سپریم کورٹ آف پاکستان سے مستعفی ہونے والے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفوں پر اپنے ایک بیان میں وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل نے فرمایا کہ ججز کے استعفوں کو کئی حوالوں سے غیر آئینی اقدام کہا جا سکتا ہے۔ مجھے یہ اقرار کرنے میں رتی بھر تامل نہیں کہ میں قانون کی باریکیوں‘ آئینی پیچیدگیوں اور وکیلانہ موشگافیوں سے مکمل طور پر لاعلم شخص ہوں۔ ظاہر ہے اس قسم کی چیز پڑھ کر میرا ''تراہ‘‘ نکلنا لازمی بات ہے... اور میرا واقعی تراہ نکل گیا۔ اب یہ تراہ نکلنا کیا ہوتا ہے‘ اس کی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ اس کو سمجھنے کیلئے بندے کا تراہ نکلنا ضروری ہے۔ ایک تو بات کرنے والا بیرسٹر ہو‘ اوپر سے وفاقی وزیر مملکت برائے قانون بھی‘ اور پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے دو عدد جسٹس صاحبان کے استعفیٰ دینے کو کسی چھوٹی موٹی قانونی غلطی کے بجائے غیر آئینی اقدام قرار دے دیا ہو تو بھلا مجھ جیسے نالائق کی کیا مجال ہے کہ اس بات پر یقین کرنے میں شک وشبہ یا لیت ولعل کرے۔ تاہم اس خبر کو پڑھ کر بندے کے دل میں مختلف قسم کے ضرررساں یا بے ضرر قسم کے خیالات کا اٹھنا لازمی بات ہے‘ سو اس نالائق کو اپنی کم علمی کے اعتراف کے باوجود ذہن میں اٹھنے والے کئی سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایک سوال تو یہ ہے کہ اگر ججز کا مستعفی ہونے کیلئے استعفیٰ دینا غیر آئینی اقدام ہے تو آخر وہ استعفیٰ دیے بغیر کیسے مستعفی ہو سکتے ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر وہ استعفیٰ بھی نہ دے سکیں اور نوکری بھی نہ کرنا چاہیں تو پھر کیا کریں؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ ان کے اس غیر آئینی اقدام پر انہیں آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے؟ میں نے یہ سوالات شاہ جی سے پوچھے تو انہوں نے پہلے تو میری نالائقی کا مذاق اڑایا اور پھر میرے ادھورے علم پر تبرا کیا۔ کہنے لگے: تم نے پوری خبر نہیں پڑھی‘ پوری خبر میں محترم وزیر مملکت نے‘ جو قانون کی باریکیوں اور آئینی پیچیدگیوں سے کماحقہٗ طور پر صرف واقف ہی نہیں مکمل طور پر آگاہ ہیں‘ فرمایا ہے کہ مستعفی ہونے والے ججوں نے اپنے استعفوں کے مندرجات میں ستائیسویں آئینی ترمیم کو جس طرح بنیاد بناتے ہوئے احتجاجی طرز کے استعفے دیے ہیں دراصل وہ غیر آئینی اقدام ہے۔ یعنی صاف لفظوں میں انہوں نے جس طرح ستائیسویں آئینی ترمیم کے کندھے پر الزامات کی بندوق رکھ کر سرکار پر استعفے کا جو فائر کیا ہے‘ دراصل وہ غیر آئینی قسم کی چیز ہے۔ انہیں اگر مستعفی ہونا ہی تھا تو کوئی ذاتی وجہ مثلاً گھریلو حالات‘ خرابیٔ صحت یا عدیم الفرصتی وغیرہ جیسا جواز پیش کرنا چاہیے تھا۔ اس طرح آئینی ترمیم کو جواز بناتے ہوئے مستعفی ہونا غیر آئینی ہے۔ میں نے کہا: شاہ جی ! آپ وزیر محترم کے بیان کی محض وضاحت کر رہے ہیں یا ان سے اتفاق بھی کر رہے ہیں۔ شاہ جی کہنے لگے: اگر اس قسم کے استعفے غیر آئینی اقدام ہیں تو اس قسم کے استعفوں کی حمایت کرنا‘ ان کو داد دینا‘ ان کی تعریف کرنا اور انہیں درست قرار دینا بھی غیر آئینی اقدام ہے اور میں اس قسم کا کوئی رِسک لینے کیلئے تیار نہیں ہوں۔ کیا پتا کل کلاں آئین میں ترمیم کرکے یہ لازم کر دیا جائے کہ ان آئینی ترامیم کے خلاف بطور احتجاج یا ان کو جواز بنا کر کوئی سرکاری ملازم مستعفی نہیں ہو سکتا۔ اس قسم کی حرکت کرنے والا سرکاری ملازم مستوجبِ سزا ہوگا اور اس پر آئین کی خلاف ورزی کے جرم میں کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ کہہ کر شاہ جی نے فون بند کر دیا۔
فون بند ہونے کے بعد مجھے خیال آیا کہ وزیر موصوف کے بیان کی روشنی میں اگر کسی آئینی ترمیم کو بنیاد بنا کر مستعفی ہوتے ہوئے اپنے استعفے میں اُس ترمیم کو عدالتی نظام‘ عدل وانصاف اور عدلیہ کی آزادی وخود مختاری پر کاری ضرب قرار دینا آئین کی خلاف ورزی ہے تو معزز جج حضرات کس قسم کا استعفیٰ لکھ کر اپنی جان خیریت سے چھڑوا سکتے ہیں۔ اس لیے ایک عدد استعفیٰ بطور نمونہ پیش خدمت ہے‘ آئندہ مستعفی ہونے والے اس نمونے کو بلامعاوضہ استعمال کر سکتے ہیں۔
جنابِ صدر!
عنوان: استعفیٰ بوجہ خوشی ومسرت بسلسلہ آئینی ترمیم
جناب عالی!
من کہ مسمی ......بقائمی ہوش وحواس و بلا جبر واکراہ اپنے عہدے سے بخوشی ومسرت مستعفی ہو رہا ہے۔ میں حالیہ پاس ہونے والی آئینی ترمیم کو ملک وقوم کے ساتھ ساتھ ملک میں جاری وساری عدل وانصاف کے بہتے ہوئے چشموں میں مزید روانی اور نظام انصاف کیلئے ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھتے ہوئے خوشی ومسرت سے بے حال ہو رہا ہوں۔ آپ یقین کریں میری تمام تر پیشہ ورانہ زندگی میں اس سے قبل ایسی قانون دوست اور عدل پرور ترمیم نہ ہم نے کبھی سنی اور نہ ہی دیکھی ہے۔ اس ترمیم سے نہ صرف یہ کہ عدلیہ کی آزادی دوچند ہو جائے گی بلکہ عدلیہ مزید خودمختار اور طاقتور بھی ہو جائے گی اور ہر قسم کے دباؤ اور خوف سے آزاد ہو کر زیادہ بہتر انداز میں انصاف کے تقاضے پورے کر سکے گی۔ اگر آپ اس سلسلے میں راقم سے مشورہ کرتے تو یہ عاجز اس ترمیم کو مزید بہتر کرتے ہوئے عدلیہ پر رہے سہے قدغن اور رکاوٹیں بھی ختم کر دیتا تاہم فکر کی کوئی بات نہیں‘ امید ہے آپ اگلی ترمیم میں باقی رہ جانے والی ہر قسم کی کمی کوتاہی کا ازالہ فرما دیں گے۔ اس سلسلے میں اگر آپ کو میرے مشورے کی ضرورت پڑی تو بعد از استعفیٰ بھی ملک کی خدمت اور آئین کی عزت وتوقیر میں اضافے کیلئے تن من دھن سے حاضر ہوں۔
مجھے یقینِ کامل ہے کہ اس آئینی ترمیم کے بعد ہماری عدلیہ کی کارکردگی میں محیر العقول بہتری پیدا ہو گی اور عدلیہ جو آئین کی فرسودہ پابندیوں میں جکڑی ہوئی تھی‘ حالیہ آئینی ترمیم کے بعد دنیائے عدل میں اپنا نام بلند کرنے اور اپنی درجہ بندی بہتر کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی۔ مجھے یقینِ کامل ہے کہ اس ترمیم سے وابستہ بابرکت عدد کے طفیل بہتری کے بعد ہماری عدلیہ‘ جو فی الوقت عالمی درجہ بندی میں 129ویں نمبر پر ہے‘ 102ویں نمبر پر آ جائے گی۔ مجھے امید ہے کہ جب عنقریب اس ملک کے آئین میں ایک اور ترمیم آئے گی تو ہماری عالمی درجہ بندی میں مزید بہتری آئے گی۔ باوجود اس کے کہ میں مستعفی ہو رہا ہوں‘ میری اس ملک کی عدلیہ کو بہتر کرنے اور اس کے وقار میں اضافہ کرنے کی جو خواہش دل میں مچل رہی ہے اس کے پیش نظر مزید التماس ہے کہ جلد از جلد اسی قسم کی مزید آٹھ دس ترامیم منظور فرمائی جائیں تاکہ عدلیہ عالمی درجہ بندی میں پہلے دس نمبروں میں شمار ہو سکے۔
آپ یقینا یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں آخر کس وجہ سے بطور جج مستعفی ہونا چاہتا ہوں تو عرض یہ ہے کہ میں اس ترمیم کے نتیجے میں عدلیہ کی بہتری‘ آزادی‘ خودمختاری اور طاقت میں اضافے پر اتنا خوش ہوں کہ مجھ سے اپنی بے پایاں خوشی‘ مسرت اور دلی کیفیت سنبھالی نہیں جا رہی۔ میں اپنی خوشی وانبساط کا اظہار کرنے کیلئے شرلیاں اور پٹاخے چلانا چاہتا ہوں۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اس معزز اور محترم عہدے پر رہتے ہوئے اس طرح کی حرکت نہیں کرنی چاہیے لہٰذا میں اپنی خوشی کے اظہار میں اپنے اس عہدے کو رکاوٹ محسوس کرتے ہوئے اس سے آزاد ہو کر اپنی مسرت کا کھل کر اظہار کرتے ہوئے آتش بازی کرنا چاہتا ہوں۔ براہِ کرم میری دلی خواہش کی تکمیل کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ سے التماس ہے کہ میرا استعفیٰ جلد از جلد منظور فرمایا جائے تاکہ میں پہلی فرصت میں شرلیاں اور پٹاخے چلا سکوں۔
آپ کا مخلص ......... بقلم خود
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved