تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     27-11-2025

نماز کے اوقات اور وحدتِ امت

اللہ تعالیٰ نے دین کو آسان بنایا ہے۔ اس آسانی کو اللہ کی نعمت سمجھ کر اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ انسان کا معاملہ مگر عجیب ہے۔ وہ خود طوق بناتا اور اپنے گلے میں ڈال لیتا ہے۔ ستم یہ کہ اس کا انتساب خدا کی طرف کرتا ہے۔
نماز کے اوقات کو دیکھ لیجیے۔ ان میں وسعت رکھی گئی ہے۔ ظہر سے عشا تک‘ ہر دو نمازوں کے مابین کم وبیش ڈیڑھ گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے۔ دن کے چھوٹا بڑا ہونے سے ان میں کچھ فرق بھی آ سکتا ہے۔ اس وقفے میں کسی وقت بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید نے سورج کے ڈھلنے کے ساتھ نماز کے اوقات کا ذکر کیا ہے۔ 'سورج نکلنے سے پہلے (فجر) اور اس کے ڈوبنے سے پہلے (عصر) اور کچھ گھڑیوں میں رات کی (عشاء) اور دن کی حدوں پر (ظہر اور مغرب)‘ ( طہٰ: 130)۔ نبیﷺ نے جب نماز کو بطور سنت جاری فرمایا تو انسانوں کی آسانی کو پیشِ نظر رکھا۔ ابوذرغفاریؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نبیﷺ کے ساتھ سفر پر تھے۔ مؤذن نے ظہر کی اذان کہنا چاہی تو آپﷺ نے فرمایا: ٹھنڈا کرو (یعنی گرمی کی شدت کم ہو جانے دو)۔ پھر مؤذن نے ارادہ کیا کہ اذان کہے تو آپﷺ نے اسے پھر فرمایا کہ ٹھنڈا کرو‘ یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھ لیا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: بے شک گرمی کی شدت جہنم کے سانس میں سے ہے‘ پس جب گرمی زیادہ ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو (بخاری)۔ اسی طرح ایسی روایات بھی ہیں جن میں آپﷺ نے پہلے وقت میں نماز پڑھنے کی تاکید فرمائی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مسلمان عورتیں صبح کی نماز نبیﷺ کی امامت میں مسجد میں پڑھا کرتی تھیں۔ پھر جب وہ واپس لوٹتی تھیں تو اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔ دوسری طرف ترمذی کی ایک روایت بتاتی ہے کہ فجر کی نماز اجالے میں پڑھا کرو کہ اس میں زیادہ اجر ہے۔
یہ روایات دراصل اس وسعت کو بیان کر رہی ہیں جو نماز کے اوقات میں رکھ دی گئی ہے اور پیشِ نظر انسانوں کی آسانی ہے۔ ہمارے فقہا نے نماز کے حکم اور اس کی روح کو سمجھا۔ ان کے اس فہم میں اختلاف ہوا۔ کسی نے اوّل وقت کو ترجیح دی اور کسی نے اس میں اعتدال کا پہلو پیشِ نظر رکھا۔ یہ اختلاف اس طرح رحمت بن گیا کہ نماز کے اوقات میں وسعت پیدا ہو گئی۔ ایک مسجد میں ظہر کی نماز اگر ایک بجے ہو رہی ہے تو دوسری میں ڈیڑھ بجے۔ اب اگر ایک آدمی ایک بجے نماز باجماعت ادا نہیں کر سکا تو اس کیلئے یہ موقع موجود ہے کہ وہ آدھ گھنٹے بعد دوسری مسجد میں پڑھ لے۔ اسی بات کو سفیان ثوریؒ نے یوں بیان کیا کہ یہ نہ کہو فقہا نے اختلاف کیا‘ یوں کہو کہ انہوں نے آسانی پیدا کر دی ہے۔
ہمارے ملک میں ایک دوسال بعد ایک تحریک اٹھتی ہے کہ ایک شہر میں بلکہ ملک بھر میں نماز کا وقت ایک ہونا چاہیے۔ میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ اس کے ساتھ کیا خیر وابستہ ہے؟ مختلف اوقات میں نماز پڑھنے کی حکمت تو بیان کی جا سکتی ہے مگر ایک ہی وقت پڑھنے میں جو حکمت پوشیدہ ہے‘ میں کبھی دریافت نہیں کر سکا۔ کیا اس سے مسلکی اختلاف کم ہو جائے گا؟ ظاہر ہے نہیں ہو گا۔ اگر مساجد اسی طرح مسلک کی بنیاد پر موجود ہیں تو پھر ایک وقت میں نماز پڑھنے سے کیا ہو گا؟ اگر لوگوں کے خیالات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تو اس جبر سے وحدت پیدا نہیں ہو سکتی۔ پھر یہ مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔ اگر کسی کا مسلک ہے کہ ا وّل وقت نماز پڑھنا درست ہے تو اسے بالجبر دیر سے پڑھانا اسے ایک حق سے محروم کرنا ہے۔ اگر کوئی اجتماعی مصلحت نہ ہو تو اس آزادی سے محرومی بلاجواز قرار پائے گی۔
ہمارے ہاں مذہبی عدم رواداری کے اسباب اور ہیں‘ ہم جنہیں مخاطب بنانے کیلئے تیار نہیں۔ سب سے بڑا سبب دینی تعلیم کا مسلکی ہونا ہے۔ پاکستان میں ریاست کی تائید سے مدرسے اور مساجد مسلک کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ اس میں تبدیلی کیلئے کوئی سنجیدہ قدم آج تک نہیں اٹھایا گیا۔ بعض مدارس نے اپنے طور پر وسعت پیدا کی ہے۔ جیسے کراچی میں جامعہ اسلامیہ العالمیہ ہے۔ اس ادارے میں حنفی مذہب کے ساتھ دیگر فقہی مذاہب کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ شوافع کا الگ سے جمعہ بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح جامعۃ الرشید نے بھی ان مسلکی رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم فی الجملہ دینی تعلیم کا نظام مسلکی ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ ایک مسلک کے اندر کئی جماعتیں قائم ہیں جس میں تمام تر اختلاف شخصی ہے۔ اس اختلاف کو دشمنی میں بدل دیا گیا ہے اور اب سوشل میڈیا بھی اس سے آلودہ ہے۔ تیسرا بڑا سبب انتہا پسندی ہے۔ تکفیر ہو رہی ہے اور اگر تکفیر نہیں تو دیگر بہت سے الفاظ ایجاد کر لیے گئے ہیں جن کی مدد سے اختلاف میں شدت کا اظہار کیا جاتا اور دوسروں کو دائرہِ اسلام سے باہر دھکیلا جاتا ہے۔ پھر مذہب کا سیاسی استعمال ہے۔ مذہب کے سوئے استعمال سے ریاست اور حکومت پر دباؤ ڈالا جاتا ہے تاکہ کچھ سیاسی مفادات حاصل کیے جا سکیں۔
ان اسباب پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کو قومی سطح پر موضوع بنانا چاہیے تاکہ مذہب خیر کی ایک قوت بن کر ابھرے۔ یہ سماج کی اخلاقی بالیدگی کا سبب بنے‘ جو اس کا حقیقی مقصد ہے۔ اس ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس کا شعور رکھتے ہیں کہ آدابِ زندگی مذہب کی تعلیم کا حصہ ہیں‘ جیسے صفائی۔ نومبر میں دو مذہبی جماعتوں؛ تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی نے لاکھوں افراد کوجمع کیا۔ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھا۔ کوئی غیر شائستہ بات کی نہ کسی کو تکلیف پہنچائی۔ میں نے تصاویردیکھیں کہ جماعت اسلامی کے کارکن‘ جن میں خواتین بھی شامل تھیں‘ اجتماع کے بعد پنڈال کی صفائی کر رہے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ مذہب میں فی نفسہٖ کوئی مسئلہ نہیں۔ مسئلہ لوگوں کے رویے میں ہے۔ اگر ہم اصلاح چاہتے ہیں تو ہمیں اس رویے کو موضوع بنانا ہے۔ لوگوں کو بتانا ہے کہ فقہا وعلما کے اختلاف کو کسی عصبیت کی بنیاد بنانے کے بجائے اس اختلاف میں چھپی حکمت کو سمجھو جس کی طرف سفیان ثوریؒ نے اشارہ کیا ہے۔ دین کا ماخذ تو نبیﷺ کی ذاتِ والا صفات ہے۔ وہی مرکزِ عقیدت ہیں اور دین کے باب میں ہمیں آپﷺ کی سند چاہیے۔
ان امور پر غور کرنے کے بجائے‘ ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ سب کو ایک وقت پر نماز پڑھانے سے وحدتِ امت پیدا ہو گی۔ یہ دراصل لوگوں کو غیر ضروری مشقت میں ڈالنا ہے جس کا فائدے سے زیادہ نقصان ہے۔ جس ملک میں فاتحہ خلف الامام اور آمین بالجہر پر مناظرے ہوتے ہوں‘ وہاں انہیں مجبور کرنا کہ وہ اپنے مسلک کے خلاف نماز پڑھیں‘ ایک نیا محاذ کھولنا ہے جو غیر ضروری ہے۔ پہلے لوگوں کو اصل اور فرع کا فرق بتائیں۔ پھر انہیں سمجھائیں کہ فروعات پر مورچہ لگانا امت کو تقسیم کرنا ہے۔ امت کو منقسم کرنا ایک بڑا گناہ ہے۔ ہمارا اصل مرض مسلکی تعصب ہے۔ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں ان کی قلبِ ماہیت اصل کام ہے اور یہ مکالمے اور نظری وسعت پیدا کرنے سے ہو گا۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے جو آسانیاں لوگوں کیلئے رکھی ہیں ان کی حکمت کو سمجھنا چاہیے‘ محض وحدت کے شوق میں عوام کو ان سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ ایسی ہی ایک آسانی نماز کے اوقات میں تنوع ہے۔ اس کو باقی رہنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved