بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم حسینہ واجد کے ساتھ جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہونے جا رہا ہے اس میں دنیا بھر کے حکمرانوں کے لیے ایک واضح اور دو ٹوک سبق پوشیدہ ہے‘ اگر وہ اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ نہ سمجھیں گے تو وقت خود انہیں سمجھا دے گا۔ سبق یہ ہے کہ جس طرح زندگی اور موت کے حوالے سے یہ شعر پڑھا جاتا ہے کہ
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
تو یہ معاملہ طاقت‘ حکومت‘ اقتدار اور حکمرانی پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ آپ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے چاہے جتنی بھی کوشش کر لیں‘ چاہے جتنے بھی انتظامات اور اقدامات کر لیں جب تک آپ اس ملک کے عوام کا دل نہیں جیتیں گے آپ کا برسر اقتدار رہنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔ اور آج کے اس دور میں جب ہر بندے کے پاس سمارٹ فون ہے اور ہر بندہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رونما ہونے والے کسی واقعے سے چند منٹوں میں واقف اور آگاہ ہو جاتا ہے‘ لوگوں کو طفل تسلیوں سے بیوقوف بنانا ممکن نہیں۔ عوام سے لا تعلق رہ کر اور ان پر ان کی مرضی کے خلاف پالیسیاں اور فیصلے نافذ کرکے اقتدار کو طول نہیں دیا جا سکتا کیونکہ کسی بھی جمہوری سیٹ اَپ میں عوام ہی طاقت کا منبع اور اختیارات دینے اور اختیارات لینے کی حیثیت کے حامل ہیں۔
من مانی پالیسیاں بنا کر اور نافذ کر کے اگر کوئی حکمران یہ سمجھتا ہے کہ لوگوں کو اس کی خبر نہیں یا اس کا کوئی ردِ عمل نہیں آئے گا تو وہ کوئی سوچ سمجھ رکھنے والا حکمران نہیں ہو سکتا۔ اسے احمقوں کی جنت میں رہنے والا حکمران ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ عرب بہار کے نتائج ملاحظہ فرما لیں۔ حسینہ واجد کا انجام دیکھ لیں۔ نیپال میں آنے والے انقلاب پر ایک نظر ڈال لیں۔ سوشل میڈیا نے عام آدمی کو بہت طاقت دے دی ہے اور اس طاقت کے ہوتے ہوئے انہیں استبدادی ہتھکنڈوں کے ذریعے دبانا یا ان سے ناجائز اور بھاری ٹیکس وصول کرنا اور مختلف حیلوں بہانوں سے ان کی جیبوں سے زیادہ سے زیادہ رقوم نکلوانے کی کوشش کرنا خود حکمرانوں کیلئے تشویش کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر کسی کو حالیہ تاریخ کے واقعات سے سبق حاصل نہیں ہوتا تو اسے چاہیے کہ تاریخِ عالم میں درج انقلابات کی تفصیل پڑھ لے‘ جب مسلسل استحصال کا شکار ہونے والوں نے بالآخر استحصال کرنے والوں کو زندگیوں سے ہی محروم کر دیا تھا کہ انقلاب تو پھر اسی طرح آتے ہیں۔
گزشتہ برس بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ سبھی کو معلوم ہے کہ کب کیا ہوا تھا اور اس کے نتائج کیا نکلے تھے۔ اگر آپ کسی ملک کے وزیراعظم یا صدر ہیں حتیٰ کہ اگر ڈکٹیٹر ہیں تو بھی آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ عوام کے حقوق کو اس طرح پامال کریں جس طرح حسینہ واجد نے کیا‘ جس طرح نیپالی حکومت نے اپنے عوام کا کیا اور اگر پرانے دور کی بات کی جائے تو جس طرح فرانس کے حکمرانوں نے اپنے غریب عوام کا کیا‘ جس کے نتیجے میں انقلابِ فرانس رونما ہوا تھا۔ بنگلہ دیش اور نیپال سے تھوڑا پیچھے جائیں تو عرب بہار کے نام سے کچھ عرب ممالک میں جو انقلابات آئے اس کے پیچھے کارفرما عوامل کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جو بھی اس ڈگر پر چلے گا اس کے لیے پھر باقی کوئی ڈگر نہیں بچے گی۔
اب دیکھتے ہیں آگے ممکنہ طور پر کیا ہو سکتا ہے۔ 17نومبر 2025ء کے سزائے موت کے فیصلے کے فوراً بعد بنگلہ دیش نے انڈیا سے شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا جس پر انڈیا نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ اس حوالے سے ہم تمام سٹیک ہولڈرز سے تعمیری رابطے قائم رکھیں گے۔ حوالگی کے مطالبے میں کہا گیا کہ کسی بھی دوسرے ملک کے لیے انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کو پناہ دینا غیر دوستانہ رویہ اور انصاف کی توہین ہو گی۔ بنگلہ دیش نے اس سے قبل بھی بھارت سے کئی بار حسینہ واجد کو واپس بھیجنے کی باضابطہ درخواستیں کیں اور اس سلسلے میں مراسلے بھی بھیجے‘ لیکن بھارت نے ان درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا بھارت سزائے موت سنائے جانے کے بعد بھی حسینہ واجد کو بنگلہ دیشی حکومت کے حوالے کرنے سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا رہے گا؟ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے عوام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پُر امن رہیں لیکن سوال یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے مثبت جواب نہ ملنے پر بھی بنگلہ عوام پُرامن رہ سکیں گے؟ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی سزائے موت کو تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی بہت اہمیت ہے لیکن حسینہ واجد نے ڈھاکہ عدالت کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے متعصبانہ اور سیاسی بنیادوں پر سنایا جانے والا فیصلہ قرار دیا ہے۔ خیر یہ تو روٹین کی باتیں اور معاملات ہیں۔ جس کے حق میں فیصلہ آتا ہے اور جس کے خلاف آتا ہے‘ دونوں کی جانب سے ایسا ردِ عمل ہر مقدمے کے بعد سننے میں آتا رہا ہے۔
جس حسینہ واجد کی سزائے موت پر میں یہ کالم لکھ رہا ہوں افسوس کہ اس نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا‘ انجام سب کی نظروں میں ہے۔ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے کہ پندرہ اگست 1975ء کو بنگلہ دیشی فوج کے جونیئر افسران نے ٹینکوں پر سوار ہو کر دارالحکومت ڈھاکہ میں واقع صدارتی محل پر دھاوا بول دیا تھا اور شیخ مجیب الرحمان‘ ان کے خاندان کے چند افراد اور ذاتی عملے کو ہلاک کر دیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمان کی دو بیٹیاں شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ بچ گئیں کیونکہ وہ اس وقت سابق مغربی جرمنی کے دورے پر تھیں۔ بنگلہ دیشی سیاسی حلقوں کے مطابق یہ فوجی بغاوت شیخ مجیب الرحمان کی سیاسی جماعت عوامی لیگ کے ناراض لیڈروں نے جونیئر فوجی افسران کے ساتھ مل کر کی تھی اور وجہ تھی حکمرانوں کی جانب سے اختیارات کا ناجائز اور ناواجب استعمال۔ پاکستان سے الگ ہونے کے بعد شیخ مجیب الرحمان نے بھارت سے خصوصی تعلقات قائم کیے چنانچہ 1973ء میں انڈیا سے دوستی کا معاہدہ کیا گیا جس کی انڈیا نے بھاری قیمت وصول کی۔ انڈین فوجیوں نے بنگلہ دیش خالی کرنے سے پہلے بے شمار کارخانوں کی مشینیں بھارت منتقل کر دیں۔ خصوصی مراعات کی وجہ سے تجارتی معاملات میں بھارت کو برتری حاصل ہو گئی اور بنگلہ دیش کی معیشت مکمل طور پر اس کی محتاج ہو گئی۔ یہی وہ اسباب تھے جنہوں نے بنگلہ دیش میں بے چینی کی لہر دوڑا دی اور عوامی لیگ اور شیخ مجیب الرحمان کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں بالکل اسی طرح جیسے 2024ء میں ان کی بیٹی حسینہ واجد کے خلاف اٹھنا شروع ہوئیں۔ مجیب الرحمان نے اس بے چینی کو سختی سے دبانا چاہا‘ یوں دسمبر 1974ء میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا گیا اور آئینی حقوق معطل کر دیے گئے۔ آئین میں کئی ترامیم کی گئیں‘ علاوہ ازیں ملک میں صدارتی نظام نافذ کر دیا گیا۔ بالکل ایسے ہی اقدامات حسینہ واجد نے گزشتہ برس کیے۔ اس طرح حسینہ واجد نے تاریخِ عالم تو کیا اپنے باپ کی تاریخ سے بھی سبق حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ حسینہ واجد کی طرح اگر دوسرے ممالک کے حکمران بھی آنکھیں بند کیے بیٹھے رہے اور یہ سوچتے رہے کہ ان کا اقتدار مضبوط اور محفوظ ہے تو پھر عوام کے غضب سے انہیں کون بچا سکے گا۔ انتظار کیجیے‘ حسینہ واجد ایک اور ایپی سوڈ کا انتظار کیجیے کیونکہ تاریخ خود کو دہراتی ہی رہی ہے۔ یہ ہم ہیں جو اس سے سبق حاصل نہیں کرتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved