گزشتہ روز قومی اسمبلی کے چھ اور پنجاب اسمبلی کے سات حلقوں میں ضمنی انتخابات کا مرحلہ بخیر وعافیت مکمل ہو گیا۔ البتہ الیکشن کمیشن میں ضابطہ اخلاق اور الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی کا معاملہ ہنوز زیر غور ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتخابی بدعنوانی روکنے کیلئے ضروری اقدامات کرنے کا آئینی اختیار حاصل ہے اور انتخابی عمل کے دوران ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر فوری کارروائی کی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے بعد آرٹیکل 245 کے تحت پاک فوج کو طلب کیا تھا۔آئین کے آرٹیکل 218(3) کو الیکشن ایکٹ 2017ء کے باب X کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو الیکشن کمیشن کو یہ قانونی جواز بھی حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ انتخابی عمل کے دوران انتخابی بدعنوانی میں ملوث شخص کو نااہل قرار دیدے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر بلا امتیاز و بلاتخصیص ہر امیدوار اور عہدیدار کے خلاف کارروائی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر وزیر مملکت طلال چودھری کو بھی ضابطہ اخلاق کی صریح خلاف ورزی پر نوٹس جاری کیا گیا اور آج (24 نومبر) کو انہیں الیکشن کمیشن نے طلب کر رکھا ہے۔ اسی تسلسل میں حلقہ پی پی 116 فیصل آباد میں مبینہ خلاف ورزی پر وزیر اعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ کو ضلعی مانیٹرنگ آفیسر کی جانب سے 50 ہزار روپے کا جرمانہ کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کو شکایات موصول ہوئیں کہ رانا ثناء اللہ نے اپنے داماد رانا احمد شہریار کی انتخابی مہم میں حصہ لیا جو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اگر جرمانہ ادا نہ کیا گیا تو یہ معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جائے گا۔ ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر ڈیرہ غازی خان کی جانب سے وفاقی وزیر اویس لغاری اور معاونِ خصوصی حذیفہ رحمان کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے قومی اسمبلی کے حلقہ 18(ہری پور) کے ضمنی الیکشن سے متعلق عملے کو خوفناک نتائج کی دھمکیاں دی تھیں۔ ان دھمکی آمیز پیغامات کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے ان کو طلبی کا نوٹس بھجوایا۔ وزیراعلی سہیل آفریدی خود تو پیش نہیں ہوئے تاہم ان کی جانب سے وکیل علی بخاری الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو عدم حاضری پر استثنا دے دیا تاہم اس وقت بھی وزیراعلیٰ سہیل آفریدی دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ان کو معافی نامہ داخل کرانا ہوگا یا پھر نااہلی کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس سارے تناظر میں ماضی کے ایک واقعے کا حوالہ خاصا دلچسپ ہو گا۔ غالباً 2021-22ء کی بات ہے جب عمران خان وزیراعظم پاکستان تھے‘ اس وقت دو صوبائی وزرا نے خیبر پختونخوا کے ایک ضمنی انتخاب میں الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی تھی‘ جس پر نوٹس لیتے ہوئے الیکشن کمیشن نے ان دونوں وزرا کو نااہل قرار دیا تھا۔ بعد ازاں ان کی اپیل پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلہ دیا کہ الیکشن کمیشن کسی پارلیمانی ممبر کو نااہل قرار کرنے کا مُجاز نہیں‘ یہ اختیار صرف عدالت کو حاصل ہے۔ اسی طرح ممبر قومی اسمبلی فیصل واوڈا کی نااہلیت کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کالعدم قرار دیتے ہوئے یہی مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن کسی کو نااہل قرار دینے کا اختیار نہیں رکھتا لہٰذا فیصل واوڈا کو کلین چٹ مل گئی اور آج کل بھی وہ سندھ سے ایوانِ بالا کے ممبر ہیں۔ لیکن اب پارلیمنٹ نے 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مضبوط اور آئینی طور پر باوقار بنا دیا ہے اور عدالت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئین کے آرٹیکل 218(3) کے تحت مزید مضبوط بناتے ہوئے ارکان کی نااہلی کا اختیار بھی دے دیا ہے۔ ممکن ہے کہ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی اس کی زد میں آ جائیں۔
اگر سیاست کی بات کی جائے تو عمران خان نے بلوچستان کے ممتاز سیاستدان محمود خان اچکزئی کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کیلئے نامزد کر رکھا ہے حالانکہ ان کی پارلیمانی حیثیت برائے نام ہے کیونکہ قومی اسمبلی میں اپنی جماعت کی جانب سے وہ واحد ممبر ہیں۔ قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق ان کو اپوزیشن لیڈر بنانے پر شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ مقتدرہ کی بھی اچکزئی پر گہری نظر ہے۔ اگر دیکھا جائے تو محمود خان اچکزئی کی عوامی پوزیشن اب برائے نام رہ گئی ہے۔ جب جولائی 2017ء میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیا تھا تو محمود خان اچکزئی نواز شریف کے ساتھ کھڑے تھے اور ان کو یقین دہانی کرا رہے تھے کہ وہ نواز شریف کی خاطر بلوچستان میں ایک بڑی تحریک چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نواز شریف نے ان کے ایما پر کوئٹہ میں ایک جلسے میں بھی شرکت کی لیکن وہ کوئی بھی عوامی تحریک برپا کرنے میں ناکام رہے۔ بعد ازاں جب مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں متحدہ اپوزیشن کی تشکیل ہوئی تو محمود خان اچکزئی اس کا بھی حصہ تھے۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے بعد محمود خان اچکزئی نے اپنے راستے پی ڈی ایم سے جدا کر لیے اور اب یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اچکزئی صاحب عمران خان کی گارنٹی دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ نئے عمرانی معاہدے پر عمران خان سے منظوری حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ دراصل موجودہ تناظر میں اب کسی نئے عمرانی معاہدے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ آئینی ترامیم نے درپیش رکاوٹوں کو دور کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ ستائیسویں آئینی ترمیم کے بعد اب 28ویں ترمیم کی بازگشت سنائی دے رہی ہے‘ جس کے ذریعے ملک میں نئے صوبوں کی تشکیل کیلئے آئین کے آرٹیکل 239 میں ترمیم کرنے کا امکان ہے۔ مجوزہ منصوبے کے مطابق نئے صوبے بنانے کیلئے صوبائی اختیارات وفاق کو تفویض کر کے ملک میں ضرورت کے مطابق پہلے سے موجود صوبوں کو انتظامی بنیادوں پر تقسیم کرنے پر غور وفکر ہو رہا ہے۔ اس تناظر میں محسوس ہوتا ہے کہ محمود خان اچکزئی کی ''ضمانت‘‘ رائیگاں جائے گی جبکہ ان کا اپوزیشن لیڈر بننے کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔دوسری جانب حکومت مولانا فضل الرحمن کو اپوزیشن لیڈر مقرر کرنے پر غور و فکر کر رہی ہے اور قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق کو یہ اختیار حاصل ہے۔ دراصل محمود خان اچکزئی کی اب وہ پوزیشن نہیں رہی جو 1990ء کی دہائی میں ان کو حاصل تھی‘ جب ان کی ایک آواز پر بلوچستان میں آئے دن پہیہ جام ہڑتال ہوتی تھی۔ اب ان کا اثر کوئٹہ کے ایک آدھ بازار تک ہی رہ گیا ہے۔
ادھر اہم حلقوں میں یہ تجاویز زیر غور ہیں کہ مجوزہ 28ویں ترمیم ‘ جس کا مقصد اہم اصلاحات کے ذریعے پاکستان کو مضبوط معاشی ملک بنانا ہے‘ کے بعد2026ء کے آخر میں از سر نو الیکشن کرا دیے جائیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ آئندہ الیکشن میں ملک کی کئی اہم سیاسی شخصیات منظر سے یکسر غائب ہو جائیں گی۔ اقتدار کی راہداریوں میں خبریں گردش کر رہی ہیں کہ قومی اسمبلی میں 18ویں ترمیم کے حوالے سے جارحانہ رویہ اختیار کرنے پر بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کو پیغام پہنچا دیا گیا ہے کہ اگر 28ویں ترمیم کے دوران رختہ اندازی کی گئی تو اس کے مضمرات ان کے حق میں نہیں ہوں گے۔ دوسری جانب یہ اطلاعات بھی ہیں کہ صدر کو حالیہ ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت جو استثنا دیا گیا ہے‘ وہ آئینی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ نئی مجوزہ ترمیم میں اٹھارہویں ترمیم کے بنیادی ڈھانچے میں اہم تبدیلیاں کی جا رہی ہیں اور پیپلز پارٹی کے پاس اب ترپ کے پتے نہیں رہے۔ اگر وہ اتحادی حکومت سے علیحدہ ہوتی ہے تو حکومت پر کسی قسم کا اثر نہیں پڑے گا۔ پیپلز پارٹی نہ صرف صوبوں میں اپنے گورنرز سے محروم ہو جائے گی بلکہ پارٹی کے اندر سے کوئی پارلیمنٹرین گروپ بھی سامنے آ سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved