بڑے بزرگ اور سیانے سچ کہہ گئے ہیں کہ آگ وہیں لگی ہوتی ہے جہاں سے دھواں اٹھ رہا ہو۔ رواں سال ستمبر کی 30تاریخ کو میں نے بابر اعوان آفیشل سے الرٹ جاری کیا کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل سے باہر پنڈی کینٹ کے نو تعمیر شدہ پریزن سیل میں شفٹ کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ سرکار اور دربار چلانے والے ان دو باتوں کی عوامی سطح پر تردید کریں۔ پہلی یہ کہ اس طرح کا کوئی سیل گیریژن سٹی میں نہیں بنایا گیا ہے۔ دوسری یہ کہ عمران خان کو Designated Prison‘ جو قانون کے مطابق سینٹرل جیل اڈیالہ ہے‘ سے کہیں اور شفٹ نہیں کیا جا رہا۔ میری اس موثق اطلاع پر قیاس آرائیاں شروع ہونے کے کچھ دن بعد ایک ایسا واقعاتی ثبوت سامنے آگیا جس سے اوپر درج پہلی اطلاع کی تصدیق ہو گئی۔ ساتھ ہی ساتھ بازارِ اطلاعات میں سازشی تھیوریوں کی بھرمار بھی ہو گئی۔ جس ثبوت کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ یہ تھا کہ اچانک عمران خان کی بہنوں اور بھانجے پر مشتمل ان کے فیملی ممبران‘ بلکہ ساتھ ساتھ ان کے وکلا‘ جن کے پاس عمران خان سے ملاقات کے لیے عدالتی اجازت نامے ہیں‘ ان کی قیدی نمبر 804 سے ملاقات کروانے سے منع کر دیا گیا۔ ان وکلا میں مَیں بھی شامل ہوں۔ اب چوتھا ہفتہ ہو چلا ہے کہ تمام پریزن رولز بالائے طاق رکھ کر‘ جیل مینوئل کو پاؤں تلے روند کر دستورِ پاکستان کے آرٹیکل نمبر 14کی عدم عدولی اور توہین کرکے عمران خان کے ملاقاتیوں سے غیرملکی تارکینِ وطن جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔
پچھلے منگل کے دن عمران خان کی بہنوں کو جس طرح برسرِ بازارِ اڈیالہ گھسیٹا گیا‘ ہراساں کیا گیا‘ زد و کوب کیا گیا‘ اس سے یہ شک اور زور پکڑ چکا ہے کہ عمران خان سے ملاقاتیں روکنا صرف بہانہ ہے‘ جبکہ اصل واردات عمران خان کی اڈیالہ سے کسی نامعلوم جیل یا سیل میں ٹرانسفر کو چھپانا ہے۔ اس حوالے سے دو دن پہلے گزرے بدھ کو اور پھر جمعرات کو وکالت نامہ لکھنے کے وقت تک مقامی اور بین الاقوامی پریس اور میڈیا عمران خان کی ذات اور صحت کے حوالے سے خوفناک خبروں اور بے رحمانہ تجزیوں سے بھرا پڑا ہے۔ کیا اس دھاندلی زدّہ نظام میں کوئی ایک رجلِ رشید بھی ایسا نہیں جو طاقتوروں کو ہر مسئلے کا حل طاقت سے نکالنے والی سوچ پر ٹوک سکے یا روک سکے؟ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے‘ اس کی ہستی‘ جان و روح اللہ کے حوالے ہے۔ ساتھ ہی قیدی نمبر 804 نے ایک ایڈوانس پرچہ بھی آن ریکارڈ کر رکھا ہے کہ اگر مجھے کوئی زد یا گزند پہنچے تو اس کے سب ملزم نامزد ہیں۔ اس حوالے سے قوم کے سامنے دو تازہ باتیں رکھنا بہت ضروری ہے لیکن اس سے پہلے کائنات کے مالک کا حکم۔ جس ذاتِ واحد کی بادشاہی سدا رہنے والی ہے‘ اس کی نازل کردہ حتمی ہدایت میں دو مرتبہ قیدیوں اور مہاجروں سے رحمانہ سلوک کا حکم آیا ہے۔ یہ حکم ریکارڈ پہ لانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کم از کم دستاویزات میں ابھی تک اسلامی جمہوریہ ہے۔
عمران خان کی قیدِ تنہائی کے حوالے سے حقیقتِ اُولیٰ: وطنِ عزیز میں اس وقت قاتل‘ ڈاکو‘ جاسوس‘ غیرملکی جاسوس‘ دور دیس کے گھس بیٹھیے‘ ڈرگ ڈیلرز اور انتہائی سنگین اخلاقی فوجداری جرائم کے ملزمان انڈر ٹرائل اور قیدی ہیں۔ صرف اڈیالہ جیل میں قیدیوں کی سہولتوں کے حوالے سے اڑھائی ہزار قیدی رکھنے کی گنجائش ہے۔ لیکن پبلک فیکٹ کے مطابق اڈیالہ جیل میں اس وقت آٹھ ہزار حوالاتی اور قیدی پابندِ سلاسل ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی ایک قیدی بھی ایسا نہیں ہے جس کو ہفتے میں دو بار ملاقاتیوں سے ملنے کا موقع نہ دیا جائے۔ اگر دو نہ ہو سکیں تو فیملی یا دوستوں سے ایک ہفتہ وار ملاقات تو لازماً کروائی جاتی ہے۔ دستورِ پاکستان کا آرٹیکل 10 یہ ضمانت دیتا ہے کہ کوئی ملزم اپنی مرضی کا وکیل کسی بھی وقت مقرر کر سکتا ہے اور وکیل تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ اسی وجہ سے وکلا کو علیحدہ سے کسی بھی حوالاتی یا قیدی مؤکل کے ساتھ ہر وقت ملاقات کی دستوری اور قانونی‘ دونوں طرح کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ عمران خان کو جیل خانے کے تمام قوانین پامال کرتے ہوئے ملاقات کی بنیادی سہولت سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس طرح کے فاشسٹ سلوک کا ایک ہی نتیجہ نکل سکتا تھا‘ جو آج عوام اور مقامی و بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے سامنے آیا ہے۔ جب قیدی نمبر 804 سے کسی کو ملنے ہی نہیں دیا جائے گا تو ایسے میں عمران خان کی صحت اور سلامتی کے حوالے سے شبہات اور سوالات کاجنم لینا عین قدرتی امر ہے۔
عمران خان کی قیدِ تنہائی کے حوالے سے حقیقتِ ثانی: انگریزی زبان میں واردات سے پہلے اس کے نتائج اور عواقب کا جائزہ لینے کے لیے دو الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے پہلا لفظ ہے Water testing‘ جبکہ دوسرا لفظ Desensitization کہلاتا ہے۔ دونوں کے معنی اگرچہ مختلف ہیں لیکن ان کا مقصود یا ٹارگٹ ایک ہی ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ حکومتوں نے جوکام کرنا ہو‘ اس کے بارے میں افواہ کو خبر اور خبر کو افواہ کی صورت میں تجرباتی غبارہ بنا کر لانچ کیا جاتا ہے۔ جس ماحول میں عمران خان کو انسانوں سے دور کرکے آئسو لیٹ کیا گیا‘ اس تناظر میں یہ سوال بہت جائز ہے کہ اگر حکمرانوں کی نیت میں کوئی فتور نہیں تو پھر عمران خان کو کس قانون اور ضابطے کے تحت بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر کے قیدِ تنہائی میں بھی مزید تنہائی کی سزا دی جا ر ہی ہے۔
یہ بات تو اب کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہی کہ عمران خان پاکستان کے لوگوں کی امید‘ امتِ مسلمہ کی توجہ کا مرکز اور ملک کا عالمی چہرہ ہے۔ کوئی عام قیدی بھی اگر ان حالات میں ہو تو اس کے اہلِ خانہ اور احباب خاموش ہو کر بیٹھ جائیں تو سمجھیں کہ وہ اس کے ہمدرد نہیں تماش بین ہیں۔ جمعرات کی صبح سویرے اللہ کا نام لے کر میں نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو پرسنل سیل فون سے میسج کیا کہ آپ ٹرائل کورٹ کے حکم کے مطابق عمران خان کی ذات اور حفاظت کے کسٹوڈین ہیں‘ پچھلے تیس گھنٹے سے پی ٹی آئی اور پاکستانی قوم کے ساتھ ساتھ دنیا بھی یہ جاننا چاہتی ہے کہ کیا عمران خان اب بھی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ ساتھ ہی میں نے تین سوال عمران خان کی صحت اور سلامتی کے حوالے سے بھی لکھ کر بھیجے۔ ہمارے دوست اور معتبر صحافی حامد میر صاحب نے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی اس آواز کو اپنے ایکس اکاؤنٹ سے ٹویٹ کر دیا۔
سرکار‘ دربار اور اڈیالہ کے سرکاری اہلکار مجرمانہ خاموشی کا شکار ہیں۔ میں ان سب سے کہتا ہوں: یاد رکھیں! عمران خان نے اپنے خلاف اپنی سلامتی کے حوالے سے ایڈوانس نامزد ایف آئی آر درج کروا رکھی ہے۔ دورِ جبر کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ طالع آزما جبرو ستم کی زبان کو اپنے کانوں کے لیے موسیقی سمجھتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved