ہوسکتا ہے کہ اس سوال کے جواب میں مجھ سے پوچھا جائے کہ آپ کو پختونوں کا درد کیوں اُٹھ رہا ہے۔ آپ کے اپنے صوبہ پنجاب‘ سندھ یا بلوچستان کے بچوں کا مستقبل کیا ہے کہ آپ کو پشتون بچوں کی فکر پڑ گئی۔ یقین کریں شاید مجھے بھی اس ملک کے دیگر طبقات کی طرح ان بچوں کی کوئی فکر نہ ہوتی اگر میں نے پچھلے ماہ دنیا میڈیا گروپ کے چیئرمین میاں عامر محمود صاحب کی ٹی وی اینکرز اور صحافیوں کے ساتھ نئے صوبوں کے ایشوز پر گفتگو نہ سنی ہوتی۔ میاں عامر محمود صاحب کا کہنا تھا کہ اس وقت ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ اندازہ کریں کہ ملک کے ڈھائی کروڑ بچے کبھی سکول نہیں گئے اور نہ ہی جائیں گے کیونکہ وفاق اور صوبائی حکومتوں نے کبھی ان بچوں کی ذمہ داری نہیں لی۔ میاں عامر محمود صاحب کی اس بات نے مجھے زیادہ خوفزدہ کیا کہ کسی کو احساس بھی ہے کہ یہ ڈھائی کروڑ بچے جب بڑے ہوں گے تو ان کا آپ کی زندگیوں یا خوشحالی پر کیا اثر پڑے گا؟ ہم سب تو یہ سوچ کر خوش اور مطمئن ہیں کہ ہمارے بچے اچھے اچھے سکولوں میں پڑھ رہے ہیں اور ان کا مستقبل نہ صرف محفوظ ہے بلکہ سہانا ہے۔ میاں صاحب کا کہنا تھا اگر آپ یہ سوچ کر مطمئن ہیں کہ آپ کا سرمایہ اور بچے محفوظ ہیں تو آپ غلط ہیں۔ نہ آپ کا سرمایہ محفوظ ہے‘ نہ ہی آپ کے بچے محفوظ ہیں اور نہ ہی یہ معاشرہ۔ بلکہ آپ کا سرمایہ ان اَن پڑھ بچوں کی وجہ سے خطرات میں گھرا رہے گا۔ یہ ڈھائی کروڑ بچے‘ جن کے پاس نہ تعلیم ہے اور نہ کوئی ہنر‘ جب بڑے ہوں گے تو معاشرے میں کیسے سروائیو کریں گے؟ مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں کیسے ایڈجسٹ ہوں گے‘ اور اپنا کما کر ہماری طرح پُرسکون زندگیاں گزار سکیں گے؟ یہ بچے تعلیم اور ہنر کے بغیر ایسے چلتے پھرتے بم ہیں جو ایک دن اس معاشرے میں جرائم اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی صورت میں پھٹیں گے۔ بغیر تعلیم اور ہنر کے بڑے ہونے والے یہ بچے معاشرے میں جرائم کر کے ہی زندہ رہیں گے یا دہشت گردوں کو جوائن کریں گے۔ حکومت نے کل کلاں جو پیسہ لاء اینڈ آرڈر پر لگانا ہے‘ بہتر ہے کہ وہ ابھی سے سکولوں سے باہر ان بچوں کو پڑھانے اور ہنر سکھانے پر لگائے تاکہ کل کو وہ حکومت پر بوجھ بننے کے بجائے مفید شہری بن کر اپنا کردار ادا کریں۔ میاں عامر محمود صاحب نے یہ بات انتہائی آسان الفاظ میں سمجھائی ہے لیکن یہ باتیں متعلقہ حکام پر کتنا اثر کر رہی ہیں؟ کیا حکمرانوں کو سمجھ آ رہی ہے کہ ہم کیسے اپنے سب وسائل چند شہروں پر لگا کر باقی ملک کو پسماندہ رکھ کر دراصل ان شہروں کی ترقی اور خوشحالی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ یہ کام برسوں سے جاری ہے۔
2013ء میں میاں نواز شریف نے راجن پور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ترقی دیکھنی ہے تو لاہور آکر دیکھو۔ ہمارے حکمرانوں کی سوچ کا اندازہ لگائیں کہ راجن پور کے لوگوں کی حالت بہتر بنانے کے بجائے انہیں لاہور کی ترقی کی مثالیں دے کر متاثر کرنا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرائیکی علاقوں سے لوگوں نے لاہور کی طرف کوچ کیا۔ پنجاب کے باقی علاقوں سے بھی لوگوں نے لاہور کا رخ کیا کہ وہاں سکول‘ بس‘ ہسپتال‘ پانی اور دیگر سہولیات موجود ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب لاہور آبادی‘ آلودگی اور سموگ کے بوجھ کے نیچے دب گیا ہے۔ یہی حال اسلام آباد کا ہوا ہے۔ یہاں آپ کو ہر طرف سرائیکی علاقوں سے آئے مزدر ملتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے علاقوں میں وہ مواقع نہیں ملے جو انہیں اسلام آباد میں ملے ہیں۔ ایک بات تو اچھی ہے کہ ہمارے سرائیکیوں نے بھی گھروں سے نکل کر دوسرے شہروں یا ملکوں میں جانا شروع کیا ہے ورنہ مونجھ اور پردیس کے ڈر سے سرائیکی لوگ اپنے گاؤں سے باہر نہیں جاتے تھے‘ یوں غربت اور پسماندگی بڑھتی گئی۔ مونجھ اور پردیس ہم سرائیکیوں کیلئے وِلن کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔
دوسرے لوگ جو آپ کو ان بڑے شہروں میں ملیں گے‘ وہ ہمارے خیبرپختونخوا کے پشتون ہیں۔ اگر دیگر قوموں کو برا نہ لگے تو مجھے کہنے دیں کہ اس ملک میں سب سے محنتی قوم پشتون؍ پٹھان ہیں۔ ان کے نزدیک کوئی کام چھوٹا بڑا نہیں ہے۔ وہ ہر کام کو انتہائی محنت‘ ایمانداری اور پورے دھیان سے کرتے ہیں۔ اسلام آباد بھی اب پشتونوں سے بھر گیا ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہ سب لوگ کام کرتے ہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن جو زیادہ تکلیف دہ بات ہے وہ پشتون بچوں کی چائلڈ لیبر ہے۔ یہ بچے اسلام آباد میں چھوٹے چھوٹے کام کر کے گھر والوں کے لیے روزی روٹی کماتے ہیں۔ یہ بچے گاڑیاں صاف کرنے سے لے کر جوتے پالش کرنے تک سب کام کرتے ہیں‘ لیکن یہ بچے سکول نہیں جاتے۔ اگر کوئی بچہ خیبرپختونخوا میں اپنے گاؤں میں کبھی سکول گیا تھا تو تین چار جماعتیں پڑھ کر سکول چھوڑ کر کام پر لگ گیا۔ پشتونوں کی ایک اور خوبی ہے کہ جہاں ایک پشتون کام پر لگے گا وہ کوشش کرے گا کہ پورے گاؤں کو وہیں کام دلوا دے۔ اس میں کوئی ہرج نہیں۔ لیکن پھر اس گاؤں کے لوگوں نے اپنے بچوں کو سکول سے نکال کر بڑے شہروں میں اپنے عزیز کے پاس بھیج دیا کہ جاؤ‘ پیسے کما کر گھر بھیجو۔ اب اسلام آباد میں آپ کو تقریباً ہر جگہ چھوٹے چھوٹے پختون بچے گاڑیاں اور جوتے صاف کرتے ملتے ہیں۔ ان بچوں کو یہ کام کرتے دیکھ کر دلی تکلیف ہوتی ہے۔ اگر ہم ان سے گاڑی یا جوتے صاف نہیں کراتے تو بھی تکلیف ہوتی ہے کہ بچہ گھر پیسے کیسے بھیجے گا یا شام کو کیا کھائے پیے گا؟ اگر آپ ان سے کام کراتے ہیں تو بھی احساسِ جرم ہوتا ہے کہ اپنے بچوں جیسے پختون بچوں سے چائلڈ لیبر کرا رہے ہیں۔
یہ تشویش ذہن میں رکھ کر میں نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی سے جمعہ کے روز اینکرز سے ہونے والی ملاقات میں کہا کہ آپ کی پارٹی تیرہ سال سے صوبے میں حکومت کررہی ہے اور پختون بچے یہاں اسلام آباد میں سکولوں سے باہر گاڑیاں اور جوتے پالش کررہے ہیں‘ سب سے زیادہ مزدور آپ کے صوبے سے ہیں۔ میں تو سوچ رہا تھا کہ میں اپنے بچے کو نوکری ڈھونڈنے خیبرپختونخوا بھیجوں گا کہ تیرہ سال کے بعد تو اس صوبے میں خوشحالی اور نوکریوں کی بھرمار ہو گی۔ باقی چھوڑیں‘ ان چھوٹے پختون بچوں کا کیا مستقبل ہے جو سکول کے بجائے صبح سویرے گاڑیاں اور جوتے پالش کرنا شروع کرتے ہیں اور رات گئے کرتے ہیں۔ ان سب کو سکولوں میں ہونا چاہیے۔ اس پر وزیراعلیٰ نے جواب دیا کہ شکر کریں وہ اسلام آباد میں ہیں ورنہ ہمارے صوبے میں ڈرون حملوں میں مارے جاتے۔ جہاں تک ان کی تعلیم کی بات ہے تو آپ وفاق سے خیبرپختونخوا کے 2200ارب روپے لینے میں میری مدد کریں‘ پھر میں اپنے صوبے میں سکول بناؤں گا۔ میں نے بھی ہمت نہیں ہاری اور کہا کہ آپ اسلام آباد میں اس بڑے خیبرپختونخوا ہاؤس میں پختون بچوں کیلئے چند کمروں کو عارضی سکول کا درجہ دے دیں۔ یہاں پختون بچوں کو رجسٹرڈ کریں جو روزانہ دو تین گھنٹے پڑھیں اور ساتھ ہنر بھی سیکھیں تاکہ وہ اَن پڑھ نہ رہیں۔ وزیراعلیٰ کے پی نے شاید میری اس تجویز کو مذاق سمجھا یا ناقابلِ عمل اور بات کسی اور طرف نکل گئی۔
میرے ذہن سے میاں عامر محمود صاحب کی یہ وارننگ نہیں نکل رہی کہ یہ ڈھائی کروڑ اَن پڑھ بچے بقیہ 22‘ 23کروڑ لوگوں کی خوشحالی کیلئے خطرہ ہیں۔ جیسے کبھی صحرائے گوبی اور وسطی ایشیا؍ افغانستان کے پہاڑوں سے اٹھنے والی اَن پڑھ اور پسماندہ قومیں پوری مہذب دنیا کیلئے خطرہ بن گئی تھیں اور پوری دنیا کو ان منگولوں نے جلا کر رکھ دیا تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved