جہاد کے بارے میں جاوید احمد غامدی صاحب کا مؤقف کیا ہے؟ اتمامِ حجت اور جہاد میں کیا تعلق ہے؟
وہ لکھتے ہیں: ''امن اور آزادی انسانی تمدن کی ناگزیر ضرورت ہے۔ فرد کی سرکشی سے اس کی حفاظت کیلئے تادیب اور سزائیں ہیں۔ لیکن اگر قومیں شوریدہ سر ہو جائیں تو ہر شخص جانتا ہے کہ ان کے خلاف تلوار اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ نصیحت وتلقین جب تک کارگر ہو‘ تلوار اٹھانے کو کوئی شخص بھی جائز قرار نہ دے گا۔ مگر جب کسی قوم کی سرکشی اور شوریدہ سری اس حد کو پہنچ جائے کہ اسے نصیحت اور تلقین سے صحیح راستے پر لانا ممکن نہ رہے تو انسان کا حق ہے کہ اس کے خلاف تلوار اٹھائے اور اس وقت تک اٹھائے رکھے جب تک امن اور آزادی کی فضا دنیا میں بحال نہ ہو جائے۔ قر آن کا ارشاد ہے کہ تلوار اٹھانے کی اجازت اگر نہ دی جا تی تو قوموں کی سرکشی اس انتہا کو پہنچ جاتی کہ تمدن کی بربادی کا تو کیا ذکر‘ معبد تک ویران کر دیے جاتے اور ان جگہوں پر خاک اڑتی جہاں اب شب وروز اللہ پروردگارِ عالم کا نام لیا جاتا اور اس کی عبادت کی جاتی ہے‘‘ (میزان‘ ص: 580)۔
جہاد کی کئی اقسام ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو دراصل اللہ تعالیٰ کے عذاب کی ایک صورت ہے اور یہ ان قوموں کیلئے خاص ہے جن میں رسول مبعوث ہوتا ہے۔ نبیﷺ کے معاملے میں یہ مشرکینِ مکہ تھے۔ سورۂ توبہ میں ان ہی کا ذکر ہے۔ ان پر عذاب کے نفاذ کیلئے اتمامِ حجت ضروری تھا جو کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو بتا دیا تھا کہ وہ مشرکینِ مکہ کو ان کے ہاتھوں سے عذاب دے گا (توبہ: 14)۔ یہی وہ جہاد ہے جو اَب تاریخ کا ایک ورق ہے اور جس کا حکم سورۂ توبہ کی آیت: 5 میں دیا گیا۔ اسے آیۃ السیف بھی کہتے ہیں۔ علامہ یوسف القرضاوی نے بھی 'فقہ الجہاد‘ میں اسے مشرکینِ عرب کے ساتھ خاص لکھا ہے اور یہی متقدمین کا مؤقف ہے۔ علامہ قرضاوی نے جہاد کے مقاصد بیان کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ اس کا ایک مقصد جزیرہ نما عرب کو مشرکین سے پاک کرنا تھا۔ ''اقدامی جہاد کے مقاصد میں سے یہ بھی ایک اہم مقصد تھا‘ جس کا اس دور میں تو وجود نہیں رہا لیکن یہ تاریخ کا حصہ ضرور ہے‘‘۔ (ترجمہ عاطف ہاشمی‘ مطبوعہ ادارہ جدید فکر‘ لاہور)۔ گویا قرضاوی بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ جہاد کی یہ قسم اب باقی نہیں جو دراصل اللہ کا عذاب ہے۔ یہی بات جاوید صاحب نے بھی کہی کہ یہ مشرکینِ عرب کیلئے خاص ہے اور اس کیلئے اتمامِ حجت ضروری ہے۔ یہ اتمامِ حجت رسول کی موجودگی میں ہوتا ہے۔ پرانی قوموں پر یہ عذاب کبھی آسمان سے نازل ہوتا تھا اور کبھی زمین سے۔ مشرکینِ مکہ کیلئے یہ عذاب صحابہ کے جہاد اور تلواروں کے ذریعے آیا۔ ایک روایت کے مطابق نبیﷺ نے فرمایا : 'مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار نہ کریں‘۔ اہلِ علم نے تصریح کی ہے کہ یہاں 'لوگوں (الناس)‘ سے مراد مشرکینِ مکہ ہیں۔
ظلم وعدوان کے خلاف جہاد شریعت کا دائمی حکم ہے۔ اس ظلم کی ایک صورت لوگوں کی مذہبی آزادی پر قدغن ہے۔ مشرکینِ مکہ کا یہ بھی ایک جرم تھا جس کی بنا پر ان کے خلاف جہاد کا حکم دیا گیا۔ قرآن مجید نے اسے فتنہ کہا۔ جاوید صاحب نے لکھا: ''اس میں شبہ نہیں کہ دوسروں کو بالجبر ان کے مذہب سے برگشتہ کرنے کی روایت اب بڑی حد تک دنیا سے ختم ہو گئی ہے۔ لیکن انسان جب تک انسان ہے‘ نہیں کہا جا سکتا کہ کب اور کس صورت میں پھر زندہ ہو جائے۔ اس لیے قرآن کا یہ حکم قیامت تک کیلئے باقی ہے۔ اللہ کی زمین پر اس طرح کا کوئی فتنہ جب سر اٹھائے‘ مسلمانوں کی حکومت اگر اتنی قوت رکھتی ہو کہ وہ اس کا استیصال کر سکے تو اس پر لازم ہے کہ مظلوموں کی مدد کیلئے اٹھے اور اللہ کی اس راہ میں جنگ کاا علان کر دے۔ مسلمانوں کیلئے قرآن کی یہ ہدایت ابدی ہے۔ اسے دنیا کوئی قانون بھی ختم نہیں کر سکتا‘‘ (ص: 596)۔ اس عبارت کی موجودگی میں‘ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ''ان کے نزدیک اتمامِ حجت کے بعد جہاد بمعنی قتال منسوخ ہو گیا ہے‘‘۔ یا یہ بات قدیم آرا سے مختلف ہے؟ میں نے اسی بات کا اطلاق پاک بھارت جنگ پر کیا تھا۔ بھارت نے جارحیت کی اور ہم نے اپنا دفاع کیا‘ جو ہمارا حق تھا۔ دفاع کیلئے جہاد کے بارے میں دوسری رائے نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح ہم ظلم کے خلاف بھی جہاد کریں گے‘ اگر ہم میں استطاعت ہو گی۔ مسئلہ جائز یا ناجائز ہونے کا نہیں‘ استطاعت کا ہے۔
اہلِ علم جانتے ہیں کہ قرآن مجید نے سورۂ توبہ میں خصوصی احکام دیے ہیں جن کا تعلق مشرکینِ مکہ کے ساتھ ہے۔ مفتی محمد شفیع صاحب نے انہیں 'خصوصی کفار‘ قرار دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمومی اور خصوصی کی یہ تقسیم کس اصول پر ہے؟ جاوید احمد غامدی صاحب نے سنت وحدیث کی طرح‘ یہاں بھی اس کی ایک ایسی تعبیر کر دی ہے جو نصوص کی بنیاد پر ہے اور یہ پورے مقدمے کو اس طرح واضح کر دیتی ہے کہ اس میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔
جس طرح جہاد کے بارے میں جاوید صاحب کی رائے کے بارے میں غلط فہمی پھیلائی گئی‘ اسی طرح اہلِ کتاب مرد سے مسلمان عورت کے نکاح کے معاملے میں بھی یہی کیا گیا۔ جاوید صاحب اس موضوع پر برسوں پہلے اپنی رائے کا اظہار کر چکے ہیں‘ سورۃ المائدہ کی آیت: 5 کے حوالے سے‘ جہاں اس اجازت کا ذکر ہے۔ 'میزان‘ کے باب 'قانونِ معاشرت‘ میں انہوں نے لکھا: ''یہود ونصاریٰ بھی علم وعمل‘ دونوں میں شرک جیسی نجاست سے پوری طرح آلودہ تھے لیکن اس کے باجود وہ چونکہ اصلاً توحید ہی کے ماننے والے ہیں‘ اس لیے اتنی رعایت اللہ تعالیٰ نے کی ہے کہ ان کی پاک دامن عورتوں سے مسلمانوں کو نکاح کی اجازت دے دی ہے... آیت کے سیاق سے واضح ہے کہ یہ اجازت اس وقت دی گئی‘ جب توحید کے معاملے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا اور مشرکانہ تہذیب پر اس کا غلبہ ہر لحاظ سے قائم ہو گیا... لہٰذا اس بات کی پوری توقع تھی کہ مسلمان ان عورتوں سے نکاح کریں گے تو وہ ان سے متاثر ہوں گی...‘‘ (ص: 421)۔ اس عبارت کے ہوتے ہوئے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ اہلِ کتاب مرد سے مسلمان خاتون کے نکاح کے قائل ہیں؟
اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی فضیلت کے باب میں جاوید صاحب نے 'میزان‘ میں لکھا ہے اور وہی روایت بیان کی ہے جو ان کے ناقد بیان کرتے ہیں۔ سورۃ البقرہ کی آیت: 253 نقل کر نے کے بعد لکھتے ہیں: ''اس سے واضح ہے کہ موسیٰؑ سے اللہ نے کلام فرمایا۔ یہ ان کی فضیلت کا خاص پہلو ہے۔ مسیحؑ کو کھلے کھلے معجزات دیے اور روح القدس سے ان کی تائید فرمائی...نبیﷺ نے اپنے بارے میں فرمایا: ''مجھے چھ باتوں میں نبیوں پر فضیلت دی گئی۔ مجھے جامع اور مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی۔ مجھے رعب کے ذریعے سے نصرت بخشی گئی۔ میرے لیے مالِ غنیمت حلال کیا گیا۔ میرے لیے زمین کو مسجد بنا دیا گیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی۔ مجھے تمام دنیا کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا گیا۔ میرے اوپر نبوت ختم کر دی گئی‘‘ (میزان‘ ص: 147)۔
اگر ہم علمی طور پر بیدار معاشرے میں زندہ ہوتے تو جاوید صاحب کی ان علمی خدمات کا خیر مقدم ہوتا۔ اہلِ علم کے ہاں تحسین کی مجالس ہوتیں۔ یہی کارِ تجدید ہے۔ حسبِ توقع ایسا نہیں ہوا۔ آئندہ بھی ایسا نہیں ہوگا۔ کاش ہم معاصر اہلِ علم سے بلاامتیاز استفادے کی روایت کو آگے بڑھا سکتے۔ علمی مباحث کی حوصلہ افزائی کرتے۔ اس سے معاشرے میں بھی رواداری پیدا ہوتی اور علم کو فروغ ملتا۔ جاوید صاحب اور ان کے زیرِ اثر ہونے والے علمی کام کے بارے میں مَیں ناقدین سے یہی درخواست کر سکتا ہوں کہ
عروسِ لالہ! مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب؍ کہ میں نسیمِ سحر کے سوا کچھ اور نہیں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved