تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     23-11-2025

افغانستان کے محدود تجارتی آپشنز

افغانستان کی معیشت میں زرعی برآمدات بالخصوص پھلوں اور خشک میوہ جات کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ ان برآمدات کا بڑا حصہ پاکستان آتا ہے‘ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جغرافیائی قربت کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ تجارت نہ صرف آسان اور کم خرچ ہے بلکہ افغانستان کے پاس سمندر تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی بندرگاہیں اسے دیگر بین الاقوامی منڈیوں سے بھی جوڑتی ہیں۔ یوں پاکستان افغانستان کیلئے بڑی منڈی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی تجارت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے‘ جو اسے عالمی سطح پر اپنی مصنوعات پہنچانے کا واحد راستہ فراہم کرتا ہے۔ افغان تاجر تجارت کیلئے برسوں سے طورخم اور چمن کے بارڈر استعمال کر رہے ہیں جہاں انہیں علاقوں کی واقفیت ہے اور لوگوں کے ساتھ گفتگو میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو تجارت کیلئے یہی دو عوامل بنیادی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان کی 25کروڑ کی آبادی افغانستان کے پھلوں اور خشک میوہ جات کیلئے بڑی اور مستحکم منڈی ہے‘ جہاں افغانستان کے پھلوں جیسے انگور‘ انار‘ خوبانی‘ سیب‘ چیری‘ مختلف اقسام کے خربوزے اور خشک میوہ جات جیسے بادام‘ پستہ‘ اخروٹ‘ کشمش‘ انجیر اور چلغوزے کی بڑی مانگ ہے۔ افغان تاجروں کیلئے پاکستان کی منڈی پر توجہ مرکوز رکھنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں انہیں مقامی کرنسی میں تجارت کا موقع ملتا ہے‘ جس سے مالی لین دین میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ یہ پھل اور خشک میوہ جات افغانستان کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ نہ صرف افغانستان کیلئے قیمتی زرمبادلہ کمانے کا سب سے اہم قانونی ذریعہ ہیں بلکہ دیہی آبادی کی اکثریت کی آمدنی کا انحصار بھی انہی پر ہے۔ اس لیے افغانستان کی پاکستان کے ساتھ تجارت ملکی استحکام اور عوام کی خوشحالی کیلئے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی نے دوطرفہ تعلقات کو غیرمعمولی حد تک متاثر کیا ہے۔ ماضی میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان حالات کشیدہ ہوتے رہے ہیں مگر موجودہ صورتحال میں تجارتی سرگرمیوں کا معطل ہونا اور افغان ڈپٹی وزیراعظم کا افغان تاجروں کو پاکستان کے علاوہ دیگر تجارتی آپشنز تلاش کرنے پر زور دینا تعلقات میں گہری دراڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ پیشرفت محض ایک وقتی بحران نہیں بلکہ اس کے پس پردہ جیو پولیٹکل عوامل اور علاقائی تعلقات کی پیچیدگیاں نظر آتی ہیں۔ افغانستان کی قیادت ایران‘ ازبکستان اور خاص طور پر بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بلاشبہ ہر ملک کو اپنے بہتر مستقبل کیلئے مرضی کے فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے لیکن افغانستان کے موجودہ اقدامات میں بھارت کے ایما پر پاکستان سے دوری اختیار کرنے کی جھلک واضح دکھائی دیتی ہے۔ ان حالات میں طالبان کے وزیر تجارت نورالدین عزیزی کا بھارت جانا اور بھارت کی جانب سے افغانستان کو دی جانے والی طفل تسلیاں ایک عارضی حل سے زیادہ کچھ نہیں۔ جہاں تک افغانستان کی ایران کے ساتھ تجارت کا تعلق ہے تو یہ تجارت محدود رہنے کا امکان ہے کیونکہ ایران پر عالمی پابندیاں عائد ہیں اور افغانستان کو تاحال بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ مزید برآں ایران اور افغانستان دونوں ملک بھاری مقدار میں پھل اور خشک میوہ جات پیدا کرتے ہیں‘ ایسے میں تجارتی توازن قائم رکھنا مشکل ہو گا۔ کوئی بھی ملک ایسی مصنوعات کیوں درآمد کرے گا جو اُس کے اپنے پاس وافر مقدار میں موجود ہوں؟ افغانستان کیلئے پاکستان سب سے بہتر اور فطری تجارتی آپشن ہے۔ جغرافیائی قربت‘ تاریخی تعلقات اور سستی نقل و حمل کے ذرائع پاکستان کو افغانستان کیلئے ایک لازمی ساتھی بناتے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ دیگر آپشنز افغانستان کیلئے طویل مدتی مشکلات پیدا کریں گے۔ بھارت کے ساتھ تجارت بحری راستے کی طوالت اور لاجسٹک چیلنجز کے باعث کبھی بھی اس پیمانے پر پنپ نہیں سکے گی جو پاکستان کے ساتھ ممکن ہے۔ بالآخر افغانستان کو پاکستان کی طرف ہی رجوع کرنا پڑے گا‘ تو پھر بھارت کی طرف یہ ''یاترا‘‘ کیوں؟
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی خرابی کی بنیادی وجہ کالعدم ٹی ٹی پی ہے۔ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہی ہے‘ اب عالمی برادری بھی پاکستان کے اس مؤقف کی تائید کر رہی ہے اور افغان طالبان کو ان سرگرمیوں کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔ حیرت انگیز طور پر افغان طالبان اس کھلی حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں اور شدت پسند گروہوں کو تحفظ فراہم کر کے اپنے خیرخواہ پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات کو دانستہ طور پر کشیدہ رکھنے کی ٹھان چکے ہیں۔ کیا یہ خسارے کا سودا نہیں کہ افغان قیادت چند دہشت گردوں کو بچانے کی خاطر اپنے ملکی مفادات کو داؤ پر لگا رہی ہے؟ ہماری اطلاعات کے مطابق افغان طالبان اندرونی سطح پر شدید اختلافات کا شکار ہیں‘ شوریٰ سطح کی میٹنگز اور نجی محفلوں میں ان اختلافات کا اظہار ہونے لگا ہے۔ ذیل کی سطور سے افغان طالبان کے اندرونی اختلافات کو کسی قدر سمجھا جا سکتا ہے۔
جب پچھلے ماہ افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے شدت پسندوں نے پاکستان پر حملے کیے تو جواباً پاکستان نے توقع کے برعکس شدید ردِعمل دیا۔ پاکستان کا جوابی حملہ اس قدر شدید تھا کہ افغان طالبان کی ایک بڑی بیٹھک میں اہم رہنماؤں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ افغانستان پاکستان کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو ایسا راستہ کیوں اختیار کیا جائے جس کی بنیاد پر پاکستان کو افغانستان میں کارروائی کا جوازملے؟ اس بیٹھک میں ملا یعقوب بھی تھے جو طالبان کے سابق امیر ملا عمر کے صاحبزادے اور افغانستان کے موجودہ وزیر دفاع ہیں‘ وہ پاکستان سے متعلق اپنے سخت مؤقف کی وجہ سے جانے جاتے ہیں‘ انہیں قندھاری گروپ میں ملا عمر کا صاحبزادہ ہونے اور ان کی میراث کا امین ہونے کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ملا یعقوب اور قندھاری گروپ میں موجود کچھ لوگ کالعدم ٹی ٹی پی کا دفاع کرتے پائے جاتے ہیں۔ ان کے پاس ایک ہی دلیل ہے کہ جس طرح ملا عمر نے ساری دنیا کی مخالفت قبول کر لی تھی مگر اپنے مہمان اسامہ بن لادن کو عالمی قوتوں کے حوالے نہیں کیا تھا‘ اسی طرح وہ بھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان لوگوں کا ہر ممکن دفاع کریں گے جو ماضی میں امریکہ کے خلاف جنگ میں ان کے شانہ بشانہ لڑتے رہے ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ افغان طالبان میں ٹی ٹی پی کے معاملے پر واضح تفریق اور سوچ میں اختلاف موجود ہے۔ پاک افغان حالیہ کشیدگی کو طالبان کی اس سوچ اور رائے سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ افغانستان میں عوامی سطح پر اب یہ ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ اقتدار اور عوام کے مستقبل کا فیصلہ منتخب نمائندوں کے سپرد ہونا چاہیے جو عوام کے حقیقی نمائندے ہوں‘ انکے حقوق کے پاسدار ہوں جو پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کیساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے خواہش مند ہوں کیونکہ افغان طالبان کے موجودہ تمام دھڑوں میں ایسی سوچ کا فقدان ہے۔ عالمی برادری بھی اسی لیے افغان طالبان سے متنفر ہو رہی ہے کیونکہ چار برس گزرنے کے باوجود افغان طالبان کی طرف سے دوحہ مذاکرات میں کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے ۔ افغان اقتدار پر ابھی تک سخت گیر قندھاری گروپ حاوی ہے اور فیصلوں کا اختیار بھی اسی کے پاس ہے‘ مگر افغانستان میں رجیم چینج کی باتیں ہونے لگی ہیں اور کچھ آوازیں اختلاف کرنے لگی ہیں۔ اگرچہ یہ آوازیں فی الوقت کم ہیں لیکن وقت کیساتھ ساتھ ان آوازوں میں اضافہ ہو گا کیونکہ اگر افغانستان نے دنیا کیساتھ چلنا ہے تو پھر افغان طالبان کو شدت پسندوں سے راستے جدا کرکے جدید سفارت کاری کے اطوار سیکھنے ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved