''آج یہ معاملہ بہت عجیب معلوم ہوتا ہے۔ مجھے جن علماء کی جوتیاں سیدھی کرنے کا شرف حاصل رہا ہے وہ کسی طرح بھی دنیا دار قسم کے لوگ نہیں تھے۔ درویشانہ زندگی گزارتے تھے اور انہوں نے افلاس اور فاقہ کشی کی زندگی رضا کارانہ طور پر اختیار کی تھی۔ میں عربی ادب اور فلسفے میں ان کا ایک ادنیٰ شاگرد رہا ہوں۔ میں ان کا واحد شہری طالب علم رہ گیا تھا جو اپنے ذاتی شوق میں عربی ادب اور فلسفہ پڑھ رہا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ مہینے میں ان علماء کی فاقہ کشی کا کیا اوسط تھا؟ جب میں ان کے بارے میں سنتا تھا کہ یہ لوگ بِکے ہوئے ہیں تو میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی۔ آپ اپنے نظریاتی حریفوں سے پوری شدت کے ساتھ اختلاف کیجئے مگر گالیاں تو نہ دیجیے۔‘‘
علمائے دیوبند کے بارے میں یہ تحریر شاعرِ بے مثال جون ایلیا کی ہے۔ اُن کے اولین مجموعۂ کلام ''شاید‘‘ کے صفحہ بیس پر یہ سطور جو دیباچہ کا حصہ ہیں‘ دیکھی جا سکتی ہیں۔ جون ایلیا شیعہ تھے۔ یہ ممکن نہیں کہ انہیں پڑھانے والے علماء کو اُن کے تشیع کی خبر نہ ہو۔ لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب کفر اتنا ارزاں نہ ہوا تھا کہ جگہ جگہ بٹتا پھرے۔ لاتعداد شہروں قصبوں اور قریوں میں شیعہ سنی ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے تھے۔سُنیّ بزرگ شیعہ نوجوانوں کو اُن کی نماز سکھاتے تھے اور شیعہ بزرگ سنّی نوجوانوں کی رہنمائی سنی فقہ کی روشنی میں کرتے تھے۔ سنّی اور شیعہ علماء ایک دوسرے کے گھروں میں قیام کرتے تھے‘ بحثیں ہوتی تھیں، ضیافتوں کا اہتمام کیا جاتا تھا ۔ابھی مناظروں نے مجادلوں کی صورت اختیار نہیں کی تھی۔ ہاں معانقے ضرور ہوتے تھے۔ دوسرے مکتبِ فکر کو برداشت کیا جاتا تھا اور اختلاف نظریات سے ہوتا تھا۔ شخصیات سے نہیں، ملحد اور زندیق نوجوانوں سے بھی بات چیت ہوتی تھی۔ اسی دیباچے میں جون ایلیا لکھتے ہیں:
''ہمارے ماحول کا اپنے غیر مذہبی نوجوانوں کے بارے میں بہت فراخ دلانہ رویہ تھا۔ علماء ان کے باغیانہ اور منکرانہ خیالات سُن کر مسکرا دیتے تھے اور کہتے تھے کہ مطالعہ کرتے رہے تو راہِ راست پر آ جائیں گے۔ ان ملحد نوجوانوں کے حق میں جو سب سے زیادہ نامہربان بلکہ شدید فیصلہ صادر کیا جاتا تھا یہ کہ پڑھ بہت لیا ہے اس لئے ہضم نہیں ہوا۔‘‘
لیکن آج کا موضوع برداشت اور عدم برداشت نہیں، اوپر جون ایلیا نے علماء کی رضا کارانہ فاقہ کشی کا ذکر کیا ہے۔ اُس وقت مدرسہ کے نام پر لئے گئے چندے سے گھر کے شاہانہ خرچ کو چلانے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اہلِ علم ہل چلا کر یا تجارت کر کے گزر اوقات کرتے تھے۔ نہ صرف یہ کہ علم فروخت نہیں کیا جاتا تھا، طلبہ کو کتابیں اساتذہ اپنی ذاتی لائبریریوں سے مہیا کرتے تھے۔ اساتذہ کو فکر ہوتی تھی کہ ایک ایک کتاب کے کئی نسخے اُن کے ہاں موجود رہیں ۔ فاقہ کشی اس رضا کارانہ طرزِ زندگی کا لازمی جزو تھا۔ رویّے کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ کسی قسم کا خوف یا طمع سچّی بات کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی تھی۔ روٹی کا انحصار معاشرے پر تھا۔ مقتدیوں پر‘ نہ چندے پر‘ اس لئے یہ علماء جس بات کو حق سمجھتے، ڈنکے کی چوٹ کہتے تھے۔
یہ افلاس کا لیکن اخلاص کا دور تھا۔ ہوائی جہازوں پر ملکوں ملکوں پھر کر علمِ دین سکھانے کے لئے مال متاع جمع نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ نہیں ہوتا تھا کہ ایک صاحبزادہ مستقل امریکہ رہ رہا ہے اور ''کاروبار‘‘ کو دیکھ رہا ہے۔ حرمین شریفین کے جوار میں بلند معیار بیش بہا ذاتی اپارٹمنٹ نہیں تھے۔ یہ بھی نہیں تھا کہ کوئی اکانومی کلاس کا ٹکٹ پیش کرے تو اُسے ٹکا سا جواب دے دیا جائے۔ مدرسہ چلانے والے کا معیارِ زندگی وہی ہوتا جو مدرسہ میں پڑھانے والے اساتذہ کا۔ خوفِ خدا دامن گیر رہتا تھا۔ مرنے کے بعد ایک ایک پائی کے محاسبے کا ڈر راتوں کو سونے نہیں دیتا تھا۔
اس تمہید کا باعث فاضل دوست خورشید ندیم کی وہ تحریر ہے جو دو دن پیشتر انہی صفحات پر شائع ہوئی اور جس کا عنوان تھا۔ مولانا فضل الرحمن اور مولانا تقی عثمانی کی خدمت میں۔ خورشید ندیم ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ۔اُن کے والد محترم جناب قاضی گل حسین مرحوم‘ اسِ کالم نگار کے جدّ امجد حضرت غلام محمد مرحوم کے ،کہ سعدیٔ ثانی کہلاتے تھے، قریبی احباّ میں سے تھے۔ وہ پوسٹ کارڈوں کا دور تھا۔ پوسٹ مین کہ ڈاکیا کہلاتا تھا‘ اٹھارہ برس تک ہفتے میں دو بار ہمارے مہمان خانے میں قیام کرتا رہا۔ گلستانِ سعدی یا نظامی کے سکندر نامہ کا نسخہ بغل میں دابے میں، کہ سبزۂ خط آغاز ہو رہا تھا ، دادا جان کے پاس بیٹھتا۔ قاضی گل حسین صاحب کے ہر خط کا آغاز ''ازچک امرال‘‘ سے ہوتا جو خورشید ندیم کا آبائی قریہ ہے۔ محبت اور خلوص کا کیا رشتہ تھا! مہینے میں ایک دو خط ضرور آتے تھے۔ کبھی اس سے زیادہ بھی! یہ علمی پس منظر ہی ہے جس کے باعث خورشید صاحب دنیائے مدارس اور اہلِ مذہب کی حرکیات (Dynamics) پر بلند پایہ مضامین لکھتے ہیں۔
تاہم زیر نظر مضمون میں انہوں نے دیو بند مسلک کی علمی شخصیات سے جو توقع کی ہے کہ وہ کچھ سوالات کا جواب دیں گے۔ عبث ہے! خورشید صاحب نے یہ تفریق ہمارے خیال میں درست کی ہے کہ اس
ملک کی سیاسی قیادت مولانا فضل الرحمن کے پاس ہے۔ مولانا سے ہزار اختلاف سہی لیکن انہیں دو باتوں کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے۔ ایک‘ انہوں نے دین کے حوالے سے بندوق کے استعمال کی ہمیشہ مخالفت کی۔ دوم، وہ جمہوریت ہی کو مسائل کا حل گردانتے ہیں اور برملا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے فاضل دوستِ گرامی نے مسلک کی جس گرامی قدر شخصیات سے علمی میدان میں رہنمائی طلب کی ہے‘ افسوس کے ساتھ عرض ہے کہ ان حضرات کی طویل خاموشی تغافل اور بے نیازی کے سبب معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ ضمیر جعفری نے جو بات مزاح کے انداز میں کہی تھی، وہ دراصل گریہ ہے ؎
حضرتِ اقبال کا شاہیں تو کب کا اُڑ چکا
اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو
سولہویں صدی کا شاعر وحشی بافقی یہی ماتم دوسرے لہجے میں کرتا ہے ؎
دل نیست کبوتر کہ چو برخاست، نشیند
از گوشۂ بامی کہ پریدیم، پریدیم
کبوتر منڈیر سے اُڑ گیا تو بس اُڑ گیا۔ اِن سطور کا لکھنے والا تقریباً نصف درجن تحریروں میں نوحہ خوانی کر چکا ہے کہ خلقِ خدا جن سے رہنمائی چاہتی تھی وہ مُہر بہ لب رہے۔ خاموشی کے اسباب و علل جو بھی ہوں خاموشی کے نتائج کو کوئی نہیں رو ک سکتا۔ کیسے کیسے اہم اور نازک مواقع پر جن معزز علماء کو اپنی رائے بے لاگ دینا چاہیے تھی‘ وہ گلوگیر رہے۔ فقہی بنیاد پر قبروں سے میتیں نکال کر لٹکائی گئیں۔ فقہا پر سکوت طاری رہا۔ پھر طالبان نے اعلان کیا کہ وہ چرچ پر حملے میں ملوث نہیں لیکن حملہ شریعت کی رُو سے درست تھا۔ تب بھی یہ جیدّ علماء خاموش رہے۔ پھر اب حب شہادت اور عدم شہادت کی بحث چھڑی ہے اور بحث چھیڑنے والے صاحب عالم دین نہیں ہیں‘ تب بھی اِس مسلک کے محراب و منبر سے کوئی آواز نہیں سنائی دی‘ ہاں دوسرے مسالک کے علماء نے اپنی آرا کا اظہار برملا کیا۔
اِس مسلک کے عام وابستگان‘ طالبان کی رائے نہ مانیں تو کیا کریں! خلاکبھی باقی نہیں رہتا، جب یہ علماء کرام جو عظیم الشان مدارس اور ثروت مند مسندوں پر تشریف فرما ہیں، خاموش ہیں تو لوگ لامحالہ اُنہی علماء کی بات سنیں گے جو طالبان سے وابستہ ہیں۔ طالبان کی رائے سے اتفاق ہو یا نہ ہو، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مسائل کے بارے میں واضح رائے رکھتے ہیں اور اس رائے کا اظہار ،کسی مصلحت کے بغیر، بآواز بلند کرتے ہیں۔ چرچ پر حملے کی بات دیکھ لیجئے ، طالبان کو معلوم تھا کہ اُن کے اپنے ہمدردوں کی کثیر تعداد اُن کی رائے سے اتفاق نہیں کرے گی ۔ وہ مصلحتاً خاموش رہ سکتے تھے لیکن جس بات کو وہ صحیح سمجھتے تھے، انہوں نے اُسے برملا کہا اور کسی ابہام کے بغیر کہا۔
کوئی مانے یا نہ مانے، اِس مسلک کی علمی قیادت اب اُن علماء کرام کے ہاتھ میں آ چکی ہے جو طالبان سے وابستہ ہیں۔ اور اُن سے طالبان رہنمائی لیتے ہیں، اِن علماء کرام کے پاس عالی شان عمارتوں والے مدرسے نہ سہی‘ نہ یہ ناشتہ یورپ میں کر کے رات کا کھانا خلیجی ریاستوں میں کرتے ہیں۔ درست ہے یہ پہاڑوں میں رہتے ہیں یا کچی بستیوں میں‘ روکھی سوکھی کھاتے ہیں لیکن اپنی رائے بے لاگ دیتے ہیں۔ اب مسند بھی انہی کے پاس ہے، اِفتا بھی انہی کے ہاتھ میں ہے اور بات کرنے کی جرأت بھی یہی رکھتے ہیں۔ جون ایلیا کے بقول ؎
کچھ دشت اہلِ دل کے حوالے ہوئے تو ہیں
ہمراہ کچھ جُنوں کے رسالے ہوئے تو ہیں