براعظم افریقہ دنیا کا ایک وسیع و عریض اور قیمتی معدنی وسائل سے مالا مال ایسا مظلوم و ستم رسیدہ خطہ ہے کہ جہاں فرانس‘ برطانیہ سمیت دیگریورپی سامراجی ممالک مثلاً بلجیم‘ نیدرلینڈز‘ اٹلی اور سپین وغیرہ نے اپنی عسکری قوت کے بل پر حملہ کرکے اپنے استبدادی پنجوں کو جمایا اور مقامی سیاہ فام آبادی پر وہ مظالم ڈھائے جن کی مثال نہیں ملتی۔ اس وقت بھی تمام بڑی طاقتوں کا یہاں کے وسائل پرقبضے کیلئے باہمی تصادم‘ قبائلی‘ علاقائی اور مذہبی اختلافات کو اچھالنے میں اہم کردار ہے۔ غیر ملکی طاقتوں کے اقتدار سے کافی حد تک نجات حاصل کرنے کے بعد بھی افریقی ممالک کو مکمل طورپر سامراجی طاقتوں سے چھٹکارا نہیں مل سکااور تاحال مختلف حیلوں بہانوں سے انہوں نے افریقی ممالک کو اپنے پنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔ اہم افریقی ملک سوڈان کو عالمی استعمار نے اپنی سازشوں کی آماجگاہ بنارکھا ہے۔ اس سر زمین پرہوسِ اقتدار اور قیمتی معدنیات کے ذخائر کیلئے مغربی دارفور کے شہر الفاشر میں ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے حالیہ قبضے کے دوران بربریت و سفاکیت نے لرز ادیا ہے۔ راقم الحروف کا قلم وہ قیامت جو بے گناہ شہریوں پر ڈھائی گئی ‘ کو بیان کرنے سے قاصر ہے ۔ افسوس تو دنیا اور بالخصوص عالم اسلام کی بے حسی پر ہے ۔ 18ماہ کے محاصرے کے بعد ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) نے الفاشر میں قبضے کے بعد یہاں قتل و غارت کی انتہا کر دی۔ صرف تین دنوں میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیاگیا یہاں تک کہ سیٹیلائٹ کی تصویروں میں شہر میں خون بہتا ہوا دکھائی دیا۔ اجتماعی پھانسیاں دی گئیں‘لاکھوں لوگ دوسرے علاقوں میں بھاگ گئے ہیں۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق RSF نے خوراک اور ادویات کو عام شہریوں تک پہنچنے کی اجازت نہیں دی‘ جو بالآخر بھوک کے ناقابلِ برداشت ہونے کے باعث جانوروں کی خوراک کھانے پر مجبور ہوئے۔ نظامِ صحت تباہ ہو چکا ہے ‘ہسپتال ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں‘ تقریبا ایک کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں سوڈان کے سفیر الحارث ادریس الحارث محمد نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں جذباتی مگر مدلل انداز میں کہا ''الفاشر میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ محض خانہ جنگی نہیں بلکہ ایک منظم نسل کُشی (Genocide) ہے۔ خواتین کی عصمتیں پامال کی جا رہی ہیں‘ بچّے بے دردی سے قتل کیے جا رہے ہیں اور بستیاں مٹی میں ملا ئی جا رہی ہیں۔ یہ 2023ء سے جاری نسلی تطہیر ( Ethnic cleansing) کے ایک منظم تسلسل کی شکل اختیار کر چکی ہے‘‘ ۔
الفاشر اب ایک شہر نہیں‘ ایک اجتماعی قبرستان بن چکا ہے۔ پورے ملک میں قحط‘ بڑے پیمانے پر ہجرت اور وسیع پیمانے پر تشدد کا سامنا ہے۔یہ جنگ جنرل عبدالفتاح البرہان کی زیر قیادت سوڈان مسلح افواج(SAF)اور محمد حمدان دگلو المعروف ہمدتی کی زیر قیادت ریپڈ سپورٹ فورس (RSF)کے درمیان ہو رہی ہے۔ سوڈان کے موجودہ بحران میں اسرائیل کی دلچسپی محض وقتی سیاسی روابط یا عسکری تعلقات کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے پس منظر میں گہرے تزویراتی مقاصد اور جغرافیائی حکمتِ عملی کارفرما ہے۔ ماہرین کے مطابق اسرائیل کی نظریں سوڈان پر اس لیے بھی مرکوز ہیں کہ یہ ملک بحیرہ احمر کے ساحل پر ایک نہایت اہم محلِ وقوع کا حامل ملک ہے‘ جو نہ صرف افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہے بلکہ بین الاقوامی بحری تجارت‘ توانائی کی ترسیل اور عالمی طاقتوں کی رسہ کشی میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ بحیرہ احمرجو خلیجِ عدن سے لے کر سویز کینال تک پھیلا ہوا ہے‘ آج عالمی سیاست کا نیا تزویراتی محور بنتا جا رہا ہے۔ اس خطے میں اسرائیل کی موجودگی اسے ایران کے سمندری اثرات پر نظر رکھنے‘ چینی سرمایہ کاری کی پیش رفت کو محدود کرنے اور بحری راستوں پر انٹیلی جنس کنٹرول حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ خطہ شمالی افریقہ‘ خلیج اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ایک قدرتی پل کی حیثیت رکھتا ہے جس کے ذریعے اسرائیل اپنے علاقائی اور عالمی مفادات کو بیک وقت محفوظ کر سکتا ہے۔سوڈان کی زیادہ تر آبادی راسخ العقیدہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ سوڈان کا شمار رقبے کے لحاظ سے عالم اسلام کے ایک بڑے ملک میں ہوتا تھا۔ 2005 ء میں جنوبی سوڈان کو خودمختاری دی گئی اور بالآخر 2011ء میں اس کو علیحدہ کردیا گیا۔ جنوبی سوڈان ‘ امریکہ‘ فرانس اور برطانیہ کی سرپرستی اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ایک نام نہاد ریفرنڈم کے نتیجے میں سوڈان سے علیحدہ ہوکر اب ایک الگ اور خودمختار ملک بن چکا ہے۔ سوڈان میں 1983ء میں شرعی قوانین متعارف کرائے گئے تاہم ان قوانین کے نفاذ کے بعد شمالی سوڈان اور جنوبی سوڈان (جہاں مسیحیوں کی اکثریت ہے) کے درمیان خانہ جنگی چھڑ گئی اور یہ 22سال تک جاری رہی تھی۔ اس دوران تقریباً 20لاکھ افراد مارے گئے ۔ یہ لڑائی جنوبی سوڈان کی علیحدگی اور ایک الگ ملک کے قیام پر منتج ہوئی۔ وسیع و عریض رقبے‘ پڑوسی ممالک کی قربت ‘ ہارن آف افریقہ‘ بحر ہند‘ صحرائے صحارا کے علاوہ افریقہ اور عرب دنیا کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے سوڈان اہم جغرافیائی پوزیشن کا حامل ہے۔ اس کے ساحل دنیا کے خوبصورت ترین ساحلوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایتھوپیا اور یوگنڈا کے ساتھ دریائے نیل میں گھرا سوڈان‘ جنوب میں نیلے اور سفید دریائے نیل‘ جنوب ہی میں جنگلاتی وسائل کے بڑے حصے‘ تیل کے ذخائر ‘ قیمتی معدنیات خصوصاً سونا‘ کرومیم‘ سالٹ اور جپسم سمیت کئی دیگر معدنیات کے سبب مشہور ہے اور یہ عوامل اس کی وقعت کو دنیا میں نمایاں مقام دلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
الفاشرکے زوال میں جنگ کا نقشہ ازسر نو ترتیب دیا گیا ہے جس نے طاقت کا توازن بدل دیا ہے۔ دارفور کا سونے اور معدنیات سے مالا مال علاقہ اب تقریباً مکمل طور پر RSF کے کنٹرول میں ہے جو دارفور کو اپنے قدرتی قبائلی اڈے کے طور پر دیکھتا ہے۔ موجودہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے دونوں فریق سونے کی کانوں اور سمگلنگ کے راستوں پر لڑ رہے ہیں‘ جن پر وہ اپنی فوجی کارروائیوں کیلئے فنڈز کا انحصار کرتے ہیں۔ دارفور کی وسیع معدنی دولت پر مسابقت صدیوں پرانی ہے‘ اور آج دارفور میں سونا اور دیگر معدنیات سیاسی اور اقتصادی جنگ کا چارہ بن چکے ہیں جو انسانی بحران کو گہرا کر رہی ہے۔ عالمی استعمار نے تنازع کو مزید بڑھا دیا ہے‘ عالمی طاقتوں نے دارفور میں ایک آزاد ریاست کے قیام کے ذریعے سوڈان کی مزید تقسیم پر زور دیا ہے۔ سوڈان میں ہر گزرتے دن کیساتھ صورتحال خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ تشدد کے سبب مزید لاکھوں افراد کے غریب اور بے سہار اہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ معصوم بچے خاص طور پر اس جنگ کا نشانہ بن رہے ہیں۔ امدادی کاموں کیلئے سرگرم کارکنان کو بھی حملوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یہ ایک ایسا انسانی بحران ہے جس سے پورے خطے کو عدم استحکام کا خطرہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ قتل وغارت کا بازار کہاں جاکر ٹھہرتا ہے۔ یہ حقیقت بھی نہیں جھٹلائی جا سکتی کہ بین الاقوامی قوتوں کی سوڈان کی توانائی‘ دفاع‘ جنگلات‘ کان کنی‘ معدنیات اور زراعت جیسے شعبوں میں دلچسپی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ افریقہ اور مغربی ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے مغرب اور امریکہ کو بے چین کر رکھا ہے۔ چین نے افریقہ کے ہر ملک میں کان کنی‘ مواصلات‘ ادویات‘ پینے کے پانی اور زراعت جیسے مسائل کو حل کرنے کے مختلف منصوبے تشکیل دے رکھے ہیں۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ سوڈان جیسا بڑا مسلم ملک اسرائیل کی آنکھوں میں بھی کھٹکتا رہا ہے۔ اسرائیل کا سٹریٹجک ہدف یہ ہے کہ سوڈان کا اثر و رسوخ خلیج عدن تک ہی ہو۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے مسلم ملکوں کو آگے قدم بڑھانا ہوگاورنہ اس کا براہِ راست نقصان مسلم امہ ہی کو بھگتنا پڑے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved