جماعت اسلامی پاکستان کا سالانہ اجتماع مینارِ پاکستان کے سائے تلے شروع ہو چکا ہے۔ اجتماع میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کی توقع کے مطابق خواتین و حضرات کی کثیر تعداد موجود ہے۔ جوش اور جذبے کے ساتھ۔ اس جوش و جذبے کی نگرانی کیلئے پاسبانِ عقل بھی نہایت وقار کیساتھ موجود ہے۔ اجتماع گاہ پر پہلی نگاہ سے ہی محسوس ہو جاتا ہے کہ اس بحر کی موجوں میں اضطراب بھی ایک حسنِ ترتیب کیساتھ اپنے امیر کے خطاب سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ میں گزشتہ روز مغرب سے پہلے اجتماع گاہ میں سٹیج پر موجود تھا اور میں نے بچشم خود یہ نظارہ دیکھا کہ وہاں عوام کا جمِ غفیر موجود تھا۔جماعت اسلامی کا یہ سالانہ اجتماع 11 برس کے بعد منعقد ہو رہا ہے۔
اس بار جماعت کے اجتماعِ عام کا نعرہ ہے ''بدل دو نظام‘‘۔ اس نعرے میں بڑا سسپنس ہے۔ اجتماع کے حاضرین ہی نہیں بلکہ ملک کے اندر اور باہر بھی جماعت اسلامی کے ہمدرد گوش برآواز ہیں کہ جماعت اسلامی کون سا نظام بدلنا چاہتی ہے اور اس کی جگہ کس طرح کا نیا نظام لانا چاہتی ہے۔ پاکستان کے عوام و خواص جماعت اسلامی کی دیانت و امانت اور اس کی خدمت و شرافت کے معترف ہیں۔ جب جب اور جہاں جہاں لوگوں نے جماعت اسلامی کو منتخب کیا‘ تب تب اس نے دیانتداری اور جانفشانی کے ساتھ خدمتِ عوام کے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔
جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی دو بار کراچی کے میئر منتخب ہوئے۔ وہ درویش صفت انسان تھے۔ کروڑوں بلکہ اربوں روپے کے بجٹ والی کراچی کارپوریشن کے میئر کے بیٹے کو سعودی عرب میں عام سی ملازمت یا مزدوری کی تلاش میں سرگرداں دیکھا۔ نعمت اللہ خان جب میئر منتخب ہوئے تب کراچی کا بجٹ بہت زیادہ تھا۔ وہی بات‘ خلیفۂ دوم حضرت فاروق اعظمؓ نے کسی صحابی سے پوچھا کہ میں خلیفہ ہوں یا بادشاہ؟ صحابی نے جواباً فرمایا کہ کیا آپ مسلمانوں کے بیت المال کو اپنے والد خطاب کی ملکیت سمجھتے ہیں یا مسلمانوں کی امانت؟ سیدنا عمرؓ بن خطاب نے فرمایا کہ یقینا یہ مسلمانوں کی امانت ہے‘ اس کا ایک پیسہ بھی میری یا میرے والد کی ملکیت نہیں۔ صحابی نے فرمایا: پھر مطمئن ہو جائیں‘ آپ بادشاہ نہیں خلیفہ ہیں۔
2002ء کے انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں ایم ایم اے کی جو حکومت قائم ہوئی‘ اس کے وزیر خزانہ سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق تھے۔ وہ فرانس کے دورے پر گئے تو انہوں نے قانونی اجازت کے باوجود پیرس میں کسی فائیو سٹار ہوٹل تو کجا کسی دو ستارہ ہوٹل میں بھی قیام نہیں کیا بلکہ ایک اسلامک سنٹر یعنی مسجد میں ڈیرہ لگایا اور اپنے غریب ملک کا سرمایہ بچایا۔ پروفیسر خورشید احمد نے سینیٹر کی حیثیت سے کچھ وقفوں کے ساتھ 1985ء سے 2012ء تک یادگار خدمات انجام دیں۔ اگر پیچھے جائیں تو 1970ء کی قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے صرف چار ممبران تھے مگر انہوں نے اپنی اَنتھک جدوجہد‘ حکمت و دانش اور ہر طرح کی اَنا پرستی اور عصبیت سے ماورا ہو کر 1973ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا متفقہ آئین بنوانے کا کار نامہ انجام دیا۔ جماعت اسلامی 85 برس قبل اگست 1941ء کو لاہور میں قائم ہوئی تھی۔ جماعت کے بانی اُس دور کی عظیم علمی و دینی شخصیت مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی تھے۔ آج یہ جماعت پاکستان‘ انڈیا اور بنگلہ دیش میں اپنا گہرا اثر و نفوذ رکھتی ہے۔ جماعت اسلامی کا بنیادی نظریہ ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام ہے۔ جماعت اسلامی نظامِ عدل‘ معاشرتی مساوات‘ تعلیم اور اقتصادی انصاف پر مبنی نظام لانا چاہتی ہے۔ اس راستے میں جماعت کو ابتلا کے کئی ادوار سے گزرنا پڑا‘ حتیٰ کہ بانیٔ جماعت مولانا مودودی کو سزائے موت بھی سنا دی گئی۔ معافی مانگنے کو کہا گیا تو مولانا مودودی نے کوئی معافی نامہ دائر کرنے سے صاف انکار کر دیا اور اتنا کہا کہ زندگی اور موت کے فیصلے زمینوں پر نہیں آسمانوں پر ہوتے ہیں۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ مولانا زندہ سلامت باعزت بری ہوئے۔ آج اسی جماعت اسلامی کی امارت کے وارث حافظ نعیم الرحمن ہیں۔حافظ صاحب جمعیت کے راستے جماعت اسلامی میں آئے اور پھر امیر جماعت اسلامی کی حیثیت سے کراچی میں چھا گئے۔ حافظ صاحب اور ان کی جماعت نے کوئی انتظار کیے بغیر مختلف النوع مسائل کی آماجگاہ کراچی کے شہریوں کی خدمت کیلئے اپنے کارکنوں کے ساتھ شب و روز جت گئے‘ اسی خدمت نے ایک بار پھر جماعت اسلامی کراچی کو اس کا کھویا ہوا شہر لوٹا دیا۔ حافظ صاحب سے براہِ راست بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ 2024ء کے انتخابات میں ہم فارم 45 کے تحت جیت گئے تھے مگر فارم 47 کی شعبدہ بازی کی بنا پر ہمیں ہمارا حق نہیں دیا گیا۔
جماعت اسلامی غالباً پاکستان کی واحد جماعت ہے جس پر کوئی خاندان قابض نہیں۔ ہر پانچ برس کے بعد ان کے ہاں باقاعدگی سے نیچے سے لے کر اوپر تک انتخابات ہوتے ہیں۔ کراچی میں حافظ نعیم الرحمن کی بے پناہ سیاسی و سماجی کامیابیوں کی بنا پر پاکستان بھر کے ارکانِ جماعت اسلامی نے انہیں اپریل 2024ء میں اپنا نیا امیر منتخب کر لیا۔ ایک ڈیڑھ برس کے دوران ہی حافظ صاحب نے جماعت اسلامی کے منشور کی اہم شق خدمتِ عوام کے بڑے بڑے منصوبے اپنی تنظیم الخدمت کے ساتھ مل کر پیش کیے۔ ''بنو قابل‘‘ ان کا ایک زبردست پروجیکٹ ہے جس کے تحت دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق بڑے شہروں میں 11 لاکھ طلبہ کو آئی ٹی کورسز کروا کے انہیں گھر بیٹھ کر عالمی مارکیٹ میں کام کرنے کی تربیت بھی دلائی گئی۔ اس پروگرام سے نوجوانوں کو باعزت روزگار ملنے کے وسیع تر امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ اب ان کا ہدف مزید دس لاکھ نوجوانوں کی آئی ٹی ٹریننگ کا منصوبہ ہے جس پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔ اسی عرصے میں حافظ صاحب نے کسانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خاتمے‘ آئی پی پیز کے استحصالی چنگل سے نجات‘ بجلی اور گیس کے روزمرہ مسائل اور بے روزگاری کے خاتمے کیلئے ملک بھر میں کئی جگہ کامیاب دھرنے دیے اور پُرامن عوامی احتجاج سے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور لوگوں کو بڑا ریلیف دلوایا۔ تاہم اس وقت حافظ نعیم الرحمن صاحب سے ہر پلیٹ فارم پر تین چار سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔ ایک سوال تو یہ پوچھا جاتا ہے کہ جب پاکستان کے عوام و خواص اس جماعت کی دیانت و امانت اور خدمتِ خلق کے دل و جان سے اتنے معترف ہیں تو پھر انہیں پاپولر ووٹ کیوں نہیں ملتا؟ ان سے ان دنوں بطورِ خاص یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کیا جماعت اسلامی نے روایتی سیاست کو چھوڑ کر اپنے آپ کو صرف دھرنوں تک محدود کر لیا ہے؟ امیر جماعت کا کہنا یہ ہے کہ وہ فرسودہ نظام کو بدلنا چاہتے ہیں‘ وہ دولت کے ارتکاز کا خاتمہ چاہتے ہیں‘ وہ طبقاتی تقسیم میں کمی لانا چاہتے ہیں‘ وہ غریبوں کو باعزت روزگار دلانا چاہتے ہیں۔ وہ سکول نہ جانے والے کروڑوں بچوں کو سکولوں میں بھیجنا چاہتے ہیں مگر یہ سب کچھ کیسے ہو گا؟ ایک سوال یہ بھی جناب حافظ نعیم الرحمن سے پوچھا جا رہا ہے جو کچھ وہ بدلنا چاہتے ہیں وہ تو منتخب ایوانوں کے ذریعے ہی بدلا جا سکتا ہے مگر ان ایوانوں میں جماعت اسلامی کی کوئی نمائندگی نہیں۔ پھر یہ سب کچھ کیسے ہو گا؟ ایک سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ جماعت اسلامی کا نعرہ ہے کہ وہ اپنے جھنڈے تلے اور اپنے نشان پر الیکشن لڑے گی مگر جماعت اسلامی کراچی کے علاوہ ملکی سطح پر جب کبھی کوئی بڑی کامیابی ملی‘ وہ ہم خیال جماعتوں کے اتحاد کے ذریعے ہی ملی۔ سب سوالوں کا ایک سوال کہ ''بدل دو نظام‘‘ میں جماعت کس نظام کو بدلنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ کیا جماعت اسلامی کے پیش نظر تبدیلیٔ احوال کیلئے پارلیمنٹ کے علاوہ کوئی اور بھی راستہ ہے؟
سسپنس برقرار ہے‘ دیکھیے 23نومبر کو حافظ صاحب نظام کو بدلنے کا کیا لائحہ عمل قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved