میٹرک کا امتحان عرفان بھائی نے امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا تھا۔ اگلا مرحلہ کالج میں داخلے کا تھا۔ ان کے ہم جماعت مختلف کالجوں میں داخلہ لے رہے تھے۔ عرفان بھائی پڑھائی میں اپنے ہم جماعتوں میں سب سے آگے تھے لیکن وسائل کی کمی نے ان کے پائوں میں زنجیر ڈال دی تھی۔ مالی وسا ئل نہ ہونے کی وجہ سے وہ کالج میں پڑھائی کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکتے تھے۔ اب میں سوچتا ہوں کہ بے زری کس طرح ذہانت اور صلاحیت کے سامنے دیوار بن جاتی ہے۔ ناصر کاظمی نے شاید اسی صورتحال کیلئے کہا تھا:
جنہیں زندگی کا شعور تھا انہیں بے زری نے بچھا دیا
عرفان بھائی کالجوں کی عمارتوں کو حسرت سے دیکھتے ہوئے نارمل سکول لالہ موسیٰ چلے گئے جہاں انہیں ایک سالہ تربیتی کورس کے بعد جلد ملازمت ملنے کی توقع تھی۔ ان دنوں نارمل سکول لالہ موسیٰ کے پرنسپل صوفی عبدالقیوم صاحب تھے جو ایک دلآویز شخصیت کے مالک تھے۔ شروع شروع میں تو انہیں سب کچھ اجنبی لگا لیکن پھر عرفان بھائی اور صوفی صاحب استاد اور شاگرد کے رشتے میں ایسے بندھے کہ تمام عمر یہ ساتھ برقرار رہا۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھی صوفی صاحب راولپنڈی آتے تو عرفان بھائی کے گھر قیام کرتے اور عرفان بھائی گجرات جاتے تو صوفی صاحب کے گھر ٹھہرتے۔ یہ عرفان بھائی کی دلربا شخصیت کا اعجاز تھا کہ جس سے دوستی ہوئی‘ تمام عمر رہی۔ لالہ موسیٰ کے ٹریننگ سکول میں عرفان بھائی کے تخلیقی جوہر مزید نمایاں ہو کر سامنے آئے۔ انہوں نے ہم نصابی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔ اسی دوران انہوں نے سٹیج پر ایک منظوم ڈرامے کا اہتمام کیا اور خود بھی اس ڈرامے میں ایک کردار ادا کیا۔ ہم نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ پڑھائی میں بھی ان کا شمار اپنی کلاس کے ممتاز طالب علموں میں ہوتا تھا۔ جے وی (Junior Vernacular) کے امتحان میں انہوں نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ جس دن وہ لالہ موسیٰ سے جے وی کا کورس مکمل کر کے گھر واپس آئے تو ہمیں یوں لگا جیسے ہمارے گھر کی کھوئی ہوئی رونق واپس آ گئی ہے۔ جے وی کے امتحان میں کامیابی کے بعد اب اگلا مرحلہ نوکری کے حصول کا تھا۔ بقول منیر نیازی:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
کچھ عرصے کی تگ ودو کے بعد انہیں لال کرتی کے سی بی پرائمری سکول (اولڈ بلڈنگ) میں اسسٹنٹ ٹیچر کے طور پر ملازمت مل گئی۔ لال کرتی میں لڑکوں کے کینٹ بورڈ کے دو پرائمری سکول تھے۔ ایک سکول نیو بلڈنگ میں تھا اور دوسرا اولڈ بلڈنگ میں۔ جب عرفان بھائی نے والدہ کو یہ خبر سنائی تو ان کی خوشی دیدنی تھی‘ ان کی آنکھیں چھلک رہی تھیں۔ انہوں نے عرفان بھائی کی پیشانی پر بوسہ دیا اور انہیں ڈھیروں دعائیں دیں۔ زندگی کی کڑی دھوپ میں چلتے چلتے ایک عرصے بعد ابرِ سایہ دار آیا تھا۔ ان دنوں سی بی پرائمری سکول (اولڈ بلڈنگ) کے ہیڈ ماسٹر فضل صاحب تھے‘ جو بہت محنتی اور مخلص لیکن انتہائی سخت گیر استاد اور منتظم تھے۔ طلبا اور اساتذہ ان سے سہمے سہمے رہتے۔ لیکن معلوم نہیں عرفان بھائی کی شخصیت میں کیا جادو تھا کہ فضل صاحب نے انہیں روزِ اول ہی سے اپنا بااعتماد ساتھی بنا لیا۔ ایک ایسا ساتھی جس پر وہ مکمل بھروسہ کرتے تھے اور عرفان بھائی نے بھی کبھی ان کے اعتمادکو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ اب عرفان بھائی نے ایک سائیکل خرید لی جس پر وہ سکول آتے جاتے تھے۔ مہینے کے مہینے جو تنخواہ ملتی عرفان بھائی وہ والدہ کے ہاتھ میں دے دیتے۔ اُن دنوں زندگی بہت سادہ تھی اور ہماری خواہشیں بہت محدود۔ ہماری خاص تفریح عید کے موقع پر لیاقت باغ کا میلہ ہوا کرتا تھا جس میں ہم سب بہن بھائی جایا کرتے تھے۔ اسی طرح 14 اگست کو ہمارے گھر کے قریب راولپنڈی بجلی کمپنی (REPCO) کی عمارت پر چراغاں ہوتا تھا جسے دیکھنے کیلئے ہم بڑے شوق سے جایا کرتے تھے‘ یا پھر مریڑ کے پُل پر کھڑے ہو کر سڑک پر آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھتے۔
ہم گائوں سے شہر تو آ گئے تھے لیکن والد صاحب کا شہر میں جی نہیں لگتا تھا۔ وہ زیادہ تر گائوں میں رہتے تھے۔ ہم بچے گرمیوں کی چھٹیوں میں گائوں چلے جاتے اور گائوں کی آڑی ترچھی پگڈنڈیوں پر گھومتے رہتے۔ ہمارے گائوں سے کچھ فاصلے پر ایک جنگل تھا جسے پوٹھوہاری زبان میں ''رَکھ‘‘ کہا جاتا۔ مجھے یاد ہے کہ گائوں کے ابتدائی دنوں میں والد صاحب رکھ سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے‘ جو مٹی کے چولہے اور گھر کی تندوری میں بالن (ایندھن) کیلئے استعمال ہوتیں۔ کبھی کبھی عرفان بھائی بھی ضد کر کے ان کے ہمراہ جاتے اور لکڑیوں کی گٹھڑی سر پر رکھ کر لاتے۔ ہم گرمیوں کی چھٹیاں گزار کر شہر واپس آتے تو پھر وہی مصروفیات شروع ہو جاتیں۔
دن رات یونہی گزر رہے تھے کہ ایک روز پتا چلا کہ اب ہم مریڑ حسن کا یہ گھر چھوڑ کر ٹینچ بھاٹہ ایک کرائے کے گھر میں رہنے جا رہے ہیں۔ ٹینچ بھاٹہ راولپنڈی کا ایک قدیمی علاقہ ہے جو اپنے طویل بازار کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ گھر بدلنے کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے اپنا سکول چھوڑ کر ایک نئے سکول میں جانا پڑا۔ میرا نیا سکول لال کرتی کا پرائمری سکول (اولڈ بلڈنگ) تھا‘ وہی سکول جہاں عرفان بھائی پڑھاتے تھے۔ یوں میں چوتھی کلاس میں عرفان بھائی کا باقاعدہ شاگرد بن گیا۔ عرفان بھائی ہی ہمارے کلاس ٹیچر تھے۔
اب چونکہ میں بھی اسی سکول میں پڑھتا تھا جہاں عرفان بھائی پڑھاتے تھے‘ اس لیے اکثر عرفان بھائی کے ساتھ ان کی سائیکل پر سکول آتا جاتا۔ ان دنوں ایک بار پینٹنگ کا ایک مقابلہ تھا جس میں عرفان بھائی سکول کے بچوں کو لے کر گئے تھے اور میں بھی اس مقابلے میں شریک ہوا تھا۔ اس وقت پانچویں جماعت کا سکالرشپ کا امتحان بھی ہوا کرتا تھا جس کیلئے بچوں کو خوب تیاری کرائی جاتی۔ مختلف سکولوں کے درمیان مقابلہ ہوتا کہ کون سا سکول زیادہ سکالرشپس جیتے گا۔ ہیڈ ماسٹر فضل صاحب اور عرفان بھائی کی کوششوں سے ہمارے سکول کے سکالرشپس ہمارے ہمسایہ پرائمری سکول (نیو بلڈنگ) سے زیادہ ہوتے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارا پانچویں جماعت کا سکالرشپ کا امتحان لوکو شیڈ سکول میں ہوا تھا اور عرفان بھائی ہمارے ساتھ گئے تھے۔ امتحان کا نتیجہ آیا تو ہمارے سکول نے سب سے زیادہ سکالرشپس جیتے تھے۔ مجھے سکالرشپ ملنے پر عرفان بھائی بہت خوش تھے۔ اب میں لال کرتی کے ٹیکنیکل ہائی سکول میں چلا گیا اور عرفان بھائی پرائمری سکول (اولڈ بلڈنگ) میں پڑھاتے رہے۔ یوں عرفان بھائی کے ساتھ میری سائیکل کی ہمسفری ختم ہو گئی۔
اسی دوران ہم ٹینچ بھاٹہ سے ٹاہلی موہری کی ایک نئی آبادی نورس کالونی آ گئے۔ ہمارے گھر کے قریب ایک خالی پلاٹ تھا جہاں شام کو ہم کرسیاں ڈال کر بیٹھ جاتے۔ گھر کے قریب ہی ایک بھٹہ گرائونڈ تھا۔ اسے بھٹہ گرائونڈ اس لیے کہتے تھے کہ یہاں اینٹیں بنانے والا بھٹہ تھا۔ محلے کے لڑکے یہاں کرکٹ کھیلتے۔ ایک روز کرکٹ کھیلتے ہوئے عرفان بھائی سے انعام بھائی کے سر پر بال لگی۔ انعام بھائی کے سر سے دھل دھل خون بہنے لگا۔ انہیں جلدی سے گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے جایا گیا۔ عرفان بھائی بھی ان کے ساتھ ہسپتال گئے۔ ڈاکٹر جب انعام بھائی کے سر میں ٹانکے لگانے لگا تو عرفان بھائی خون دیکھ کر بے ہوش ہو گئے۔ اب ہم سب انعام بھائی کو چھوڑ کر عرفان بھائی کو ہوش میں لانے کی ترکیبیں کرنے لگے۔ کافی دیر بعد انہیں ہوش آیا تو ہماری جان میں جان آئی۔ بعد میں ہم اکثر یہ واقعہ یاد کر کے ہنسا کرتے۔اب عرفان بھائی کی عمر چوبیس سال ہو چلی تھی۔ ہر ماں کی طرح ہماری ماں کی بھی خواہش تھی کہ وہ جلد از جلد بہو بیاہ کر گھر لائیں۔ ماں نے اس کیلئے چپکے چپکے تیاریاں بھی شروع کر دی تھیں۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved