تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     20-11-2025

ہم پاکستانی ایک ناشکرگزار قوم ہیں

اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے پاکستانی قوم سے زیادہ ناشکر گزار قوم کوئی نہیں!
مارشل لاء کے نام پر جمہوریت کا پہلا پودا لگایا تو اسکندر مرزا نے تھا مگر اسے تناور درخت ایوب خان نے بنایا۔ اس قوم کو آج تک یہی بات سمجھ میں نہ آئی کہ اصل جمہوریت ایوب خانی عہد ہی میں تھی۔ سیاستدانوں کی کردار کشی اور تذلیل کر کے اس نے قوم پر احسان کیا اور قوم ہے کہ اسے آمر کے طور پر یاد کرتی ہے۔ جنرل ضیاالحق ہی کو لے لیجیے۔ اتنا عظیم الشان شخص تھا کہ اس نے ہماری تاریخ بدل ڈالی۔ افغانوں کو پاکستان میں لاکر ہماری آبادی بڑھائی۔دنیا میں اسلحہ اور منشیات کے حوالے سے ہمارا نام مشہور ہوا۔ ملک کو نئی شناخت ملی۔ آپ خود انصاف کیجیے کیا دہشت گردی کے ذکر سے دنیا والوں کے ذہن میں کسی اور ملک کا نام آتا ہے؟ ہماری اہمیت بڑھی! یہ جو آج ملک کے اطراف واکناف میں افغان بھائی پھیلے ہوئے ہیں اور حکومت کی کوششوں کے باوجود ہمیں چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے اور ہمارے ہجر کا سوچ کر تڑپنے لگتے ہیں‘ یہ سب جنرل ضیاالحق ہی کی وجہ سے ہے۔ مگر ہم اتنے ناسپاس ہیں کہ کبھی اسے 'ضیاع الحق‘ کہتے ہیں اور کبھی ڈکٹیٹر!
ہم ایسی قوم ہیں جو معصوم حکمرانوں پر الزام لگانے کی ماہر ہے۔ ہماری تاریخ کا برتن الزام تراشیوں سے چھلک رہا ہے۔ کل پرسوں بڑے میاں صاحب میڈیکل چیک اَپ کیلئے پھر عازمِ لندن ہوئے ہیں۔ آج ٹی وی پر کوئی کہہ رہا تھا کہ میاں صاحبان کے نام سے ملک میں ہسپتالوں کی لائن لگی ہوئی ہے مگر وہ اپنے علاج کیلئے لندن ہی جاتے ہیں۔ اب یہ الزام نہیں تو کیا ہے؟ ان کی مہربانی اور کرم فرمائی کہ عامیوں کیلئے ہسپتال بنوائے۔ اب اگر یہ ہسپتال خواص کیلئے مناسب نہیں تو اس میں اچنبھے کی یا برائی کی کیا بات ہے؟ اگر سال میں کئی بار وہ چیک اَپ کیلئے لندن جاتے ہیں تو یہ تو اچھی بات ہے۔سفر وسیلۂ ظفر ہوتا ہے۔ اس بار تو وہ ہانگ کانگ تشریف لے گئے ہیں۔ شاید وہاں سے لندن جائیں گے تاکہ کوئی یہ اعتراض نہ کر سکے کہ لاہور سے نکلتے ہیں تو سیدھے لندن جاتے ہیں۔ یہ کہنا کہ ان کا اصل وطن لندن ہے جہاں وہ عید منانے کو ترجیح دیتے ہیں‘ پرلے درجے کی الزام تراشی ہے۔یہ جو اُن پر الزام لگایا گیا کہ ایون فیلڈ کے فلیٹوں کی خریداری مشکوک ہے‘ سراسر زیادتی تھی۔ اگر خریداری کی تاریخ پر اتفاق نہیں تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے؟ جس طرح بھی خریدے گئے‘ جب بھی خریدے گئے‘ جس پیسے سے بھی خریدے گئے‘ فلیٹ تو موجود ہیں نا! جب فلیٹ موجود ہیں اور میاں صاحب اور ان کے بچے وہاں قیام کرتے ہیں تو اعتراض کس بات پر؟ اعتراض تو تب کیجیے جب یہ فلیٹ غائب ہو جائیں! اس سے زیادہ صاف گوئی اور دیانتداری کیا ہو گی کہ فلیٹ قائم ودائم ہیں اور ساری دنیا انہیں دیکھ سکتی ہے! اب یہ جو مریم نواز صاحبہ برازیل تشریف لے گئی ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بین الاقوامی کانفرنس میں شریک ہوئی ہیں تو بجائے شکر گزار ہونے کے‘ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ ملک میں تین چار اور وزرائے اعلیٰ بھی تو ہیں‘ وہ کیوں نہیں گئے؟ اور یہ کہ ایک خاص صوبہ‘ ملک کی نمائندگی کس طرح کر سکتا ہے اور یہ کہ صرف پنجاب کے فلیگ شپ منصوبوں کی وہاں کیوں تشہیر کی گئی؟ یہ سب ناشکرگزاری کے علاوہ کچھ نہیں! معترضین کو معلوم ہونا چاہیے کہ پنجاب کی چیف منسٹر دوسرے وزرائے اعلیٰ کی طرح نہیں ہیں! وہ مسلم لیگ کے سربراہ کی دختر نیک اختر ہیں اور ملک کے وزیراعظم کی برادر زادی! یہ اہلیت دوسرے چیف منسٹروں میں نہیں پائی جاتی! اب یہ اپنی اپنی قسمت ہے! جب معاملہ قسمت پر آن پڑے تو انسان بے بس ہو جاتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے اس ملک کیلئے کیا نہیں کیا؟ ڈالر لے کر بندے فروخت کیے‘ اس سے پیسہ ملک ہی میں آیا۔ مگر اس پر بھی اعتراض ہے۔ انہوں نے طالبان کو بھی چکر دیے اور امریکہ کو بھی! کتنی بڑی کامیابی تھی یہ! نتیجے میں اگر امریکہ بھی بدظن ہوا اور طالبان بھی بدگمان‘ تو اس میں جنرل صاحب کا تو کوئی قصور نہیں تھا۔ زرداری صاحب نے اس ملک کیلئے کیا نہیں کیا۔ مگر ان پر اس قوم نے سرے محل کا الزام لگا دیا۔ حالانکہ سرے محل انہوں نے تو تعمیر ہی نہیں کرایا تھا۔ یہ تو سو ڈیڑھ سال پہلے کا بنا ہوا تھا۔ جس نے یہ محل بنوایا اس سے کوئی نہیں پوچھتا اور سارا الزام خریدنے کا زرداری صاحب پر لگا دیا۔
اور اب جھوٹ کا پلندہ ایک برطانوی جریدے نے ہمارے سابق وزیراعظم جناب عمران خان کے خلاف چھاپا ہے اور یہ ناشکری قوم دن رات صبح شام اس کے تذکرے کرتی پھرتی ہے۔ کون سا جھوٹ ہے جو اس مضمون میں نہیں! عجیب وغریب باتیں لکھ دیں۔ جیسے یہ کہ وزیراعظم کا طیارہ اس وقت ہی اڑان بھرتا تھا جب بشریٰ بی بی اجازت دیتی تھیں۔ بشریٰ بی بی اہم تقرریوں اور روز مرہ کے سرکاری فیصلوں پر اثر انداز ہوتی تھیں۔ فیصلہ سازی کے عمل پر روحانی مشاورت کا رنگ غالب ہونے کی شکایات پیدا ہوئیں۔ عمران خان کے ڈرائیور اور ان کے گھر کے سابق ملازمین نے دعویٰ کیا کہ بشریٰ بی بی کے آنے کے بعد گھر میں عجیب وغریب قسم کی رسوم شروع ہو گئیں جیسے عمران خان کے سر کے گرد کچے گوشت کو گھمانا اور روزانہ سیاہ بکریوں اور مرغیوں کے سروں کا قبرستان میں پھینکا جانا! متعلقہ قصاب نے بھی اس کی تصدیق کی۔ بشریٰ بی بی کا وزیراعظم ہاؤس پر مکمل کنٹرول تھا۔ بشریٰ بی بی لوگوں کی تصاویر دیکھ کر فیصلے کرتی تھیں۔ ایک حساس ادارہ خفیہ معلومات بشریٰ بی بی تک پہنچاتا‘ بشریٰ بی بی ان معلومات کو عمران خان کے ساتھ ''روحانی پیشگوئی‘‘ کے طور پر شیئر کرتیں۔ جب یہ معلومات کچھ دنوں بعد درست ثابت ہوتیں تو عمران خان کا اعتقاد بشریٰ بی بی کی روحانی طاقت پر اور بھی گہرا ہو جاتا! یہ فقط چند باتیں ہیں جو ہم نے بیان کیں ورنہ اس سفید فام جریدے میں جھوٹ کے اور بھی انبار ہیں!
ملک کے سابق وزیراعظم کے بارے میں یہ من گھڑت قصے ناقابلِ برداشت ہیں۔ جب سے یہ رپورٹ منظرِ عام پر آئی ہے اس کالم نگار کا خون کھول رہا ہے۔ اس سے سابق وزیراعظم کی اور ملک کی بھی توہین ہوئی ہے۔ میری سابق وزیراعظم جناب عمران خان سے اور ان کی پارٹی کے اربابِ حل وعقد سے دست بستہ التجا ہے کہ بر طانیہ کی عدالت میں اس جھوٹی رپورٹ کے مندرجات کو چیلنج کیا جائے اور فوراً کیا جائے! برطانوی جریدے نے جو کچھ لکھا ہے اس سے اس کے ثبوت طلب کیے جائیں۔ ظاہر ہے کہ جریدہ ثابت نہیں کر سکے گا۔ اس پر جرمانہ ہو گا اور اسے عمران خان صاحب اور ان کی اہلیہ سے معافی مانگنا ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان ضعیف الاعتقاد ہیں نہ ان کی بیگم صاحبہ نے روحانیت کا دعویٰ کیا ہے۔ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بیگم کے کہنے پر خان صاحب نے پاک پتن میں چوکھٹ پر سجدہ بھی کیا تھا۔ ارے بھئی! وہ کیمرہ ٹرک تھی! وہ اصلی خان صاحب نہیں تھے‘ محض نظر کا دھوکا تھا۔اسی طرح کسی جمیل گجر کا اور بزدار کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ اس قسم کی سب باتیں بدخواہوں نے پھیلائی ہوئی ہیں! ہم بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف برطانوی عدالت میں مقدمہ دائر کرے۔ جریدے کو اور بے سروپا رپورٹ تیار کرنے والوں کو منہ کی کھانا پڑے اور وہ عدالت میں کھڑے ہو کر سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ سے معافی مانگیں! ورنہ ہمارا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہو گا!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved