تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     24-11-2025

بے معنی گفتگو

ہماری آبادی جس رفتار سے بے لگام بڑھ رہی ہے وہ آنے والے سالوں کے لیے اتنا بڑا خطرہ ہے کہ بڑے سے بڑا ہتھیار بھی شاید وہ تباہی نہ لا ئے جو آبادی کا ایٹم بم لا سکتا ہے۔ ہماری آبادی نئی کچی آبادیوں‘ شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ اور قدرتی وسائل پر ہر جگہ دباؤ کی صورت نظر آ رہی ہے۔ زمین اتنی ہی ہے‘ دریا بھی وہی تین جو ہمارے حصے میں آئے‘ نہریں بھی زیادہ تر انگریزی راج کے زمانے کی‘ لیکن آبادی اس سرزمین میں ساڑھے تین کروڑ سے 24 کروڑ ہو چکی ہے۔ اگر آپ دوبارہ سے آج گنتی شروع کریں تو ایک کروڑ انسانوں کا مزید اضافہ ہو چکا ہو گا۔ کسی نے سوچا ہے کبھی اس بنیادی مسئلے کے بارے میں؟ یا ہماری حکمران اشرافیہ اور ان کے سرپرستوں کا دھیان اس طرف گیا ہے کہ ان کی خوراک‘ پانی اور زندگی کو قائم رکھنے کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے؟
اس ملک میں ایک دو آزادیوں کی حفاظت آئین اور کسی اخلاقی ضابطۂ حیات سے بھی زیادہ کی جا رہی ہے۔ ایک‘ آپ جتنے چاہیں بچے پیدا کریں۔ دوسری یہ کہ جہاں کہیں سرکاری زمین کا ٹکڑا دکھائی دیا راتوں رات اس پر قبضہ کر کے اس پر مذہبی رنگ و روغن کر کے عیش و آرام کی زندگی گزارنا شروع کر دی۔ یہ دونوں آزادیاں ایک دوسرے کا سہارا بنی ہوئی ہیں اور اس کے نتیجے کے طور پر سماج کی جو صورتحال اب بن چکی ہے اس سے ہم پناہ مانگتے ہیں۔ اس سے ہر جگہ گھٹن ایسی ہے کہ دل کرتا ہے کہ مستقل طور پر کسی جنگل میں جا کر سکونت اختیار کی جائے اور جاپانی لوگوں کی طرح ہمیشہ کے لیے کھو جائیں۔ نہ کوئی ہمیں تلاش کرے‘ نہ ہم اپنا اَتا پتا کسی کو بتائیں۔
باقی شہروں کی کیا بات کروں‘ اپنے شہر اسلام آباد کی تاریخ‘ جغرافیہ اور اس کی سادگی تو میری زندگی کے نصف صدی سے کچھ زیادہ سے ہے۔ یہ شہر میں نے اُس وقت دیکھا تھا جب یہ اتاترک ایونیو سے شروع ہو کر زیرو پوائنٹ پر ختم ہو جاتا تھا۔ اس مرکزی شہر کو تو ہماری سیاسی اشرافیہ بخش دیتی کہ شہر قوم کی شناخت ہوتے ہیں۔ قلم کی چند لکیروں سے وہ سب علاقے جو زرعی تھے اور جہاں کم از کم قانونی طور پر قبضے اور سوسائٹیاں تعمیر نہیں ہو سکتی تھیں‘ دیکھتے ہی دیکھتے اینٹ‘ ریت اور سیمنٹ کے برجوں میں تبدیل ہو گئے۔ اپنا جنگل‘ جسے یقین مانیے اس خیال سے شہر کے اس حصے سے جہاں اب مستقل رہائش ہے‘ تقریباً 40 کلومیٹر دور بسایا تھا کہ ہم دیہاتی فطرت پسندوں کو شہروں کی گہما گہمی سے خوف آتا ہے۔ اب اس کی دیوار تک آبادی پھیل چکی ہے۔ جو حالات دکھائی دیتے ہیں ڈر ہے کہ یہ ہمیں شاید نگل نہ جائیں۔ اگر آپ لاہور‘ ملتان یا پنجاب کے کسی اور شہر میں رہتے ہیں تو آپ تو دیکھتے ہوں گے آموں اور دوسرے پھلوں کے باغات‘ وہ سرسبز فصلیں جنہیں اس موسم میں دیکھنے کے لیے جی چاہتا تھا کہ کہیں جھونپڑی ڈال کر وہیں رہ جائیں‘ آبادی کی نذر ہو چکی ہیں۔
باقی شہروں میں شاید حالات اس سے بھی بدتر ہوں گے مگر اسلام آباد کے مراکز کے کسی بازار میں جائیں‘ گندگی‘ بدبو‘ تجاوزات اور ہر قسم کی گاڑیوں‘ موٹر سائیکلوں اور اب چھکڑا سائیکلوں کا رش دیکھیں گے۔ ایک دوست کو اگلے دن ڈرتے ڈرتے مگر یہ ضروری تھا‘ فیض آباد اتارنا پڑا۔ ٹریفک کا ایسا حال تھا کہ جس طرح فش ایکویریم میں مچھلیاں تیر رہی ہوتی ہیں‘ صرف فرق یہ تھا کہ مچھلیاں بھی فطری طور پر ایک دوسرے کو راستہ دیتی ہیں مگر ہمارے تمام شہروں کی ٹریفک میں‘ جن میں اس درویش نے ملتان کو بدترین پایا ہے‘ ہمارے شہری ایک دوسرے کو کاٹنے‘ راستہ روکنے‘ آگے نکلنے میں اس قدر منہمک ہوتے ہیں جیسے وہ گھوڑوں پر سوار پولو کھیل رہے ہوں۔ دنیا میں کئی تجربے آبادی کے لحاظ سے جانوروں پہ کیے گئے کہ انسانوں کی نفسیات کو سمجھا جائے جب وہ ایک محدود سی جگہ پر اپنی آبادیاں بڑھا لیں۔ دو ہوئے تو آپس میں پیار‘ ایک دوسرے کا خیال۔ بچے دو ہوئے تو ان کی نگہداشت اور محدود خوراک کے باوجود ایثار۔ جب کئی گنا ہو گئے تو دنگا فساد‘ خود غرضی‘ نفسا نفسی‘ قتل وغارت۔ اکثر ہم بداخلاقی‘ بدتہذیبی‘ کرپشن‘ خوراک میں ملاوٹ اور آئے دن بھائیوں‘ بہنوں اور رشتہ داروں میں گھر‘ جائیداد اور زمینوں کی ملکیت اور تقسیم پر مقدمات اور قتل وغارت کی کہانیاں پڑھتے رہتے ہیں۔ چوریاں‘ ڈاکے اور اغوا برائے تاوان جیسے جرائم ہوں یا کسی بازار میں چلتے آپ کو اپنا فون اور بٹوا محفوظ رکھنے کی پڑی ہو‘ یہ سب وہ مسائل ہیں جو آبادی کے بڑھنے سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس کا ایک اور خوفناک نتیجہ یہ ہے کہ دیہات سے جب بے زمین لوگ اپنی اولادیں بڑھاتے ہیں تو روزگار کے لیے وہ دیہات ان کے لیے تنگ ہو جاتے ہیں۔ بھوک اور غربت کے مارے یہ لوگ روزگار اور زندگی کو قائم رکھنے کے وسائل کی تلاش میں شہری آبادیوں کا رخ کرتے ہیں۔ اب کون سا شہر ہے جو ان کی آبادیوں سے خالی ہے؟ جس غیر انسانی ماحول میں وہ رہتے ہیں اگر دیکھنا ہو تو اسلام آباد کے ہی کسی گندے نالوں کے ارد گرد اور پوش علاقوں کے عین درمیان جا کر دیکھ لیں۔ کبوتروں اور خرگوشوں کی طرح انسانی آبادیاں اب صرف ہمارے وطنِ عزیز میں بڑھ رہی ہیں۔
وہی دو آزادیاں جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے اس کا بنیادی سبب ہیں۔ ہماری سیاسی اشرافیہ‘ نوکر شاہی‘ صنعت کاروں اور دیگر طاقتور طبقات کو بڑھتی ہوئی آبادیوں کی کیوں فکر ہو؟ ان کے وہ محلات‘ وہ بڑے بڑے ہزاروں ایکڑ کے فارم‘ وہ اربوں ڈالرز کے بے نام کھاتے اور وہ سمندر پار کمپنیاں‘ جن میں یاد ہے کن کن بڑوں کے نام آئے تھے اور کون سا مشہور خاندان فہرست میں شامل نہیں تھا۔ ایسے میں انہیں پاکستان سے کیا دلچسپی؟ رہی خوراک کی کمی تو ایک نوٹ ہی لکھا جائے گا: گندم‘ چینی‘ گھی‘ دالیں درآمد کراؤ‘ اور ان سودوں میں بھی اپنا مناسب حصہ رکھو اور باہر محفوظ ٹھکانوں میں جمع کرا دو۔ نو آبادیاتی نظام ہو یا کوئی ایسا جو لوگوں کی منشا کی نمائندگی نہ کرتا ہو‘ وہاں صرف من مانی ہوتی ہے اور اس کا محور حکمران طبقے کے ذاتی مفادات ہوتے ہیں۔ مزید ہم کیا کہیں اور کیا لکھیں۔ لوگوں کو جب آپ تعلیم نہ دیں‘ شعور اور آگاہی سے وہ نابلد ہوں‘ غربت اور جہالت کے ان کی زندگی پر گہرے سائے ہوں اور وہ دو بنیادی آزادیاں بھی ہوں تو وہی معیشت‘ اخلاقی رویے اور ماحولیات کی وہ تباہی ہو گی جو آپ دیکھ رہے ہیں۔
میرے سب سے پسندیدہ شہر لاہور میں سنا ہے آپ اب صاف ہوا کے لیے ترس رہے ہیں‘ پانی کی سطح نیچے چلی گئی ہے اور سڑکوں پر نکل کر کہیں جانا دل گردے کا کام ہے۔ دشمن کا بم تو نہیں چلے گا مگر ہماری آبادی کا بم تو پھٹ چکا ہے۔ ابھی تک اس کی آگ اور دھوئیں کے بادل گہرے ہیں۔ جب کبھی عقل کا مطلع کہیں صاف ہو گا تو پتا چلے گا کہ باقی اس ملک میں کیا رہ گیا ہے۔ آج کے بدلے ہوئے ماحول میں اس گفتگو کو بے معنی سمجھ کر درگزر کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved