محض دوستی نہیں بلکہ باہمی سٹریٹیجک مفادات اور علاقائی استحکام کیلئے ایک مضبوط بندھن ہیں۔ عسکری اور سفارتی استحکام نے ملکی معیشت کے بند دروازے کھول دیے ہیں۔ معرکۂ حق میں کامیابی کے بعد ملک میں سیاسی اور سکیورٹی استحکام کا جو تاثر ابھرا ہے‘ اس نے عالمی مالیاتی اداروں کے اعتماد کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ یہ اعتماد صرف کاغذات تک محدود نہیں بلکہ بیرونی سرمایہ کار تیزی سے پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے متوجہ ہو رہے ہیں۔ وہ پاکستان کو ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ اور علاقائی تجارت کا ایک محفوظ راستہ گردان رہے ہیں۔ یہ غیرملکی سرمایہ کاری ملک کو درپیش معاشی بحران سے نکال کر دیرپا استحکام کی طرف لے جانے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ بلوچستان میں سونے کے ذخائر برسوں پہلے دریافت ہوئے مگر ان قیمتی معدنیات کو نکالنے کا عملی کام اب شروع ہوا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری جیسے عظیم منصوبے اس معاشی تجدید کیلئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کر رہے ہیں جو پاکستان کو جیو اکنامکس کے میدان میں ایک مرکزی حیثیت دلانے کا سبب بنے گا۔
پاکستان کی سٹریٹیجک اہمیت صرف دفاعی نہیں بلکہ یہ وسطی ایشیائی ریاستوں کیلئے سمندر تک رسائی کا واحد گیٹ وے ہے۔ ان ممالک کے ساتھ توانائی اور تجارتی روابط کو فروغ دینے میں پاکستان کا کردار ناگزیر ہے۔ مزید برآں او آئی سی میں اس کا فعال کردار اور مسلم اُمہ کی واحد ایٹمی طاقت ہونے کی حیثیت پاکستان کو بین الاقوامی فورمز پر طاقتور آواز بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی عسکری فتح محض سرحدوں پر کامیابی نہیں ہے بلکہ اس نے ملکی سلامتی کے بنیادی تصور کو مضبوط کیا اور قوم کو ایک نئے قومی اعتماد سے سرشار کیا۔ یہ اعتماد سیاسی اور معاشی میدانوں میں تیزی سے منتقل ہوا۔ ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہونے کا عملی مظاہرہ اس کامیابی کا سب سے بڑا پالیسی اثاثہ ثابت ہوا‘ جس کے بعد علاقائی امن و استحکام کیلئے پاکستان کی سفارتی کوششوں کو زیادہ وزن دیا جانے لگا۔ عالمی طاقتوں نے محسوس کیا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی کنجی اسلام آباد کے ہاتھ میں ہے اور خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے میں پاکستان کا کردار ناقابلِ تردید ہے۔
پاکستان کی عالمی سطح پر پذیرائی کی کلیدی وجہ سول اور عسکری قیادت کا وہ یکجا عزم اور جرأت مندانہ فیصلہ سازی ہے جس نے ملک کی قومی پالیسی کا رخ موڑ دیا ہے۔ ماضی میں بعض مواقع پر تذبذب یا احتیاط پر مبنی رویہ اختیار کرنے کی وجہ سے دشمن قوتوں نے خود کو مضبوط سمجھ لیا‘ لیکن اب ہماری قومی پالیسی میں ایک نئی فکری تبدیلی آئی ہے۔ اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت میں تبدیلی کے بعد بھارت کی قیادت جس جارحیت اور تفاخر میں مبتلا تھی‘اسے اس کا جواب معرکۂ حق میں مل چکا ہے۔ وزیر اعظم سے لے کر فیلڈ مارشل تک ملکی قیادت نے ایک پیج پر رہتے ہوئے وہ فیصلہ کن اور دلیرانہ مؤقف اپنایا جو ماضی کی حکمتِ عملی کا مکمل ردعمل تھا۔ اسی طرح شدت پسند عناصر کو دوٹوک پیغام دے دیا گیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر ان کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے‘ نہ ہی ان کے ساتھ کسی قسم کی رعایت برتی جائے گی۔ اسی بلند حوصلے اور جرأت مندانہ فیصلوں کا ثمر ہے کہ پاکستان نے نہ صرف دشمن کی جارحیت کو مؤثر طریقے سے پسپا کیا بلکہ دنیا کو یہ پیغام دیا کہ یہ ایک مضبوط اور باوقار ملک ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کی پذیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ جب سول اور عسکری قیادت ایک ہی وژن اور عزم کے ساتھ کھڑی ہو تو کوئی بھی طاقت ہمارے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ یہ مقام صرف دفاعی قوت سے نہیں بلکہ مضبوط قیادت کی جانب سے جیو اکنامکس کو قومی محور بنانے جیسے تاریخی سٹریٹیجک فیصلوں سے حاصل ہوا ہے‘ جس نے پاکستان کے عالمی کردار کو سکیورٹی کنسرن سے ہٹا کر ایک فعال اقتصادی پارٹنر میں بدل دیا ہے۔ اس نئے دور میں پاکستان علاقائی استحکام کے ضامن کے طور پر اُبھر رہا ہے‘ جس کے فیصلوں کو عالمی طاقتیں اب نظر انداز نہیں کر سکتیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved