تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     21-11-2025

قیدی نمبر 804کی آئسولیشن

آج عمران خان کی قید کو 839دن پورے ہو گئے۔ یہ قیدِ محض بلکہ مسلسل قیدِ تنہائی ہے‘ جسے ساری دنیا جیل کی زبان میں ''آئسولیشن سیل‘‘ کہتی ہے۔ کسی منتخب وزیراعظم کی اس طرح کی قید کا یہ اولین عالمی ریکارڈ بھی ہے۔ یہ ایک ایسی قید ہے جس میں قیدی کے سیل کو بلیک ہول میں بھی تبدیل کیا جاتا ہے‘ موسم کی پروا کیے بغیر‘ لمبی بجلی بند کرکے۔ کپتان نے مجھے خود بتایا تھا کہ طویل ترین بلیک ہول کا عرصہ سردیاں شروع ہونے سے پہلے دو دن‘ تین دن اور پانچ دن طوالت تک ناقابلِ برداشت شدید گرم موسم میں بھی جاری رہا۔
عمران خان سے پہلے شعر و ادب کے ایک آئیکون فیض احمد فیض نے چار سال قیدِ بے گناہی میں گزارے ہیں۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اگر فیض احمد فیض بندی خانے میں نہ جاتے تو ''زنداں نامہ‘‘ اور ''دستِ صبا‘‘ جیسے شاہکار شاید آج ہمارے ہاتھ میں نہ ہوتے۔ یہ دونوں شعری مجموعے راولپنڈی سازش کیس کے عرصے میں فیض احمد فیض کے قلم کے فیضان کی صورت میں سامنے آئے۔ ان دونوں شعری مجموعوں میں جیل کے تجربات‘ ہم وطنوں اور وطن کی حالتِ زار کے ساتھ ساتھ انقلابی تحریکوں کی رہنمائی اور فتوحات کی تفصیلات موجود ہیں۔ فیض احمد فیض کی دل میں اتر جانے والی شاعری ان کی پہلی نظمیہ کتاب دستِ صبا ان کی قید کے دوران لکھی گئی نظموں کا مجموعہ ہے‘ جس میں ''سیاسی لیڈر کے نام‘‘ اور ''صبحِ آزادی‘‘ جیسی نظمیں کمال سے بھی بڑھ کر ہیں۔ زنداں نامہ کے مجموعہ شاعری کو فیض احمد فیض کی جیل ڈائریز بھی کہہ سکتے ہیں۔ زنداں نامہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کتاب کا سکرپٹ بدترین مارشل لاء کے باوجود نہ صرف جیل سے ناشر تک پہنچا بلکہ فیض احمد فیض ابھی جیل میں بند تھے کہ زنداں نامہ شائع ہو کر انقلابیوں کے لیے ہدایت نامہ بن گیا۔ اسی قید کے دوران فیض احمد فیض نے ایرانی طلبہ کے نام ''نثار میں تیری گلیوں کے‘‘ اور ''زنداں کی ایک شام‘‘ جیسے شاہکار تخلیق کیے‘ جو دنیا بھر میں شاعری اور انقلاب کا متفقہ اور معتبر حوالہ ہیں۔ اسی شاعری اور انقلاب کے خوف سے آج کے نریندر مودی والے ''شائننگ انڈیا‘‘ میں فیض احمد فیض کی ایک اور شاہکار تخلیق ''ہم دیکھیں گے‘‘ پڑھنے اور نشر کرنے پر پابندی لگادی گئی ہے۔
فیض کی شاعری 1951ء کی بات ہے‘ آج 2025ء میں 74برس کا عرصہ گزر جانے کے بعد عمران خان کا قید خانہ چھوٹی جیل ہے‘ جس کے باہر ایک بڑی جیل۔ ایک عمران خان پچھلے چار ہفتوں سے آئسولیشن سیل میں بند ہیں۔ چھوٹی جیل سے باہر بڑے بندی خانے میں24کروڑ 99لاکھ 99ہزار 999لوگوں کے لیے کبھی گیس بند‘ کبھی بجلی بند‘ کبھی انٹر نیٹ بند‘ کبھی فیس بک بند‘ کبھی ٹویٹر بند‘ کبھی جلسہ بند‘ کبھی روڈ بند‘ کبھی جلوس بند‘ کبھی احتجاج بند۔ جہاں تک خان کی آئسولیشن کا تعلق ہے اب ان کا کوئی وکیل ان کو نہیں مل سکتا۔ نہ ہی عمران خان کا ذاتی معالج ان تک رسائی رکھتا ہے۔ بہنوں کے ساتھ جو سلوک برسرِ بازار اڈیالہ روڈ پر ہوا‘ اس کی وڈیوز زبانِ حال سے پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ ان ماؤں کے لیے ریاست ہرگز ماں نہیں ہے۔ خاص طور سے ایک ایسے ماحول میں جب فارم 47کے ذریعے ایک بندوبست لا بٹھایا گیا ہے۔
دوسری جانب دیارِ غیر میں کسی ناراض پاکستانی نے ایک شخصیت پر جملے کسے۔ نہ کسی نے کسی کو ہاتھ لگایا‘ نہ د ھکا مارا‘ نہ ہی کوئی گالم گلوچ ہوئی۔ مگر گودی میڈیا پر ایسا لگا جیسے کسی کی عصمت پہ ہاتھ ڈالا گیا ہو۔ عمران خان کی بہنیں بھی ان کی طرح پاکستان اور برطانیہ سے تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ بھی اس دور میں جب خواتین کو پڑھنے کے لیے سات سمندر پار بھیجنے پر سوسائٹی میں بڑا سوالیہ نشان تھا۔ عمران خان کی بہنیں11سے 14 سینٹی گریڈ یخ بستہ ٹمپریچر میں ننگے پاؤں‘ خالی ہاتھ اڈیالہ جیل کے باہر مسلح پولیس سے کہہ رہی تھیں کہ ہم بھائی سے ملے بغیر نہیں جائیں گی‘ یہ ہمارا قانونی و دستوری حق ہے۔ لیکن شکر ہے کہ نہ اس سڑک پر عمران خان کی بہن کو گھسیٹنے کی وڈیو نظر آئی‘ نہ زخمی ہاتھ اور نہ ہی اس غیر سیاسی گھریلو خاتون کے چھلے ہوئے پاؤں عورت کارڈ استعمال کرنے والوں کو دکھائی دیے۔ نہ ہی سڑک پر مٹھی بھر خواتین اور پی ٹی آئی ورکرز کو دھرنا سمجھ کر‘ جو ننگی زمین پر بیٹھے ہوئے تھے‘ یخ پانی پھینکنے کی وہ وڈیوز دیکھنے کو ملیں جو اس مظلوم قافلے کو اٹھانے کے لیے زمین پر چھوڑا گیا۔ ایسے میں آپ آئسو لیشن سیل میں خان کے حالات کی سنگینی کا خوب اندازہ کر سکتے ہیں۔ ایک ایسے عہدِ ناپرساں میں جہاں رضوی برادران ہفتوں سے غائب ہیں اتنا بھی پتا نہیں کہ انہیں آسمان نگل گیا یا زمین کھا گئی‘ عمران خان کو آئسولیشن سیل میں رکھنے کی وجوہات کے بارے میں بہت سے سوال اٹھ رہے ہیں۔ جن میں سے دو سوالوں کا جواب حاضر ہے۔
عمرا ن خان کی اڈیالہ سے جلا وطنی: کپتان کو حقیقی آزادی سے دستبردار کرنے کے لیے ایک سے زیادہ مرتبہ ملک چھوڑ دینے کی آفر ہوئی۔ گھر بیٹھ جانے کی آفر ہوئی۔ مزاحمت بند کرنے کے عوض مقدمات ختم کرنے کی آفر ہوئی۔ اب بعض حلقوں کی طرف سے یہ شوشہ ''لانچ‘‘ کیا گیا ہے کہ اگر وہ نہیں مانیں گے تو انہیں اڈیالہ جیل سے اٹھا کر بلوچستان کی بدنامِ زمانہ مچھ جیل میں بھجوا دیا جائے گا۔ اس کا جواب میرے کالج کے دوست نواب اسلم رئیسانی کی زبان میں یہ ہے کہ جیل جیل ہوتی ہے‘ اٹک کی ہو‘ اڈیالہ کی یا مچھ کی۔ اور اللہ تعا لیٰ کی ذات ہر جگہ موجود ہوتی ہے۔
آنے والے احتجاج کو روکنے کا حربہ: عمران خان اور ان کی سلامتی کے حوالے سے ابہام اور ہیجان سے بھر پور جو مہم چلائی جا رہی ہے‘ عمران خان کی آئسولیشن سیل میں بندش اس کا حصہ ہے۔ ٹرائل اگرچہ سات خانوں میں بند جیل کے اندر ہوتا ہے‘ اس کے باوجود عمران خان پاکستان کے واحد لیڈر ہیں جن کا عوام سے براہِ راست واسطہ اور تعلق ہے۔ انہیں کسی ''میڈیم‘‘ کی ضرورت نہیں۔ وہ عوا م کی نبض اور عوام ان کی جرأت اور استقامت سے واقف ہیں۔ یہ ہتھیار عمران خان پر کامیاب نہیں ہو گا۔ وہ غلامی پر موت کو ترجیح دیتا ہے۔ سب جانتے ہیں غلامانہ ذہنیت دبنگ نہیں ہوتی‘ دبے پاؤں چلتی ہے۔
پسِ نوشت: آج کا وکالت نامہ فیض احمد فیض کی برسی کے دن لکھا گیا۔ فیض کی یاد میں:
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved