تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     23-11-2025

سیاست کے علاوہ زندگی میں بہت کچھ ہے

سیاست تو واقعی ختم ہے اور یہ ہائبرڈ والوں کا کرنا ہے۔ پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی جاری ہے لیکن سیاست کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ بہرحال اس امر کو صحیح زاویے میں دیکھنا چاہیے۔ چین میں کون سی سیاست ہے‘ روس میں ہماری جیسی روایتی سیاست کہاں ہے۔ لیکن ان ممالک میں سیاست کے علاوہ اور بہت کچھ ہے۔ یہاں کا رونا یہ ہے کہ بہت سی باقی چیزیں جو زندہ معاشروں کی نشانی ہوا کرتی ہیں اُن کا وجود نہیں رہا۔ دیگرملکوں میں لوگ سیر سپاٹے کرتے ہیں‘ تھیٹر جاتے ہیں‘ موسیقی کے بے شمار ذرائع ہوتے ہیں۔ یہاں بھی ڈھونڈے سے ایسی چیزیں نظر آ جاتی ہیں لیکن بہت چھوٹے پیمانے پر۔
کسی ملک کا دارالحکومت ایک قسم کا شوکیس ہوتا ہے جس میں ہر اعلیٰ چیز نظر آتی ہے۔ موسیقی اور آپرا (Opera) ہاؤسزہوں گے‘ تھیٹر ہوں گے‘ ڈانس کمپنیاں ہوں گی‘ نائٹ کلب ہوں گے‘ بڑے بڑے عجائب گھر‘ خوبصورت سڑکیں‘ اعلیٰ ٹرانسپورٹ کا نظام وغیرہ وغیرہ۔ اسلام آباد میں بتائیں سوائے سڑکوں اور انڈر پاسوں کے ایسی کون سی چیز نظر آتی ہے؟ ایک تھیٹر نہیں‘ ایک موسیقی کا کانسرٹ ہال نہیں۔ مغربی کلاسیکی اور آپرا کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔ہمارے شہروں میں عبادت کیلئے بہت سے مقامات ہیں جو کہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ عبادت کے مواقع ملنے سے نیکی اور اچھائی پھیلتی ہے۔ جتنی نیکی اسلام آباد اور دیگر شہروں میں ہے‘ ہم جانتے ہیں۔ باقی کوئی غیرملکی بھولے سے اسلام آباد آ جائے اور سوچے کہ شام کو کچھ کرنا چاہیے تو سر پکڑ کے بیٹھ جائے گا کیونکہ سوائے کڑاہی گوشت اور دیگر اس قسم کے کھانوں کے یہاں اور کوئی چیز میسر نہ ہو گی۔ سیاست پر مزید پہرے لگا دیں لیکن اور کچھ چیزوں کا تو کچھ اہتمام ہو۔ وہ یہاں ہے نہیں کیونکہ پارسائی کے نام پر ہر کھلا ہوا دروازہ یہاں مقفل ہو چکا ہے۔ بند دروازوں کے پیچھے پیسے والے اپنی تفریح کا سامان پیدا کر لیتے ہیں لیکن جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے ان کیلئے کیا رہ گیا ہے؟ پارسائی کے دعوے اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہوں گے لیکن اس قاتل موسم میں ایسی باتوں سے شامیں تو نہیں گزرتیں۔
ایک دعویٰ البتہ ہم کر سکتے ہیں کہ ہمارے حالات افغانستان سے بہتر ہیں۔ 2004ء میں کابل جانا ہوا تو ہمارے سفیر صاحب نے ہمارے لیے شام کا بندوبست تو کر دیا لیکن ساتھ تاکید بھی کی کہ صبح ہوٹل کے کمرے میں سامانِ راحت کی کوئی علامت نہ رہے۔ اس سَمے خیال آیا کہ حالات ہمارے بُرے ہوں گے لیکن اتنے بُرے بھی نہیں۔ ہمارے ہاں دیگر قدغنوں کے باوجود کم از کم خالی سامان کا دھڑکا تو نہیں لگا رہتا۔ لہٰذا دل کو یہ دلاسہ دے سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اور تو جو ہوا سو ہوا طالبان بننے سے تو بچ گئے۔ حالانکہ یہاں پوری کوشش رہی کہ طالبان نہ سہی طالبان کے قریب ترین مخلوق تو اس قوم کو بنا دیا جائے۔
جمہوریت کا جو آج کل رونا رویا جا رہا ہے‘ یہ تو پوچھا جائے کہ یہاں کی جمہوریت کے کارنامے کیا ہیں۔ ضیا الحق کو ہر چیز کا بہانہ یہاں بہت بنایا گیا لیکن مرحوم مردِ حق کو گئے لگ بھگ 37سال ہو گئے ہیں۔ جمہوریت کے جو چیمپئن آئے اور کچھ نہ کرتے مردِ مومن کے ورثے کا بوریا بستر تو گول کر جاتے۔ یہ جو حدود آرڈیننس کا بوجھ ہماری قانون کی کتابوں نے اُٹھایا ہوا ہے اس کا کچھ بندوبست کرنے میں کون سا امر مانع رہا ہے؟ پیپلز پارٹی والے اقتدار میں آئے تو ڈرے ہوئے تھے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے ان پر کڑی نظر رکھی ہوئی تھی۔ ویسے بھی لوٹ مار کی جب کھلی آزادی تھی تو فضول کے جھمیلوں میں پی پی پی والے کیوں پڑتے۔ جہاں تک (ن) لیگ کا تعلق ہے وہ شروع سے مولویانہ ذہن کے مالک تھے البتہ مولویانہ ذہن لوٹ مار کی کارروائیوں میں کبھی حائل نہیں ہوا۔ پرویز مشرف بہت کچھ کر سکتے تھے۔ پہلے دو اڑھائی برسوں میں انہیں کسی مخالفت کا سامنا نہ تھا۔ فوج اور دیگر محکمے ان کی مکمل گرفت میں تھے‘ جو چاہے کر سکتے تھے۔ اپنے آپ کو بڑے دبنگ سمجھتے تھے۔ ہم دبنگ تب مانتے جب 'پارسائی‘ اور منافقت کے ورثے کو ایک ہی ٹھوکر مار کر ختم کرتے۔ لیکن امریکہ کو خوش کرنے کے لیے اعتدال پسندی کی باتیں ہوتی رہیں اور چوری آنکھ سے طالبان کی حرکتوں کو برداشت کیا گیا۔ وہی طالبان جو آج ہمارے گلے کا طوق بنے ہوئے ہیں۔
سپین میں فرینکو کی طویل آمریت کے بعد جمہوریت کا سورج طلوع ہوا تو ایک دم نہ سہی بتدریج اس آمریت کے نشان مٹائے گئے۔ پرتگال دہائیوں تک سالا زار کی آمریت کے نیچے رہا لیکن جمہوریت آئی‘ بڑے سمجھدار لوگ تھے جنہوں نے آمریت کی نشانیاں مٹائیں۔ یونان میں ایسا ہوا‘ آمریت گئی تو بہت خوبصورتی سے جمہوریت کے پودے کی آبیاری ہوئی۔ آج ان تینوں ملکوں میں جائیں تو پتا ہی نہیں چلتا کہ طویل عرصے تک یہاں پر آمروںکا راج رہا۔ ہمارے ہاں جمہوریت نے دو کام کیے‘ لوٹ مار میں پورے پورے ہاتھ ڈالے گئے اور اسٹیبلشمنٹ کی قوتوں سے کمپرومائز ہوتا رہا۔ جہاں غیر جمہوری عناصر کو ٹھکانے لگایا جا سکتا تھا ہمارے جمہوریت کی پیداوار حکمران پیسے بناتے رہے یا ڈرتے رہے۔
لہٰذا جو جمہوریت ایک بند تالے کو نہ کھول سکے ہمارے کس کام کی۔ سیاسی طور پر چین‘ روس اور ان جیسے دیگر ممالک آمریتیں ہیں۔ چین میں چائنیز کمیونسٹ پارٹی کا حکم چلتا ہے اور روس میں ولادیمیر پیوٹن کا۔ لیکن وہاں معاشرتی آزادیاں تو ہیں۔ ہم نے اپنی عجیب جمہوریت بنائی ہے کہ نہ تو سیاسی آزادیاں اور نہ ہی معاشرتی آزادیاں۔ ایک تو ریاست اور قوانین کا جبر‘ اس کے علاوہ جس گروہ کا جی چاہے ڈنڈا اُٹھا لے اور عام آدمی کی سیر و تفریح کے پیچھے پڑ جائے۔ ہماری محبوب جماعت اسلامی نے تو شروع دن سے یہ مشن بنا لیا تھا کہ معاشرتی آزادی کا تھوڑا سا اظہار بھی ہو تو ڈنڈے اُٹھا لیے جائیں۔ کیا تربیت نوجوانوں کو دی ہے‘ لیکن یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ اس سے حاصل کیا ہوا۔ جہاں 'پارسائی‘ کا اتنا شور و غل ہو تو اس قوم کا دنیا میں نمایاں مقام ہونا چاہیے اور اس کی نیکی کی مثالیں اقوامِ عالم کے لبوں پر ہونی چاہئیں۔ لیکن جو ہمارا اصل ہے وہ ہم تو جانتے ہیں دنیا بھی جانتی ہے۔
سوال البتہ یہ ہے کہ اس گھٹن زدہ ماحول سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جائے۔ نسبتاً جوان ہی تھے جب ذوالفقارعلی بھٹو اور ضیا الحق کے قوانین اس بدنصیب دھرتی پر لاگو ہو گئے۔ اب عمر بیت چکی ہے اور معاشرتی گھٹن کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی گئی ہے ۔ اس ماحول سے پاکستانی ذہنیت عجیب سی بن چکی ہے۔ کتنے ہی لوگ کہتے ہیں کہ اپنی آخرت کی فکر کرو۔ ملک کی فکر انہیں کوئی نہیں ہماری آخرت کا دھڑکا انہیں لگا ہوا ہے۔ ایسی نیک خواہشات رکھنے والے اصحاب سے کیسے گزارش کی جائے کہ آخرت کے معاملات ہمارے اور ہمارے رب کے درمیان ہیں۔ اس ضمن میں ہمارے لیے زیادہ متفکر ہونے کی ضرورت نہیں۔ فکر کریں تو اس بات کی کہ اچھے بھلے ملک کا چہرہ کیسے مسخ ہو گیا۔ شروع میں ممکنات اتنی تھیں کہ بہت کچھ ہو سکتا تھا۔ یہ جو ایشیا کی ترقی یافتہ ریاستیں ہیں 1947-48ء میں یا تو انہیں تب تک آزادی حاصل نہیں ہوئی تھی یا ہر لحاظ سے ہمارے پیچھے تھیں۔ ہمارا کارنامہ دیکھیے کہ وہ ساری قومیں ترقی کی دوڑ میں ہم سے آگے اور ہم کہیں پیچھے۔
بہرحال عرض اتنی کہ بربادی سہی لیکن بربادی کے ایام کچھ آسان تو کر دیے جائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved