میری طرح کے وہ لوگ جن کی جڑیں (شہری ہونے کے باوجود) دیہات میں ہوتی ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ دیہی زندگی کے زیادہ تر پُرتشدد واقعات (جو کبھی کبھار قتل کی وارداتوں میں بھی بدل جاتے ہیں) کے پیچھے کی وجہ پانی کا جھگڑا ہوتا ہے۔ دیہات میں دریائوں سے نکلی نہروں اور ان نہروں سے نکلنے والے ''کھالوں‘‘ (پانی کی چھوٹی گزرگاہوں) کے ذریعے زرعی رقبے کی آبپاشی کی جاتی ہے۔ چنانچہ آبپاشی اور انہار کے محکمے ان کھالوں سے مستفید ہونے والے کاشتکاروں کی باری مقرر کر دیتے ہیں۔ اگر کوئی کاشتکار اس بندوبست کو درہم برہم کرنے کے ارادے سے اپنے پڑوسی کے حصے کے پانی کا رُخ (بدمعاشی کرتے ہوئے) اپنی زمین کی طرف موڑ لے تو متاثرہ کاشتکار کا ردِعمل بڑا شدید ہوتا ہے اور یہ معاملہ چند لمحوں میں تشدد کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ شمالی‘ وسطی اور جنوبی پنجاب کے نہری علاقوں میں پڑوسی کاشتکاروں میں جھگڑے کی سب سے بڑی وجہ پانی کی باری ہی ہوتی ہے۔ البتہ آج ہم انفرادی جھگڑوں کے بجائے ممالک میں پانی پر ہونے والے تصادموں کا مختصر جائزہ لیں گے۔
پانی کے مسئلے پر بین الاقوامی جھگڑوں کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی ابتدا Sumerians نے کی تھی۔ اسی طرح آج سے کوئی 2700سال پہلے مشرقِ وسطیٰ کی ایک مملکت Judah (جو آج کے فلسطین کے علاقے میں تھی) کے بادشاہ Hezekiah کے تعلقات اپنے ہمسایہ ملک (جس کے حکمرانوں کا نام Assyrians تھا) سے خراب ہوتے ہوتے اس نہج پر پہنچ گئے کہ معاملہ جنگ وجدل تک جا پہنچا۔ Judah کے بادشاہ نے اپنے پڑوسی ملک کی طرف بہنے والے پانی کو روک دیا۔ پانی کی یہ بندش ایسی کامل تھی کہ متاثرہ ملک میں چلنے والے فوارے بھی بند ہو گئے اور لوگ پانی کی ایک بوند کو ترسنے لگے۔ 225قبل از مسیح میں چین کی Qin سلطنت کے دور میں سب سے بڑے چینی دریا (Yelow River) کا رُخ موڑ کر تقریباً ایک لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا تھا۔ میسوپوٹیمیا کی ایک ریاست کا نام Umma تھا‘ جس کے گورنر کا نام کنگ دوم تھا۔ اُس نے اپنے حریف ملک (جو اس کا پڑوسی بھی تھا) کو شکست دینے کیلئے اپنے ملک سے بہنے والے دریا کا رُخ موڑنے کی بار بار کوشش کی۔ پڑوسی ملک کی خوش بختی کہ اس کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہ ہو سکی البتہ اُس نے بد سے بدنام برا کے مصداق پڑوسی ملک میں عمارتوں کے پتھروں پر یہ تحریر کندہ کرا دی کہ کنگ دوم ایک شیطان صفت حکمران ہے جو اپنے پڑوسیوں کے لہلہاتے ہوئے کھیتوں کو (پانی کی بندش سے) ویران کر دیتا ہے۔
عصرِ حاضر میں دریائی پانی کا جھگڑا محض پاکستان اور بھارت تک ہی محدود نہیں۔ گزرے سال میں مصر نے اقوامِ متحدہ میں ایتھوپیا کے خلاف یہ شکایت درج کرائی تھی کہ وہ دریائے نیل پر بڑے بند باندھ کر مصر کو ہزاروں سالوں سے اس دریا سے ملنے والے پانی میں رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں بہنے والا ایک دریا Mekong سمندر میں گرنے سے پہلے چھ ممالک (چین‘ میانمار‘ لائوس‘ تھائی لینڈ‘ کمبوڈیا اور ویتنام) میں سے گزرتا ہے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس خطے میں دریا کے زیریں علاقے میں پائے جانے والے (Lower Riparian)ممالک کو دریاکے بالائی حصے کے ممالک (Upper Riparian) کے ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں پر کتنی تشویش ہوتی ہو گی۔ سوڈان میں جاری حالیہ خانہ جنگی (جس میں لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے) میں مختصر عرصے کیلئے باغی افواج (جو ریپڈ سپورٹ فورس کہلاتی ہیں) نے صحرا میں بہنے والے دریائے Golo پر بنے ڈیم پر قبضہ کیا تو باغی افواج کے کمانڈر نے اپنی فتح کا جشن مناتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا کہ اس کے پانی سے مستفید ہونے والے دو لاکھ ستر ہزار افراد کو اب اس پانی سے ایک بوند بھی نہیں ملے گی اور اب انہیں بحر قلزم سے پینے کے پانی کے حصول کیلئے تیار ہو جانا چاہیے۔
کیلیفورنیا میں Pacific Institue سے وابستہ عالمی سطح کے ماہر Peter Gleick نے حال ہی میں اس موضوع پر ایک تفصیلی مضمون لکھا ہے۔ ان کی رائے میں پانی کی تقسیم کے بارے میں 2020ء کے مقابلے میں 2023ء میں بین الاقوامی تنازعات میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان کی ماہرانہ رائے میں یہ بھارت کے مفاد میں نہیں کہ وہ سندھ طاس معاہدہ کی تحت پاکستان کو ملنے والے پانی میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے ایک سے زیادہ دریائوں کا منبع چونکہ چین میں ہے لہٰذا بھارت کے اس اقدام سے چین کیلئے بھارت کی جانب بہنے والے دریائوں پر ڈیم بنا کر پانی کی ترسیل روکنے کی نظیر قائم ہو جائے گی۔
کالم کے دوسرے حصے کو دو ممتاز صحافیوں کی موت کا نوحہ سمجھ کر پڑھیں۔ یہ دونوں میرے دوست تھے اور دونوں ماہِ نومبر میں ہم سے ہمیشہ کیلئے جدا ہو گئے۔ ان دونوں سے میری ملاقات بی بی سی کی غیر ملکی نشریات کے پروگرام کے توسط سے ہوئی۔ 1975ء سے 1980ء تک میں بی بی سی سے وابستہ رہا۔ یہ دونوں صحافی بھی سال میں دو چار پروگرام ریکارڈ کرانے کیلئےBush House (بی بی سی کی غیر ملکی نشریات کا مرکز) آتے تھے اور سالانہ ڈنر میں بھی اکثر شریک ہوتے۔ خوش قسمتی سے مجھے یکے بعد دیگرے عشائیوں میں اُن کے ساتھ بیٹھنے‘ شام گزارنے اور ان کی دلچسپ باتیں سننے کا موقع ملا۔ دونوں اتنے خوش طبع اور باغ وبہار قسم کے انسان تھے کہ رسمی تعارف بہت جلد گہری دوستی میں تبدیل ہو گیا۔ اتنی گہری دوستی کہ ان کی وفات سے بھی یہ رشتہ متاثر نہیں ہوا۔ Richard Gott کا ذکرپہلے‘ کہ ان کی وفات پہلے (دو نومبر کو) ہوئی ۔ 1938ء میں پیدائش ہوئی‘ برطانیہ کے مشہور پرائیویٹ سکول Winchester اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے Corpus Christi College سے تعلیم حاصل کر کے بڑے برطانوی اخبار دی گارجین سے وابستہ ہوئے اور عمر بھر اُس میں لکھتے رہے۔ مشہور تھا کہ دنیا بھر کی خفیہ اور جاسوسی ایجنسیوں سے رچرڈ کی صرف سلام دعا نہیں بلکہ گہرے مراسم بھی ہیں۔ روسی خفیہ تنظیم KGB سے رچرڈ کے دوستانہ مراسم اس کیلئے سکیورٹی کے کئی پیچیدہ مسائل پیدا کرنے کا باعث بنے۔ رچرڈ کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ اکتوبر1967ء میں اس نے لاطینی امریکہ کے قبائل میں امریکی فوج کے ہاتھوں قتل کر دیے جانے کے بعد دنیا کے مشہور ترین انقلابی چی گویرا کی میت کی شناخت کرتے ہوئے اس کی موت کی تصدیق کی تھی۔ رچرڈ نے لاطینی امریکہ‘ کیوبا‘ برطانوی ایمپائر اور اقوام متحدہ کے مستقبل کے حوالے سے متعدد اچھی کتب بھی لکھیں۔ اُس نے پارلیمان کے ایوانِ زیریں (دارالعوام) کی ایک نشست کیلئے انتخاب بھی لڑا مگر بدقسمتی سے بری طرح ہار گیا۔ اُسے صرف 253 ووٹ ملے۔ اس نے مرتے دم تک اُن اقدار کا پرچم اٹھائے رکھا جو اسے آکسفورڈ میں تاریخ کے مطالعہ نے سکھائی تھیں۔ وہ اقدار تھیں؛ عالمی امن‘ انسان دوستی‘ انصاف اور مساوات۔
رچرڈ کی وفات کے محض نو دن بعد دوسرا ممتاز صحافی Anthony Grey بھی چل بسا۔ اُس نے اپنی ساری عمر دنیا کی سب سے بڑی خبر رساں ایجنسی Reuters کیلئے کام کرنے میں صرف کر دی۔ شومیٔ قسمت کہ انتھونی اس وقت چین پہنچا جب ساٹھ کی دہائی کے وسط میں وہ ''ثقافتی انقلاب‘‘ کی یورش اور طلاطم میں بری طرح پھنسا ہوا تھا۔ چین کے اشتراکی رہنما مائوزے تنگ کے ریڈ گارڈز نے انتھونی کو مغربی طاقتوں کا جاسوس ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا اور دو سال قید (بلکہ عقوبت خانے) میں رکھا۔ انقلابی کارکنوں نے انتھونی کی پالتو بلی کو قتل کر کے اُس کی لاش کئی دن اس کی آنکھوں کے سامنے لٹکائے رکھی۔ انتھونی نے ان دو سالوں میں جو عذاب سہے وہ میں اُس سے کئی بار سن چکا۔ اب اس کہانی کو اس آنجہانی پر لکھے اس مختصر خاکے میں شامل کرنا مناسب نہ ہوگا۔ اُن کی دو بیٹیاں اور ان گنت مداح ان کے سوگواروں میں شامل ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved