تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     21-11-2025

پہلے انسان‘ پھر کچھ اور

ابتدا ہی میں عرض کروں گا کہ فائدہ مند علم وہی ہوتا ہے جسے حاصل کرنے میں ہمارے دل کی آواز شامل ہو‘ اور ہمارا فطری میلان بھی اسی طرف ہو۔ اپنی تدریسی زندگی کے دوران اکثر بچوں کے والدین میرے پاس آتے اور بار بار ایک ہی سوال کرتے کہ عمرانی علوم کا اس زمانے میں کیا فائدہ ہو گا‘ اور یہ سند بے شک معیار کی ہے‘ اور آپ کے معیاری ادارے سے جاری ہو گی‘ لیکن یہ روزگار کمانے کا ذریعہ کس طرح بنے گی؟ جب اپنی جامعہ کے بارے میں معلوماتی مجلسوں کا ہم ملک کے مختلف شہروں میں انعقاد کرتے تو تاریخ‘ سماجیات‘ فلسفہ اور سیاست کا نام سن کر کہیں لوگ اپنا منہ بھی پھیر لیتے۔ ان کی توجہ زیادہ تر بزنس سکول اور کمپیوٹر سائنس کے اساتذہ پر مرکوز ہوتی۔
ہمارا عملی فلسفہ گھسے پٹے زاویوں سے مختلف رہا ہے کہ طلبہ کی تحقیق کا شعبہ جو بھی ہو‘ سماجی علوم‘ انگریزی زبان اور طرزِ تعلیم کی بنیادی باتوں میں سب کی گرفت یکساں ہو۔ وہ زندگی میں جو بھی کریں‘ کسی بھی شعبے یا پیشے سے وابستہ ہوں‘ بشری علوم سے آگاہی انہیں مہذب اور شائستہ انسان بننے میں مددگار ثابت ہو گی۔ یہ بھی درست ہے کہ تہذیب صرف کتابوں اور درسگاہوں کی محتاج نہیں‘ مگر آج کے زمانے میں جامعات کی اہمیت کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا کہ ان کے کھلے ماحول میں شخصیت سازی کا عمل آگے بڑھتا ہے جہاں سب خواب جوان ہوتے ہیں کہ آگے چل کر زندگی کے کون سے دھارے میں کس طرح شامل ہونا اور رہنا ہے۔ کئی صدیوں سے مغربی جامعات میں سماجی علوم کو درسگاہوں کی فکری اساس کا درجہ حاصل رہا ہے‘ اور اب بھی ہے۔ ہم نے سوائے محدود نجی درسگاہوں کے‘ اپنے نوجوانوں کو سیدھا ڈاکٹر اور انجینئر بننے کی راہ پر ڈال دیا ہے‘ اس کے علاوہ کسی اور سوچ کی گنجائش ہی نہیں رہنے دی۔ دیگر ممالک کا زیادہ پتا نہیں مگر ان تمام ایسے شعبوں میں جنہیں آپ تکنیکی یا فنی کہہ سکتے ہیں‘ جامعات کی ڈگری سے گزر کر جانا ہوتا ہے۔
میرے خیال میں معاشرتی علوم کی اہمیت نہ آج ختم ہوئی ہے اور نہ کبھی مستقبل میں ہو گی‘ مگر نئی معیشت کے تقاضوں نے نوجوانوں کی ترجیحات بدل دی ہیں‘ اور یہ بات قابلِ فہم ہے ۔ ہماری نسل جو بڑی حد تک مثالیت پسند تھی‘ کے برعکس آج کا نوجوان دنیا کے ہر خطے میں عملیت پسند ہے‘ اور اس کا سوال بھی وہی ہے جو ایک عرصہ سے ان کے والدین سے سنتا آیا ہوں کہ کوئی مضمون اتنے سال تک پڑھنے کا فائدہ کیا ہو گا؟ افادیت پسندی بھی ایک پرانا فلسفہ ہے‘ اور ہر دور کے انسان کی مادیت پرستی کی نفسیات کی عکاسی کرتا ہے۔ ہر انسان بنیادی طور پر افادیت پسند ہے۔ بازار میں جا کر اشیا خرید کرتے وقت موازانہ کرتا ہے‘ اور قیمت کا تعین افادیت سے کرتا ہے کہ وہ اپنا سرمایہ ضائع نہیں کرنا چاہتا‘ اس کی کوشش زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی ہوتی ہے۔ آج کل کے غالب فلسفے جسے آپ نیولبرلزم یا ہم اپنی زبان میں نوآزاد روی کہیں گے‘ ایک جامع تصور ہے جو زندگی کے سب میدانوں کا احاطہ کرتا ہے۔ پوری دنیا میں ہر آدمی یا طالب علم سے لے کر سیاستدان تک اس کا اسیر نظر آتا ہے۔ یہ تو پرانی بات ہو گئی‘ اور اسے دہرانے کو جی تو نہیں چاہتا مگر پس منظر کے طور پر صرف اتنا کہوں گا کہ ہمارے انکار کے باوجود غیر شعوری طور پر ہر انسان مادیت پرست ہے‘ اور اگر مادیت پرستی میں افادیت کا اضافہ بھی کر لیں تواس کا دائرہ مذہبی رویوں تک بھی پھیل جاتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہر انسان اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کلی اختیار رکھتا ہے‘ اور جو فیصلہ ہو‘ اس کے نتائج کا وہ خود ذمہ دار بھی ہے۔ آزادی جو اس فلسفے کی اساس ہے‘ وہ ہمیں اپنے راستے متعین کرنے کا حق دیتی ہے‘ مگر سماجی حالات اور دیگر وجودی عناصر ان راستوں کو مسدود کرتے یا کھولتے ہیں۔ جو مواقع تعلیم اور آگے بڑھنے کے لیے کسی نوجوان کو امریکہ میں میسر آسکتے ہیں‘ وہ شاید ہمیں یہاں نہ مل سکیں۔ زہران ممدانی کے مقام اور کامیابی تک پہنچنے کے لیے نیویارک اور وہاں کے معاشرے کی صلاحیتوں کی بھی ضرورت ہے۔
معافی کا خواستگار ہوں کہ بات طویل ہو گئی۔ میرا اپنا خیال کچھ مختلف ہے‘ کہ کسی بھی نوجوان کو زندگی میں وہ کچھ کرنا چاہیے جو وہ کرنا چاہتا ہے۔ اصل بات یہ نہیں کہ ہمارے بچے مادی لحاظ سے کتنا کچھ اپنی زندگی میں سمیٹیں گے‘ مسئلہ یہ ہے کہ وہ خوش اور مطمئن رہیں‘ صحتمند اور پُرسکون زندگی گزاریں۔ یہ بڑی گاڑیوں‘ محلات اور زر و دولت کے بڑے خواب وہ آسودگی بھی شاید مہیا نہ کر سکیں جو اس قسم کے اسباب سے وابستہ کی جاتی ہے۔ ایسی باتیں ظاہر ہے کہ ہم والدین کو تو بتانا پسند نہیں کرتے‘ مگر صرف گزارش ہی کر دیتے ہیں کہ بچوں کے رجحان کی بہت اہمیت ہے‘ آپ اپنی مرضی ان پر مسلط نہ کریں تو بہتر ہو گا۔ کئی واقعات اپنی یادداشت میں محفوظ ہیں کہ والدین کا اصرار بچے یا بچی کو کسی فنی میں شعبے میں بھیجنے کا تھا‘ مگر وہ تاریخ‘ ادب اور سیاسیات کے علوم میں سے کسی ایک میں جانے کی تڑپ رکھتے تھے۔ جہاں جبر ہوا‘ وہاں ہم نے نتائج ایسے دیکھے جو ناقابلِ بیان ہیں۔ گزارش کروں گا کہ بچوں کی ذہنی اور نفسیاتی صحت کا تقاضا ہے کہ ان کے عملی رجحانات کا خیال رکھا جائے‘ اور اگر کسی من پسند فنی شعبے کی طرف مائل کرنا ہے تو اس میں جبر کے بجائے فطری شوق کی آبیاری کی جائے۔ ضروری ہے کہ اس پسند کو ان کی فطرتِ ثانیہ کا حصہ بنایا جائے۔
نجانے کتنے طلبہ ہمارے پاس آئے ہوں گے‘ اور سب نے پہلے پہل ایک ہی سوال پوچھا کہ آپ کے خیال میں مجھے کیا بننا چاہیے۔ میرا جواب بھی ایک ہی رہا ہے کہ پہلے تو اچھا انسان بنیں‘ اگر یہ بن گئے تو باقی جو بھی بنیں گے اس کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ۔ دوسرا‘ زندگی میں خواب اپنی صلاحیت‘ استعداد اور تہذیبی ماحول کے پیشِ نظر دیکھیں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ اچھا انسان کبھی زندگی میں کسی سے پیچھے نہیں رہتا بشرطیکہ یہ فقط دعویٰ نہ ہو۔ میرے نزدیک آزادی انسانیت کا بنیادی جوہر ہے۔ اگر ہم کسی کے غلبے میں کھو بیٹھیں تو پھر عاجزی ہی ہمارا مقدر ٹھہرے گی۔ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے اور اپنا راستہ خود بنانے کیلئے آزاد سوچ ضروری ہے۔ میری آپ سے درخواست ہو گی کہ اپنے ارد گرد بچوں اور نوجوانوں کو زندگی کی سب منزلوں اور راستوں سے آگاہ کریں‘ مگر فیصلہ ان کے اپنے فطری میلان اور صلاحیت کے مطابق ہو کہ وہ کیا اور کہاں پڑھیں گے اور کون سا پیشہ اختیار کریں گے۔ میں اس خیال کو بالکل مسترد تو نہیں کر سکتا کہ تعلیم اور نصاب کا تعلق جدید معیشت کے تقاضوں سے منسلک ہو‘ مگر اس کا دائرہ بہت وسیع ہے‘ اور معیشت کو صرف فنی شعبوں تک ہی محدود نہیں کیا جا سکتا۔ علم کا بنیادی مقصد ہی اس شعور کی بالیدگی ہے جو ہمیں زندگی‘ ذات اور سماج سے آگاہی کی راہیں تنقیدی زاویۂ فکر کے ساتھ استوار کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور کرے۔ کسی دور میں اکثریت کی ترجیح بھیڑ چال کی طرح جو بھی ہو‘ میرے نزدیک اہمیت انفرادیت اور فطری رجحان کی ہے۔
جس مسابقت کی بھٹی میں ہم اپنے بچوں کو پھینک کر انہیں اپنی کچھ بننے کی خواہش کی نذر کر دیتے ہیں‘ وہ ہماری ذاتی پسند کا اظہار ہوتی ہے۔ اس کے نتائج ہمیشہ مثبت نہیں دیکھے۔ بچے بھی انسان ہیں‘ ان کی تربیت ایک خود مختار انسان کے طور پر ہو تو آپ کبھی مایوس نہیں ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved