تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     27-11-2025

ضمنی انتخابات کا ایک تشویشناک پہلو

پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری صاحبہ نے 23 نومبر کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 13 حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتخابات کئی لحاظ سے منفرد تھے۔ بلاشبہ یہ انتخابات ماضی کے انتخابات سے ہر لحاظ سے مختلف تھے۔ ان ضمنی انتخابات کا ایک منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں ملک میں ماضی میں ہونے والے عام اور ضمنی انتخابات کے مقابلے میں غالباً سب سے کم ٹرن آؤٹ رہا ۔ فافن کی رپورٹ کے مطابق ملک میں گزشتہ سال فروری میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں مجموعی ووٹر ٹرن آؤٹ 51 فیصد ریکارڈ ہوا ‘ لیکن حالیہ ضمنی انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 28 فیصد رہا۔ جن 13 حلقوں میں ضمنی انتخابات منعقد ہوئے ان میں سے صرف دو حلقوں‘ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 129 (لاہور) اور پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 115(فیصل آباد) میں فروری 2024ء کے انتخابات میں ٹرن آؤٹ 50 فیصد سے کم رہا تھا‘ باقی گیارہ حلقوں میں یہ 50فیصد سے زیادہ تھا‘ مگر اب ان حلقوں کا مجموعی ٹرن آؤٹ 28 فیصد تک رہا۔ حکومت اور اس کے ہمنواؤں کی جانب سے اس کی ذمہ داری پاکستان تحریک انصاف پر ڈالی جا رہی ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت خصوصاً عمران خان کے غیرواضح مؤقف کی وجہ سے پی ٹی آئی کا ووٹر باہر نہیں نکلا‘ مگر ووٹر تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کا بھی باہر نہیں نکلا۔ اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ووٹر بھرپور طریقے سے اس الیکشن میں حصہ لیتا تو ووٹنگ ٹرن آؤٹ اتنا کم نہ ہوتا۔ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ پی ٹی آئی نے ان ضمنی انتخابات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ پی ٹی آئی نے لاہور کے حلقہ این اے 129 اور ہری پور کے حلقہ این اے 18 میں اپنے امیدواروں کو جتوانے کیلئے پُرزور مہم چلائی کیونکہ ان حلقوں میں ان کی جیت پارٹی کی ساکھ سے وابستہ تھی‘ مگر اس بھرپور مہم کے باوجود این اے18 میں‘ جہاں عمر ایوب خاں کی بیگم امیدوار تھیں‘ ٹرن آؤٹ 42 فیصد رہا۔ قومی اسمبلی کا ایک حلقہ ایسا بھی ہے جہاں ووٹر ٹرن آؤٹ صرف 13 فیصد رہا۔ یہ حلقہ این اے 96 فیصل آباد (2)ہے اور یہاں سے بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کا امیدوار کامیاب ہوا ہے‘ کیونکہ میدان خالی تھا۔
یہ حقیقت اب واضح ہو چکی ہے کہ ضمنی انتخابات میں صرف پی ٹی آئی کے ووٹرز غائب نہیں تھے بلکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ووٹرز بھی حاضر نہیں تھے۔ اس کا نتیجہ کم ٹرن آؤٹ کی صورت میں ہی نکلنا تھا۔ یہ صورتحال سب سٹیک ہولڈرز کیلئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کیونکہ اس کا مطلب عوام کی طرف سے سیاسی نظام پر بداعتمادی کا اظہار ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ عوام کی نظر میں موجودہ سیاسی نظام اپنی ساکھ کھو چکا ہے‘ اس لیے عوام اس کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔
آج سے تقریباً تین ہزار سال قبل یونان کے دو عظیم مفکروں‘ افلاطون اور ارسطو کے درمیان ایک مستحکم اور دیرپا سیاسی نظام کی نوعیت پر ایک بحث ہوئی تھی۔ یہ بحث اور اس کے نتیجے میں برآمد ہونے والے نظریات اور تصورات ہمارے سیاسی فلسفے کا ایک بیش قیمت اثاثہ ہیں اور آج بھی ان کو مستند سمجھا جاتا ہے۔ ارسطو نے اپنے استاد افلاطون کے شخصیت پر مبنی سیاسی نظام کو مسترد کرتے ہوئے قانون اور آئین کی بنیاد پر قائم ہونے والے سیاسی نظام کو ایک محفوظ‘ دیرپا اور عوام دوست نظام کے طور پر پیش کیا تھا‘ جسے آج بھی درست تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی لیے افلاطون کے بجائے ارسطو کو جدید سیاسیات کا جدِ امجد سمجھا جاتا ہے مگر اس نظام کی بقا کیلئے ارسطو نے جن اہم شرائط کو لازمی قرار دیا تھا ان میں سے ایک یہ تھی کہ اس نظام کا عوام (معاشرے) کے اعتماد پر پورا اترنا ضروری ہے۔ باقی دو شرائط یہ تھیں کہ اس نظام کو کسی قانون اور ضابطے کا پابند ہونا چاہیے اور اسے عوام کی تائید حاصل ہونی چاہیے‘ مگر سب سے اہم اس پر عوام کا اعتماد ہے۔ جو نظام عوام کا اعتماد کھو دیتا ہے عوام(شہری) خود کو اس سے الگ تھلگ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اس سے عوام اور حکومت کے درمیان فاصلے بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً جب اس نظام پر کوئی افتاد پڑتی ہے یا اسے اندر اور باہر سے کوئی چیلنج درپیش ہوتا ہے تو عوام اس کی حفاظت کو نہیں پہنچتے۔ اور یہ نظام‘ جو اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہوتا ہے‘ اس چیلنج کا مقابلہ نہیں کر پاتا۔
پاکستان ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا‘ اس کے قیام میں عوام کی تائید شامل تھی اور عوامی تائید سے ہی 1973ء کے آئین کی صورت میں اس کا آئینی اور قانونی ڈھانچہ کھڑا کیا گیا تھا ؛مگر غیر آئینی‘ غیر قانونی اور عوامی تائید سے یکسر خالی مداخلتوں کے نتیجے میں اس کی بنیادیں اتنی کھوکھلی ہو چکی ہیں کہ عوام اس کی بقا کیلئے سب سے ضروری اور اہم فریضے یعنی انتخابات میں دلچسپی کھو رہے ہیں۔ 1973ء کے آئین کی بنیاد اس جمہوری اصول پر رکھی گئی تھی کہ عوام کو صاف‘ شفاف اور غیرجانبدار انتخابات کے ذریعے آئینی اداروں یعنی اسمبلیوں میں اپنے نمائندے بھیجنے کا موقع فراہم کیا جائے گا اور تمام ریاستی امور ان نمائندوں کی مرضی اور فیصلوں سے چلائے جائیں گے‘ لیکن پاکستان میں جمہوریت کے اس بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عوام کو ان حقوق سے محروم رکھا گیا جو دراصل عوام کی تائید اور قانون کی بنیاد پر مبنی سیاسی نظام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے مترادف ہے۔ غیر ملکی آقاؤں سے آزادی کا سب سے بڑا تحفہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر بغیر کسی جنسی اور مالی تخصیص‘ اور رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر امتیاز کے بغیر ہر شہری کو پُرامن‘ صاف اور شفاف انتخابات کے ذریعے اپنے نمائندے چننے کا حق تھا۔ انگریزوں نے متحدہ ہندوستان کے باشندوں کو شہری‘ قانونی اور سیاسی حقوق سے محروم کر رکھا تھا۔ جن اداروں کیلئے ہندوستان کے باشندوں کو ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرنے کی رعایت دے رکھی تھی اس پر مالی حیثیت‘ تعلیم اور دیگر پابندیاں لگا رکھی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1947ء میں آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان اور بھارت دونوں کی طرف سے سب سے پہلا اقدام حقِ نیابت پر تمام پابندیوں کا خاتمہ تھا۔ اس کے بعد پاکستان اور بھارت میں جتنے بھی انتخابات ہوئے‘ وہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوئے جن میں عوام کی بھاری شرکت اس کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ پاکستان میں البتہ ایوب خان نے 1962ء کے صدارتی آئین کے تحت براہِ راست کے بجائے بالواسطہ انتخابات کا نظام رائج کیا تھا مگر یہ نظام فیلڈ مارشل ایوب خان کی اقتدار سے رخصتی کے ساتھ ہی ختم ہو گیا کیونکہ اس نظام کو عوام کی تا ئید حاصل نہیں ہو سکی تھی۔
بدلے ہوئے حالات کی وجہ سے اب کوئی حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان کی طرح عوام کے حقوق پر ڈاکا نہیں ڈال سکتا‘ لیکن عوام کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھنے کیلئے نئے نئے ہتھکنڈے ایجاد کر لیے گئے ہیں۔ ان ہتھکنڈوں کے نتیجے میں ادارے عوام کی نظر میں اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ عوام سیاستدانوں کے دعووں پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ قول و فعل میں تضاد ہے۔ جن اداروں کی ساکھ عوام کی نظروں میں کم ہو چکی ہے‘ ان میں الیکشن کمیشن بھی شامل ہے جس سے عوام کو کوئی امید باقی نہیں رہی کہ وہ اب کبھی آئین اور قانون کے مطابق صاف اور شفاف انتخابات کروا سکے گا۔ اس لیے اب ووٹنگ کے نظام میں‘ جس میں عوام کبھی پورے زور شور سے حصہ لیتے تھے‘ عوام کی شرکت کم ہو رہی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں ٹرن آؤٹ میں نمایاں کمی اس رحجان کا زندہ مگر انتہائی تشویشناک ثبوت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved